عادل فراز

فرانس میں مسلسل پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے توہن آمیز کارٹونوں کی نشرواشاعت ہورہی ہے ۔مختلف اخبارات و رسائل ،سوکالڈ مذہبی و سماجی تنظیمیں اورادارے سرکاری سرپرستی میں یہ کام انجام دے رہے ہیں ۔جس ملک کا صدر اسلاموفوبیا کا شکار ہو اس ملک کے ذرائع ابلاغ اور سرکاری تنظیموں سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔فرانسیسی صدر میکرون متعدد بار ایسے بیانات دے چکے ہیں جن سے ان کی اسلام دشمنی کا اظہار ہواہے ۔انہوںنے بار ہا کہاہے کہ’ مذہب اسلام پوری دنیا میں ’بحرانی کیفیت کا شکار‘ ہے اور ذریعہ ٔ بحران بھی بنا ہواہے۔ اُن کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے سنہ 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی‘ ۔صدر میکرون ذہنی طورپر معذور اور فکری سطح پر اپاہج شخصیت کے حامل ہیں ۔ان کے کردار اور کارناموں کے بارے میں زمانہ جانتاہے جس کا تذکرہ کرنا یہاں اہم نہیں ہے ۔فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے مگر مقدس شخصیات کی اہانت کرنا اظہار رائے کی حدود کی خلاف ورزی ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس اہانت کے نتیجہ میں ایک ٹیچر کے قتل کا معاملہ ظہور پذیر نہیں ہوتا۔صدر میکرون نےٹیچر’ سیمیول پیٹی‘ کے قتل کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ’سیمیول پیٹی اس لئے قتل کئے گئے کیونکہ اسلام پسند افراد ہمارے مستقبل پر مسلط ہونا چاہتے ہیں،لیکن فرانس میں اہانت رسولؐ کے کارٹونوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا‘‘۔انہوں نے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے ردعمل کو غیرضروری قراردیتے ہوئے کہاکہ ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے ۔میکرون کا یہ رویہ غیر جمہوری اور آمرانہ ہے ۔وہ اسلاموفوبیا کا شکار ہیں جس سے باہر نکلنے کے لئے انہیں نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔


فرانس کے ساتھ تمام یوروپی عوام اور یوروپی نظام سے متاثر افراد سے سوال ہے کہ آیا یہی سیکولر اور لبرل ریاستی نظام ہے جس پر دنیا کو فخر ہے ۔اگر ایک سیکولر اور لبرل ریاست کا مقصد اسلام دشمنی کو فروغ دیناہے تو پھر سیکولر نظام اور دیگر رائج نظاموں میں کیا فرق ہے جن پر یوروپ تنقید کرتارہتاہے ۔کسی بھی اسلامی ملک میں کبھی عیسائیوں اور یہودیوں کے پیغمبروں اور مقدس شخصیات کی اہانت نہیں کی گئی ،کیونکہ مسلمانوں کے یہاں ان تمام پیغمبروں اور مقدس شخصیات کا مذہبی احترام موجود ہے ۔یوروپی نظام اسلامی نظام کو کمزور اور ناقص تصور کرتاہے اور اپنے ریاستی نظام کو مکمل اور نجات دہندہ قرار دیتاہے ۔اس کے باوجود اسلامی نظام حکومت میں دیگر مذاہب کی محترم اور مقدس شخصیات کا احترام ملحوظ رکھاگیاہے اور ان کی اہانت کو جائز قرار نہیں دیا گیا ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یوروپ میں مسلسل اسلامی مقدس شخصیات کی اہانت کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات معرض وجود میں آتے رہتے ہیں ،جن سے یوروپی ریاستی نظام (سیکولر و لبرل نظام) کا دورخی رویہ اور منافقانہ کردار واضح ہوجاتاہے ۔فرانس جس کی حکومت خودکو سیکولر کہلواتی ہے ،اسلامو فوبیا کا شکار ہے اور مسلسل اسلام کی مقدس شخصیات کی اہانت ان کا وطیرہ ہے ۔اس کے باوجود یوروپ میں تیزی کے ساتھ اسلام کا فروغ ہواہے اور اسلامی فکرو فلسفے نے نوجوانوں کو بیحد متاثرکیاہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ یوروپی سیکولر و لبرل نظام خود ان کے نوجوانوں کے لئے اطمینان بخش نہیں ہے ۔ان کا اسلام کی طرف راغب ہونا یہ بتلا رہاہے کہ اسلامی نظام حکومت نجات دہندہ اور مستقبل اندیش ہے ۔


