عارف نقوی

Arif Naqvi

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

بہادر شاہ ظفر کے اس شعر کے مطلب آج زیادہ واضح ہیں ۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ دنیا، خاص طور سے ان کا وطن اور ان کے ہم وطن جن کے لئے انہوں نے اپنی جان کی بازی لگائی تھی انھیں بھلاتے جا رہے ہیں۔آج ہم اپنے قومی سورمائوں پر فخر کرتے ہیں۔ ان کے گن گاتے ہیں۔ ان کی شان میں ترانے لکھتے ہیں۔ مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں ، قصیدے لکھتے ہیں ، ڈرامے کھیلتے ہیں۔ ان کی عالیشان یادگاریں قائم کرتے ہیں۔ اور فخر کرتے ہیں۔ لیکن اپنے سچّے ہیرو کو، جس نے ہندوستان کی پہلی جنگِ آزادی کی رہنمائی کی اور اس کے لئے سب سے قیمتی قربانیاں دیں۔ اپنا سب کچھ گنوایا، یہاں تک کہ اپنے بیٹوں کے قلم کئے ہوئے سر دیکھے اور جسے انگریز سامراجی گرفتار کرکے دہلی سے برما کے رنگون تک بیل گاڑی سے لے گئے اور وہاں قید میں رکھ کر اور ذلیل کر کے مرنے کے لئے چھوڑ دیا کیونکہ اس نے آخری سانس تک انگریزوں سے سمجھوتا نہیں کیا اور اپنے وطن کی یاد کو سینے سے لگائے ہوئے یہ کہتا ہوا اس دنیا کو چھوڑ گیا:

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

اس بہادر شاہ ظفر کو آج اس طرح نظر انداز کر رہے ہیںجیسے دودھ میں سے کسی مکھی کو نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔

بہادر شاہ کا پورا نام ابو سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر تھا اور پیدائش ۲۴؍اکتوبر ۱۷۷۵ کو دہلی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد اکبر شاہ دوئم تھے اور والدہ لال بائی، جن کی گود میں بچپن سے انہوں نے انسانیت، شرافت، قومی اتحاد باہمی احترام اور محبت کے سبق سیکھے تھے۔جس کی جھلک ان کی اردو شاعری میں ملتی ہے۔

گرم رو کو عشق کی دل کی تپش دے ہے اڑا
ابر کو کب روک سکتی ہے بھلا زنجیر برق

وہ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے سب سے بڑے رہنما تھے جن کی قیادت میں شمالی ہندوستان کے سبھی مذہب و ملت کے عوام اورحکمراںملک کو انگریزی غلامی سے نجات دلانے کے لئے لڑائی میں متحد ہوئے تھے۔

غازیوں میں بُو رہے گی جب تک ایمان کی
تخت لندن تک چلے گی تیغ ہندوستان کی

بہادر شاہ کی وفات ۷؍ نومبر ۱۸۶۲ ء میں رنگون کی قید میں ہوئی ۔ یعنی آج سے ۱۵۸ برس قبل۔ میں سمجھتا تھا کہ اس سال ۷؍ نومبر کو شاید ان کے ہم وطن ، وہ لوگ جو اپنے بزرگوں خصوصاً سورمائوںکی یاد مناتے ہیں ، انھیں یاد کرتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں اس بار بھی آنسو نہ سہی کم سے کم دو بول سے بہادر شاہ اور ان کے ساتھیوں کویاد کرلیں گے۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہماری قوم کے احساسات جیسے اس مجاہد کے لئے مردہ ہو گئے ہیں اور ضمیر سو ہی نہیں بلکہ سوکھ گئے ہیںکہ ان کی وفات کے حالات اور پس منظر کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔جبکہ ان کی پیدائش سے زیادہ میری نظروں میں ان کے یوم وفات کی اہمیت ہے، جو ہمیں صرف بہادر شاہ کے انجام کی ہی یاد نہیں دلاتی ہے بلکہ ملک کی غلامی کی۔ اور ان کے ساتھ ان محب وطن ہندو مسلمان مجاہدوں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے مل کر قو می آزادی کے لئے لڑتے ہوئے قربانیاں دی تھیں۔ جن میں رانی جھانسی بھی تھیں، نانا صاحب بھی، بیگم حضرت محل بھی اور میرٹھ ، دہلی، جھانسی، کانپور اور لکھنئو اور دیگر جگہوں کے قوم پرست مجاہد بھی۔

کیا آج یہ ہمارا فرض نہیں ہے کہ بہادر شاہ کی عا لیشان یادگار قومی اتحاد، انسانیت اور انسانی محبت کے نام پرقو می پیمانے پر قائم کی جائے، جو ہمیں اپنی تاریخ کو سمجھنے، حب الوطنی اور باہمی محبت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کے لئے مل کر قدم اٹھانے کے لئے جذبہ پیدا کرے۔

۲۰۰۷ء میں جب ہندوستان کی جنگ آزادی کی ۱۵۹؍ ویں سالگرہ منائی جارہی تھی تو اس سے قبل لندن کے ایک ہندوستانی ریستوراں میں دانشوروں نے میرے پرانے وست ڈاکٹر ودیا ساگر آنند (مرحوم) اور میرے مشورے پر ایک اہم مشاورتی جلسہ کیا تھا اور اس بات پر زو دیا تھا کہ بہادر شاہ ظفر کے باقیات (مٹی) کو رنگون سے لاکر ان کے وطن ، بلکہ جائے پیدائش میں ایک تاریخی قومی یادگار قائم کی جائے جو ہماری موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کو حب الوطنی اور باہمی اتحاد کا سبق دے۔ ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا تھاکہ جنگ آزادی کی ۱۵۰ ویں یادگار منانے اور ان کی مٹی کو واپس لا کر قومی یادگار بنوانے کے لئے عالمی تحریک چلائی جائے۔ چنانچہ ایک رائے سے ایک انٹرنیشنل کمیٹی کی تشکیل دی گئی تھی جس کا صدر لندن سے ڈاکٹر ودیا ساگر آنند(مرحوم) کو، نائب صدر عارف نقوی(راقم) کو برلن سے اور ساحر شیوی (مرحوم) کو لیو ٹن برطانیہ سے چنا گیا۔ لندن کے پروفیسر محمد عارف کو ناظم چنا گیا۔ ہم نے اس کمیٹی کی طرف سے ہندوستان کے ممبر پارلیمنٹ، وزراء اور دانشوروں کے نام ایک اپیل جاری کی اورانہیں بھیجی کہ وہ اس سلسلے میںعملی قدم اٹھائیں۔جس کا ابتداء میں مثبت اثر بھی سامنے آیا۔ مثلاً دہلی میں پرانے تحریک آزادی کے مجاہد اور پارلیمنٹ کے رکن محترم ششی بھوشن اور بعض دیگر لوگوں نے ہماری اپیل پر لبیک کہا اور لال قلع تک میں اس بات کے لئے میٹنگ کی۔ ہم نے ڈاکٹر ودیا ساگر آنند کی رہنمائی میں ایک ضخیم کتاب بھی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بارے میں تیا رکی، جو اردو اور ہندی میں شائع ہوئی۔ برلن سے اردو انجمن نے بھی لبیک کہا اور ایک بڑا جلسہ ہائنرش بوئیل فائونڈیشن کے اشتراک سے اس کی عمارت میں کیا ، جس میں میری دعوت پر الہ آباد سے پروفیسر علی احمد فاطمی نے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنس آئی سی سی آر کی طرف سے شرکت کی، اور ہندوستانیوں ، پاکستانیوں اور جرمنوں نے مل کر یہ آواز اٹھائی۔لیکن وقت کے ساتھ ہماری یہ آواز ٹھنڈی پڑ گئی اور ہمارا ملک اپنی اس مانگ کو بھول گیا۔ اس کی نظروں میں شاید قومی اتحاد سے زیادہ دیگر امور کی اہمیت تھی۔

کتنا ہے بد نصیب ظفر ؔدفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر کی قبر کے پاس کی مشت بھر مٹّی کو لا کر ان کی یادگار قائم کرنے میں کوئی قانونی مشکلات نہیں ہیں۔ اگر مشکلات ہیں تو وہ صرف نیت کی ہیں۔ورنہ تاریخ میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

