شرپسندوں کے خلاف کسی قانونی کارروائی کانہ ہونا انتہائی افسوسناک: مولانا ارشد مدنی


نئی دہلی 4 اپریل ؍2022
جمعیہ علا ہند کا امتیازی وصف رہا ہے کہ وہ جو کہتی ہے اسے پورا کرتی ہے اپنی اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس نے تری پورہ میں نہ صرف فساد متاثرین کی دادرسی کی بلکہ جو وعدہ یا یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کی تکمیل میں سرگرمی کے ساتھ مصروف ہے، چنانچہ پنچایت درگاہ بازار کے پاس واقع عیسی چڑھا مسجدکی تعمیر نو کا کام مکمل ہو چکا ہے ، اور آج اسے پنجگانہ نماز کی ادائیگی کے لئے نمازیوں کے سپرد بھی کر دیا گیا ،قابل ذکر ہے کہ 19 اکتوبر 2021 کی شب میں شر پسند عناصر نے متحد ہو کر مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو نذرآتش کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی مسجدوں میں بھی آ گ لگا دی تھیں ، جس کے نتیجہ میں یہ مسجد یں پوری طرح جل کر خاکستر ہو گئی تھیں ، ان میں عیسیٰ چڑھا مسجد بھی شامل تھی، جمعیۃ علماء ہند کا ایک نمائندہ وفدمولانا معصوم ثاقب جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء ہندکی قیادت میں جب وہاں گیا تھا تو مسلمانوں کے ساتھ مقامی ہندو برادری کے لوگوں نے بھی وفدکا گرم جوشی سے استقبال کیا تھا، پر دھان اور ممبران نے وفد کو بتایا تھا کہ مسجد کوجلانے والے باہر کے لوگ تھے اس وقت مسجد کے متولی نے وفد سے اس کی تعمیر نو کی درخواست کی تھی ، اور آج خدا کا شکر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی کوشش اور تعاون سے کچھ مزید سہولتوں کے ساتھ یہ مسجد دوبارہ تعمیر ہوچکی ہے، ریاست کی دیگر متاثرہ مسجدوں کی تعمیر نو یا مرمت کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی ، لیکن کاغذات کی کمی اور بعض قانونی پیچیدگیوں سے یہ کام ابھی شروع نہیں ہو پایا ہے، لیکن یقین ہے کہ جلد ہی ان تمام مسجدوں کی مرمت اور تعمیر نو کا کام بھی شروع ہو جائے گا، جمعیۃ علماء ہند نے فساد متاثرین کو مالی مدد دینے کا اعلان بھی کیا تھا تا کہ وہ اپنا کاروبار پھر سے شروع کرسکیں ، اس ضمن میں آج ساگر علاقہ میں دس دوکانداروں کو فی دوکان پچاس ہزار روپے کی مالی مددبذریعہ چیک کی شکل میں تقسیم کی گئی ،واضح رہے کہ اکتوبر 2021 میں بنگلہ دیش میں ہوئے واقعات کی آڑ میں فرقہ پرست تنظیموں نے تری پورہ میں اچا نک مسلم اقلیت کو اپنی حیوانیت وبر بر یت کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا ، یہ مذموم سلسلہ وہاں کئی روز تک جاری رہا تھا ، اس دوران نہ صرف مسلم اقلیت کے گھروں اور املاک کونشا نہ بنایا گیا بلکہ جگہ جگہ مذہبی عبادت گاہوں کو بھی آگ کے حوالہ کر دیا گیا تھا، اس موقع پر اپنے روعمل کا اظہارکرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ شر پسندوں کے ہاتھوں تری پورہ کی مسلم اقلیت کو جو زخم پہنچے ہیں وہ بہت گہرے ہیں یہ اسی وقت بھر سکتے ہیں کہ جب خاطیوں کو ان کے کئے کی سزامل جائے مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ تری پورہ کی سرکارخاطیوں کو سزا دینے سے دانستہ گر یز کر رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے تری پورہ کی سرکار سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ریاست کے مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائے اور خاطیوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرے مگر اس سلسلہ میں اب تک مایوسی ہی ہا تھ لگی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریاستی سرکار خاطیوں کوسیاسی تحفظ فراہم کر رہی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ایسے لوگوں کو اگر کھلا چھوڑ دیا گیا اور انہیں سیاسی تحفظ فراہم کیا گیا تو ان کے حوصلے مزید پڑھ سکتے ہیں اور وہ آئندہ بھی اس طرح کی مذموم حرکتوں سے ریاست میں امن و قانون کے لئے ایک مستقل خطر ہ بن سکتے ہیں ،خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک تب تک ترقی نہیں کر سکتا ہے جب تک کہ وہاں کی اقلیت کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے کسی بھی قوم یا برادری کے خلاف امتیازی رویہ اپنا کر ملک کو ترقی کے راستہ پرنہیں ڈالا جا سکتا،انصاف کے دو پیمانے ہرگز نہیں ہو سکتے قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے ، لیکن افسوس انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کر کے ملک کے امن وامان کو تباہ کرنے والے شر پسندوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے بلکہ ملک کی اقلیتوں میں مسلسل ڈرا ورخوف کا ماحول پیدا کیا جار ہا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے امن واستحکام کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، تری پورہ میں جو کچھ ہوا اس کی سچائی سامنے آ چکی ہے اب تر ی پورہ سرکار کو انصاف کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے ان خاطیوں کوقرارواقعی سزادینی چاہئے جنہوں نے تریپورہ کے امن وچین میں نہ صرف خلل ڈالابلکہ وہاں رہ رہے مسلمانوں کو اپنی حیوانیت اوربربریت کانشانہ بنایا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض سیاست دان اکثریت کو اقلیت کے خلاف صف آراء کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا سہارا لینے لگے ہیں تاکہ آسانی سے اقتدار حاصل کر سکیں اورحکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنا لیا ہے لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے ہی چلا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات بہت دھماکہ خیز ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں ہمیں متحد ہو کر میدان عمل میں آنا ہوگا ۔مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ ہمارا اختلاف اور ہماری لڑائی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں صرف ان طاقتوں سے ہے جنہوں نے ملک کے سیکولر قدروں کو پامال کرکے ظلم و جارحیت کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں طرح طرح کے غیر ضروری ایشوز اٹھا کر مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آ رہا ہے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، نئے نئے تنازعہ کھڑا کر کے مسلمانوں کو نہ صرف اکسانے کی کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ انہیں کنارے لگا دینے کی منصوبہ بند شا زشیں ہو رہی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ مثال ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں آگے بھی اسی طرح کا صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں آئندہ بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اورمشتعل کرنے کی کوششیں کر سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جدو جہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھاتھا وہ ایسی نفرت اورظلم وستم کاہندوستان ہرگزنہیں تھا ۔ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جس میں بسنے والے تمام لوگ نسل برادری اور مذہب سے اوپر اٹھ کر امن و آشتی کے ساتھ رہ سکیں۔