عادل فراز

عادل فراز

فلسطین کی آزادی کا خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوگا یہ تو یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ عالم اسلام کا انتشار اور ان کی استعماری تملق پرستی نے فلسطینی عوام اور القدس کو غلامی کی زنجیروں کے حوالے کردیاہے ۔اگر عالم اسلام ایک آواز میں فلسطین کی آزادی کے لئے صدائے احتجاج بلند کرتا تو آج ’صدی معاہدہ‘ کا منصوبہ پیش نہ کیا جاتا اور نہ ’بیت المقدس‘ کو اسرائیل کا پایہ ٔ تخت قراردینے کا مذموم عمل انجام دیا جاتا۔حیرت یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک فلسطین کے مسئلے پر اسرائیلی نظریات کے حامی ہیں اور فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو دہشت گرد تسلیم کرتے ہیں۔چونکہ مسلم ممالک کے اقتدار کا سارا انحصار استعمار ی طاقتوں پر ہے اس لئے ان ملکوں کے بادشاہ اور شہزادے اپنے اقتدارکی کرسی بچانے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔سعودی عرب جیسا مسلم ملک یمن ،شام اور فلسطین میں امریکی اور اسرائیلی دہشت گردی کو فروغ دینے میں اپنا بھر پور تعاون دیتا رہاہے ۔ان مسلم ملکوں کے سیاسی معاملات ان کے اپنے اختیار میں نہیں ہیں ۔استعمار جب چاہتاہے کہ اقتدار کا پانسہ پلٹ دیتاہے اور یہ ملک اپنی بے بسی پر سوائے آنسو بہانے کے اور کچھ نہیں کرپاتے ۔لہذا یہ کہنا جلد بازی ہوگی کہ مسئلۂ فلسطین پر عالم اسلام کی بے حسی کا طلسم کب ٹوٹے گا،کیونکہ غلامانہ ذہنیت کبھی آزادی کے خواب نہیں دیکھا کرتی ۔

ڈونالڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آتے ہی استعماری طاقتیں پہلے سے زیادہ فعال نظرآئی ہیں ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک تاجر ہیں اور تاجر اپنے مفاد کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتاہے ۔امریکی صدر کا دامادجارڈ کشنر اسرائیلی نژاد ہے اور تجارت کے حربوں میں مہارت رکھتاہے ۔ٹرمپ اپنے داماد کے ساتھ مل کر فلسطین کی نابودی اور بیت المقدس کی غلامی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ ٹرمپ کو برسراقتدار لانے میں استعماری طاقتوں نےاپنی پوری طاقت صرف کردی تھی ،کیونکہ انہیں علم تھا کہ ان کے باطل منصوبوں کی تکمیل میں ٹرمپ اہم کردار نبھاسکتے ہیں،جبکہ سابق امریکی صدر براک اوباما استعماری امیدوں پر کھرے نہیں اترے تھے ۔اوباما دیگر امریکی صدور کی بہ نسبت زیادہ سلجھے ہوئے اور جنگ و خونریزی کے خلاف تھے ۔یہی وجہ ہے اوباما نے عالمی سطح پر اپنی دوراندیشانہ سیاست کا لوہا منوایا تھا مگر ٹرمپ نے امریکی مفادات پر اپنی ناقص پالیسیوں کے چلتے کاری ضرب لگائی ہے ۔خاص طورپر مشرق وسطیٰ میں ان کی آمرانہ حکمت عملی اور برتری کی تگ و دو نے امریکہ کی سالوں پرانی ساکھ کونا صرف دائوں پر لگایا بلکہ اس کی فوجی و اقتصادی طاقت کا بھرم کھول دیا۔


ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کے شہادت سے پہلے مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی طاقت کا بھرم تھا ۔مگر ڈونالڈ ٹرمپ کی عجلت پسند سیاست نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد اس بھرم کو خاک میں ملادیا۔ایران نے جس طرح عراق میں امریکی فوجی تنصیبات کو اپنے میزائلوں سے کامیابی کے ساتھ ٹارگیٹ کیا ،یہ ایک تاریخی حملہ تھاجس نے امریکی دادگیری اور فوجی طاقت کو تہس نہس کردیا ۔عین الاسد فوجی چھائونی پر ایرانی فوج کے حملے نے یہ ثابت کردیا تھاکہ امریکی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی ناقابل تسخیر نہیں ہے ۔ایران اور امریکہ کے درمیان ایک عرصے سے کشیدگی چلی آرہی تھی ،اور دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ ایران فقط گیدڑ بھبکی دینے میں مہارت رکھتاہے ،مگر عین الاسد پر ایرانی حملے کے بعد ایرانی فوجی طاقت کے تئیں دنیا کا نظریہ یکسر بدل گیا۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ امریکی فوجی عراق میں ٹہرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔بعض نفسیاتی مریض ہوچکے ہیں۔فوجوں کا انخلاء جاری ہے ۔پہلی بار عراقی پارلیمنٹ نے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بل پاس کرکے امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کیاہے ۔یہی صورتحال شام اور یمن کی ہے ۔شام میں امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ ہوچکاہے ۔یمن میں امریکی اور سعودی اتحاد کو شکست کا منہ دیکھنا پڑاہے ۔افغانستان میں مجبوراََ انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑا اور فی الوقت امریکی فوجی افغانستان سے باہر نکل رہے ہیں۔یعنی مشرق وسطیٰ میں امریکی داداگیری کا خاتمہ ہوچکاہے ۔رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی اور دنیا پر یہ ظاہر کردیا کہ امریکہ کے سُپر پاورہونے کے تمام تر دعوے کھوکھلے اور جھوٹے ہیں ۔اس کے بعد بھی اگر مسلم ممالک کی آنکھ نہیں کھلتی ہے اور وہ خود مختاری اور خودانحصاری کی طرف توجہ مبذول نہیں کرتےہیں تو انہیں غلامی کی زنجیروں سے کوئی طاقت آزاد نہیں کراسکتی ۔یہ ایک اچھا موقع ہے کہ امریکہ کی آمریت سے چھٹکارہ حاصل کرلیا جائے اور عالمی سطح پر مسلم ملکوں کا اتحادیہ عالم وجود میں آئے جو فلسطین کی آزادی کے لئے ٹھوس اقدامات کرے ۔مگر یہ ممکن نظر نہیں آتا۔کیونکہ سعودی عرب اور اس کے حلیف مسلم ممالک کو یہ یقین دہانی کرادی گئی ہے کہ ان کا اقتدار امریکہ اور اسرائیل کی غلامی میں ہی سلامت رہ سکتاہے ۔اس لئے اپنے اقتدار کی حفاظت کے لئے وہ کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے ۔


موجودہ صورتحال یہ ہے کہ فلسطین پر قبضے کے منصوبے کو عملی شکل دی جاچکی ہے ۔جبکہ یہ منصوبہ بقول رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای اس بچے کی مانند ہے جو ماں کے شکم میں ہی مرچکاہے،مگر استعمار پوری طاقت کے ساتھ اس کے نفاذ کی راہیں تلاش کررہاہے ۔یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرنا اس راہ میں پہلا قدم تھا ۔اگر ’صدی معاہدہ‘ نافذ ہوتاہے تو فلسطینی اپنی زمین پر رہتے ہوئے بھی مہاجروں اور غلاموں کی زندگی بسر کریں گے ۔ان کے تمام تر فوجی،شہری اور انسانی حقوق اور اختیارات سلب کرلیے جائیں گے ۔حد یہ ہے کہ انہیں انکی موجودہ آراضی سے نکال کر ایک علاحدہ بستی میں آباد کردیا جائے گا جہاں شہری ضرورتوں کی فراہمی کے لئے بھی انہیں اسرائیل کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا ۔فلسطین کو اپنی فوج اور پولیس رکھنے کا کوئی حق نہیں ہوگا ۔غرضکہ فلسطین کی خودمختاری اور آزادی کو سلب کرنے کے لئے اس منصوبے کا ڈرافٹ تیار کیا گیاہے ۔’صدی معاہدہ ‘ کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں سعودی عرب ،اسکے تمام حلیف مسلم ممالک ،دنیا کی تمام تر بڑی طاقتیں منجملہ چین اور یوروپی ممالک شامل ہیں۔


فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کے لئے پوری دنیا میں تن تنہا ایران ہی ہے جو مختلف طریقوں سے صدائے احتجاج بلند کرتاہے ۔رہبر کبیر اما م خمینیؒ نے فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کا جو خواب دیکھا تھا ،اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے ایرانی قوم نے اپنی پوری توانائی کے ساتھ کام کیاہےاور بے شمار قربانیاں پیش کی ہیں ۔رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہمیشہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میںسینہ سپر رہے ہیں ۔مگر عالم اسلام کی سوالیہ خاموشی اور بے حسی بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔اس رکاوٹ کودور کرنا آسان کام نہیں ہے ۔