۱۸۵۱ء میں جب فرانس میں ریپبلک قائم ہو گئی تو نپولین بونا پارٹ کے جسد خاکی کو St. Helena سے لاکر پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا تھا اور بیس برس بعد ایک شاندار یادگار Dom des Invalidesقائم کی گئی تھی۔ اسی طرح آئر لینڈ کے رہنما Sir Roger Casement جنہیں ۱۳؍ اگست ۲۹۱۶ء کو لندن کی جیل میں پھانسی دی گئی تھی، ان کی لاش کو پچاس سال بعد ۱۹۶۵ء میں آئر لینڈ میں واپس لا کر فوجی اعزاز کے ساتھ ڈبلن میں دفنایا گیا تھا۔ آئر لینڈ کے صدر Emon de VGalera اور ان کے ساتھ تیس ہزار قوم پرستوں نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔ اور ایک مثال جو خود ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ امرتسر کے جلیان والا باغ میں قتل عام کا حکم دینے والے قاتل میخائیل او ڈائر Michael O’ Dwyerسے انتقام لینے کے لئے ایک سکھ انقلابی اُدھم سنگھ Udham Singh لندن تک پہنچا تھا اورمارچ ۱۹۴۰ء میں لندن کے کیکسٹن ہال Caxton Hall میں اس نے اس قاتل میخائیل او ڈائرسے جلیان والا باغ کے سیکڑوں بے گناہوں کی جان کا بدلہ لیا تھا اور اسے قتل کی تھا۔ پھر جب عدالت میں اس کا نام پوچھا گیا تو اس نے اپنا نام رام محمد آزاد بتایا تھا۔ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ مذہب اور ذات پات کے فرق کو نہیں مانتا ہے اور اس کا ملک ان سب مذاہب کے لوگوں کا ہے۔ ۳۱؍ جولائی ۱۹۴۰ء کو اُدھم سنگھ کو لندن کی Pentonvilleجیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ جولائی ۱۹۷۴ء میں اس کی لاش کو ہندوستان واپس لایا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت اس کی لاش کے استقبال میں صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم ہوائی اڈّے پر موجود تھے۔

کاش کہ ہم نے ان مثالوں سے کچھ سیکھا ہوتا اور بہادر شاہ ظفر اور ساتھ ہی اودھ کی عظیم مجاہدہ بیگم حضرت محل کی قبروں کی کم سے کم مشت بھر مٹیوں کو لاکر دہلی اور لکھنئو میں مزار اور قومی یادگاریں قائم کی ہوتیں۔ یہ مت بھولئے کہ یہ وہی بہادر شاہ ظفر ہیں جن کی قبر کے سامنے کھڑے ہوکر سبھاش چندر بوس نے ہندوستان کو انگریزی غلامی سے آزاد کرانے کا عہد کیا تھا۔ کاش آج ان کی یادگاریں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی راجدھانیوں میں قائم کی جائیں جو انسانیت، حریت اور باہمی بھائی چارہ کے پیغام کے ساتھ قوموں کے بیچ محبت ، اتحاد اور اشتراک کے پیغامات کی بھی مظہر ہوں گی۔

ظاہر ہے کہ کہ اپنے وطن سے ہزاروں دور رہنے والے بر صغیر کے لوگ اپنے ہم وطنوں کی بے حسی پر صرف افسوس کا اظہار ہی کر سکتے ہیں اور ان کے ضمیر سے سوال ہی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ آج میں ایک بار پھر اپنے ہم وطنوں کے ضمیر کو کریدنے کی ہمت کر رہا ہوں۔ ہاں یہ بھی بتا دوں کہ یوروپین اردو رائٹرس ایسو سی ایشن نے بہادر شاہ ظفر اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو یاد کرنے کے لئے اس مہینے اتوار ۲۰؍ دسمبر کو ایک آن لائن عالمی ویبینار کا فیصلہ کیا ہے ۔

Berlin, 05. 12.2020
Arif Naqvi
Rudolf-Seiffert-Str. 58
10369 Berlin
Phone: 0049-17639423087