اس مسئلے میں ہندوستانی سرکار فرانس کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ۔وزارت خارجہ ہند نے فرانس کی حمایت میں بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہندوستانی سرکار فرانسیسی صدر میکرون کی ذاتیات پر کئے جارہے حملوں کی سخت مذمت کرتی ہے،یہ عالمی مذاکرتی معیار اور اسکے ضوابط کی خلاف ورزی ہے ۔ہندوستانی سرکار دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے استاذ( گستاخ رسولٔ) کے قتل کی بھی مذمت کرتی ہے جس نے پوری دنیا کو لرزادیاہے ۔ہم مقتول ٹیچر ،اس کے اہل خانہ ،اور فرانس کے عوام کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں ‘‘۔یہ ہندوستانی وزارت خارجہ کا سرکاری بیان ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی چرچ میں ہوئے حملے اور استاد سیمیول پیٹی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔انہوں نے کہاہے کہ ’ہندوستان دہشت گردی کے ساتھ جنگ میں فرانس کے ساتھ کھڑاہے ‘۔ان بیانات سے یہ صاف ہوجاتاہے کہ ہندوستانی سرکار گستاخ رسولؐ کے قتل اور فرانسیسی صدر کی چوطرفہ مذمت پر فکر مند ہے مگراسے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی شان اقدس میں کی گئی گستاخیوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے ۔وزیر اعظم مودی چرچ میں ہوئے حملے کو ’دہشت گردانہ حملہ‘ قرار دیتے ہیں مگر پیغمبر اسلامؐ کی توہین کو ’دہشت گردی‘ کے فروغ کا ذریعہ قرار نہیں دیتےیہ تعجب خیزہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ نے رسول اکرمؐ کی شان میں کی گئی گستاخی اور توہین آمیز کارٹون کی اشاعت پرکوئی تبصرہ نہیں کیا۔فرانس میں جس طرح پیغمبر اسلام ؐ کے کارٹون کی نشر و اشاعت کے خلاف ایک ٹیچر کا قتل ہواہے ،اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی مگر جس طرح فرانس کی حکومت نےغیر قانونی و غیر جمہوری طرز پر ٹیچر کے قتل کا قصاص لیاہے ،اس کی بھی مذمت کی جانی چاہئے ۔صدر میکرون فرانس میں پیغمبراسلامؐ کے اہانت آمیز کارٹون کی نشرواشاعت پر قدغن کی بات نہیں کرتے ،بلکہ وہ ایسے شرپسند اور اسلامو فوبیا کے شکار عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔فرانسیسی صدر کا یہ جانبدارنہ اور غیر جمہوری رویہ شرمناک ہے ۔ہندوستانی وزارت خارجہ کی توجہ اس طرف نہیں گئی ،یہ حیرت ناک ہے ۔وزارت خارجہ ٹیچر کے قتل کو عالمی مسئلہ قراردیتی ہے مگر پیغمبر اسلامؐ کی اہانت کو عالمی مسئلہ قرار نہیں دیتی۔اس کامطلب یہ ہے کہ ہندوستانی وزارت  خارجہ کا مؤقف عام مسلمانوں کے خلاف ہے اور وہ فرانس میںجاری اہانت رسول کے واقعات کی حمایت کررہی ہے ۔در اصل یہ مؤقف ہندوستان کانہیں ہے بلکہ برسراقتدار جماعت کا ہے ،جس کی قومی سیاست کا سارا دارومدار اسلام اور مسلمان دشمنی پر منحصر ہے ۔اس لئے عالمی سطح پر اس بیان کو اسی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے ۔
ہندوستانی سرکارنے فرانس کی حمایت کا اعلان کرکے یہ واضح کردیاہے کہ ان کے نزدیک ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے ۔آرایس ایس اور بی جے پی مسلسل مسلمانوں کو یہ جتلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان قوم اور ان کے مذہبی جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔فرانس کی حمایت کرکے انہوں نے کوئی نئی تاریخ رقم نہیں کی ہے ۔سی ۔اے۔اے۔ ،این آرسی ،بابری مسجد قضیہ ،لو جہاد اور مسلم نوجوانوں کے فرضی انکائونٹر کا مسئلہ،ملک کےعظیم اقلیتی اداروں کو دہشت گردی کے اڈّے بتلانا،مسلمانوں کو پاکستان جانے کی دھمکیاں دیتے رہنا اور نہ جانے کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جن کے اظہار کے ساتھ آرایس ایس اور بی جے پی نے مسلمانوں کو یہ واضح پیغام دیاہےکہ ہندوستان کی موجودہ سیاست میں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔آرایس ایس کے حمایت یافتہ الکٹرانک چینل مقدس شخصیات کی توہین کرتے رہے ہیں ۔لہذا پیغمبر اسلام ؐ کی توہین پر فرانس کی حمایت کرنا ان کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا ۔ہمیں قطعی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہندوستانی سرکارنے ’رافیل ڈیل‘ سے متاثر ہوکر فرانس کی حمایت کی ہے ،بلکہ یہ استعماری نظام کی تاثر پذیری کا نتیجہ ہے جس کی جڑیں ہندوستان میں مضبوط ہوچکی ہیں ۔دونوں ملک اسلاموفوبیا کا شکار ہیں اور دونوں ملکوں کے اقتدار پر مسلط افراد ایک ہی ذہنیت کے حامل ہیں ۔


فرانس کے سرکاری مؤقف کے خلاف تمام مسلمان ملک متحد دکھائی دے رہے ہیں ۔فرانس کے ساتھ تجارتی تعلقات اور ان کے پراڈکٹس کے بائیکاٹ کا مسئلہ اٹھایاجارہاہے ۔ہمارے نزدیک اس صورتحال سے نمٹنے کا واحد حل مسلمانوں کا اتحاد ہے ۔اگر عالم اسلام متحد ہوکر اسلام دشمن اور اسلاموفوبیاکی شکار طاقتوں کا مقابلہ کرے تو نتائج بہت جلد سامنے آئیں گے اور دیرپا ہوں گے ۔مسلمانوں میں اتحاد و اخوت کا قیام استعماری طاقتوں کے زوال اور خاتمے کی علامت ہے ۔اگر یہ اتحاد قائم ہوتاہے تو دوبارہ کسی ملک میں ہماری مقدس شخصیات کے خلاف انگشت نمائی کی جرأت پیدا نہیں ہوگی ۔اس اتحادی فرنٹ کا قیام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں !