نئی دہلی: صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر میں تعلیمی سال 2021-22 کے لئے باضابطہ طور پر تعلیمی وظائف کا اعلان کیا۔واضح ہوکہ جمعیۃ علماء ہند اور ایم ایچ اے مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ دیوبند 2012 سے میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے غریب طلباء کو اسکالر شپ فراہم کررہی ہے اسی اسکیم کے تحت ہر سال انجینئرنگ، میڈیکل،ایجوکیشنل، جرنلزم سے متعلق یا کسی بھی ٹیکنیکل، پروفیشنل کورس میں زیر تعلیم مالی طور پر کمزور ایسے طلبہ کو اسکالرشب دی جاتی ہے جنہوں گزشتہ سال کے امتحان میں کم از کم 70% فیصد نمبر حاصل کئے ہوں ۔ رواں سال 2021-22 کے لئے اسکالر شپ فارم جمع کرنے کی تاریخ 20 جنوری سے 14 فروری 2022 ہے۔فارم ویب سائٹwww.jamiatulamaihind.org ڈاؤن لوڈ کئے جاسکتے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران مختلف کورسز میں منتخب ہونے والے 656 طلباء کو اسکالرشپ دی گئی تھی، جن میں ہندو طلبا ء بھی شامل تھے۔یہ اس بات کاعملی ثبوت ہے کہ جمعیۃ علماء ہندمذہب کی بنیاد پر کوئی کام نہیں کرتی ۔اہم بات یہ ہے کہ طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اب اسکالرشپ کی رقم بھی گزشتہ سال سے بڑھا کر ایک کڑوڑ کر دی گئی ہے اور آنے والے سالوں میں اس رقم میں مزید اضافہ کئے جانے کا منصوبہ ہے۔اسکالر شپ کے ساتھ ہی مولانامدنی کی ایماء پرمولانا حسین احمد مدنی چیئرٹیبل ٹرسٹ دیوبند اور ہندگرواکیڈمی دہلی کے باہمی تعاون سے ‘‘مدنی100’’ کے نام سے ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کا بھی آغاز کیا گیا ہے جس میں ذہین ،محنتی مگر مالی طور پر کمزور طلبہ کو مسابقاتی امتحانات کی تیاری کے لئے مفت رہائش کے ساتھ مفت کوچنگ فراہم کی جارہی ہے۔

اس موقع پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ان وظائف کا اعلان کرتے ہوئے ہمیں انتہائی مسرت کا احساس ہورہا ہے کہ ہماری اس ادنی ٰسی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حدتک سنورسکتاہے جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی جنگ اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتابلکہ اس جنگ میں سرخروئی حاصل کرنے کاواحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدوداورمشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا ، سچرکمیٹی کی رپورٹ اس کی شہادت دیتی ہے جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ مسلمان تعلیم کے شعبہ میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں ، مولانامدنی نے سوال کیا کہ کیا یہ خودبخودہوگیا یا مسلمانوں نے جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیارکی ؟ ایساکچھ بھی نہیں ہوا بلکہ اقتدارمیں آنے والی تمام سرکاروں نے ہمیں تعلیمی پسماندگی کاشکار بنائے رکھا انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اورلیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائزہوجائیں گے ، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں ہوتی رہیں ، انہوں نے زوردیکر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں ، ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں دینی ماحول میں ہمارے بچے اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں ۔انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ایسے اسکول و کالج بنائیں جہاں بچے دینی ماحول میں آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں ،اور جو پیسہ وہ اپنا سیاست ، نکاح اور شادیوں میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں وہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے بچے اور بچیوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کریں۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں جس طرح مفتی ،علماء و حفاظ کی ضرورت ہے اسی طریقے پر پروفیسر ،ڈاکٹر و انجینئر وغیرہ کی بھی ضرورت ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب مسلمان خاص کر شمالی ہندوستان کے مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں ، آج مسلمانوں کودوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے ، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگاکہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتاہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ انھیں حالات کے پیش نظر ہم نے دیوبند میں اعلیٰ عصری تعلیم گاہیں جیسے کہ بی ایڈکالج ، ڈگری کالج ،لڑکے اورلڑکیوں کے لئے اسکولس اور مختلف صوبوں میں آئی ٹی آئی قائم کئے ہیں جن کا ابتدائی فائدہ بھی اب سامنے آنے لگاہے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہندکا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کررہی ہے،چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتیب ومدارس قائم کررہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زوردینا شروع کردیا ہے جو روزگارفراہم کرتاہے ، روزگارفراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اورمسابقتی تعلیم سے ہے تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں انہیں فوراروزگاراور ملازمت مل سکے ، اور وہ خودکو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں ، انہوں نے کہا کہ اسی مقصدکے تحت جمعیۃعلماء ہند ضرورت مندطلبہ کو کئی برس سے تعلیمی وظائف دینے کا اہتمام کررہی ہے .