سید حامد سابق وی سی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی خدمات کے اعتراف میں جلسہ کا انعقاد

مرادآباد(مرتضیٰ اقبال ) ہندوستان کی مایہ ناز شخصیت سید حامد سابق وی سی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جو مرادآباد کے باشندے تھے اور جنھیں سر سید ثانی کہا جاتا ہے جنھوں نے سول سروسز تعلیمی سینٹر قائم کر کے ملت کے ذہین طلباء کو ترقی کے مواقع فراہم کئے ان کی ذات اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کر کے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی غرض سے ایک جلسہ کا انعقاد مرادآباد کے تاریخی شوکت باغ میں کیا گیا۔

اس موقع پر ، اردو ماہانہ میگزین “نیا دور” کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے اپنے گھروں میں اردو پڑھنے اور پڑھانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے گھروں سے اس کی شروعات کرنی چاہئے ، ہمیں اپنے بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ اردو کی بھی تعلیم دلانیچاہیے، خاص کر بیٹیوں کوضرور پڑھانا چاہئے جنھیں دوسرے گھر جانا ہوتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ جب یہ بیٹیاں شادی کے بعد اپنے گھر جائیں گی تووہاں اردو کااجالا بھی پھیلائیں گی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے اقبال مرادآبادی نے کیا حمد و نعت کے بعد یوپی ورکنگ جنرلسٹ یونین کے صوبائی صدر حسیب صدیقی نے کہا کہ اردو ہندی دو سگی بہنیں ہیں لہذا جو لوگ اردو سے نفرت کر رہے ہیں وہ اپنی اصلاح کر لیں حسیب صدیقی نے اپنی تقریر میں ان لوگوں کو متنبہ کیا جو فرضی طور پر خود کو یوپی ورکنگ جرنلسٹ یونین سے وابستہ بتا رہے ہیں۔

سلیم اختر نے کہا کہ سر سید کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہی ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔ سردار گرویندر سنگھ نے کہا کہ مرزا مرتضیٰ اقبال حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے علمبردار ہیں جو خلوص دل سے اردو صحافیوں اور مجاہدین آزادی کو بلا تفریق مذہب و ملت خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ہندوستان کی سابقہ مشترکہ تہذیب کی یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یوپی ورکنگ جرنلسٹ یونین کے صوبائی جنرل سکریٹری پی کے تیواری نے کہا کہ اردو دنیا کی مقبول ترین زبان ہے اور اپنی مٹھاس لطافت نزاکت اور قوت اظہار کی وجہ سے دنیا کے تمام خطوں میں بولی جاتی ہے انھوں نے کہا کہ اردو صحافیوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں جو قائدانہ کردار ادا کیا میں اس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ڈاکٹر عبید اقبال عاصم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی و آل انڈیا تعلیمی کارواں کے کنوینر نے کہا کہ سر سید نے جس مشن کی ابتداء کی تھی در اصل اس میں ہی مسلمانوں کی کامیابی کا راز پنہا ہے۔ لہذا سر سید کے مشن کو جس عقیدت و احترام کے ساتھ سید حامد نے آگے بڑھایا ہم اس کے گواہ ہیں۔
میرٹھ سے تشریف لائے ڈاکٹر سلیم احمد ایڈو کیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ سر سید احمد خاں اردو کے سب سے بڑی صحافی تھے جنھوں نے اردو صحافت کی راہوں کا تعین کیا اور اردو کو سلیس اور سادا اردو سے رو شناس کرایا۔

پروفیسر راحت ابرار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں سب سے زیادہ سید حامد صاحب کے ساتھ رہا اور تقریبا ان کے ہر مشن میں شامل رہا انھوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا بے لوث و مخلص، متحرک اور ملت کے درد میں ڈوبا دوسرا شخص نہیں دیکھا یہ سید حامد کی خدمات کا ثمرہ ہے کہ انھیں سر سید ثانی کہا جاتا تھا۔

پروگرام کے کنوینر مرزا مرتضیٰ اقبال نے کہا کہ ماضی کے مطالعہ سے ہمیں رہنمائی حاصل ہوتی ہے اپنے بزرگوں کے تجربات و نظریات سے فیض حاصل ہوتا ہے انھوں نے کہا کہ اگر ہندوستان میں اگر اللہ تعالیٰ نے سر سید احمد خاں کو مبعوث نہ کیا ہوتا تو ہندوستانی مسلمانوں کا حال اسپین کے مسلمانوں سے بھی بدتر ہوا ہوتا

انھوں نے کہا کہ اردو نے ہندوستان میں مشترکہ تہذیب تشکیل دی تھی جو آزادی کے بعد چند فرقہ پرستوں کی شدت پسندی کا شکار ہو رہی ہے
جلسہ کی صدارت کر رہے ماسٹر محمد عتیق نے کہا کہ مرادآباد والوںنے ہمیشہ قابل فخر لوگوں کی نا قدری کی اس ضمن میں اکبر کے نورتن حاتم ، رستم، سر سید، جگر مرادآبادی، سید حامد، سعادت علی صدیقی، معصوم مرادآبادی، اور کئی دیگر اشخاص کی نا قدری کی اور آج بھی کر رہے ہیں انھوں نے سید حامد کی خدمات اور شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔

جلسہ میں مہمانان کو اعزازی نشان دیکر اور شال اوڑھاکر ان کی عزت افزائی کی گئی۔ جلسہ کے اختتام پر سر سید احمد خاں کی اہلیہ پارسا بیگم عرف مبارک کی قبر پر چادر پوشی اور فاتحہ خوانی کی گئی۔ جلسہ میں شہر و بیرون شہر کی متعدد اہم شخصیات نے حصہ لیا۔ یوپی ورکنگ جرنلسٹ یونین کے ضلع صدر راشد صدیقی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ جلسہ میں ڈاکٹر شہاب الدین، مرزا ارشد بیگ، ونود وکل، محمد جان ترکی، سلیم احمد بابری، پنکج ورما، نمت جیسوال، محمد ریاض، انوار وارثی، مسرور احمد، یدو نندن ترپاٹھی،اشتیاق حسین، ذاکر علی بیگ، معظم علی، شہزاد وغیرہ بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