ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی


دنیا میں ہر انسان کی زندگی طے شدہ ہے۔ وقت معیّن آنے کے بعد ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی جا تی ہے۔ مقررہ وقت پر اس دنیا سے قبر والے گھر کی طرف منتقل ہوناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: { فَاِذَا جَآئَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَلَایَسْتَقْدِمُونَ} جب ان کا وقت آپہنچا پھر ایک سیکنڈ اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ { وَلَن یُّؤخِّرَ اللّٰہُ نَفْساً اِذَا جَآئَ اَجَلُہَا} جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا ہے۔ { کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْت} ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
انتقال کے بعد جتنی جلدی ہوسکے میت کو غسل وکفن کے بعد اس کی نماز ِجنازہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ نماز ِجنازہ فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر چند لوگ بھی پڑھ لیں تو فرض ادا ہوجائے گا۔ لیکن جس قدر بھی زیادہ آدمی ہوں اسی قدر میت کے حق میں اچھا ہے کیونکہ نہ معلوم کس کی دعا لگ جائے اور میت کی مغفرت ہوجائے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
٭ اگر کسی جنازہ میں ۱۰۰ مسلمان شریک ہوکر اس میت کے لئے شفاعت کریں (یعنی نمازِ جنازہ پڑھیں) تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (مسلم ۔ باب من صلی علیہ مائۃ شفعوا فیہ) ٭ اگر کسی مسلمان کے انتقال پر ایسے ۴۰ آدمی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ہیں، اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت (دعا) کو میت کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ (مسلم۔باب من صلی علیہ مائۃ شفعوا فیہ)
نماز ِجنازہ کی اتنی فضیلت ہونے کے باوجود انتہائی افسوس اور فکر کی بات ہے کہ باپ کا جنازہ نماز کے لئے رکھا ہوا ہے اور بیٹا نماز ِجنازہ میں اِس لئے شریک نہیں ہورہا ہے کہ اس کو جنازہ کی نماز پڑھنی نہیںآتی۔ حالانکہ جنازہ کی دعا اگر یاد نہیں ہے تب بھی نماز ِجنازہ میں ضرور شریک ہونا چاہئے، تاکہ جو رشتہ دار یا دوست یا کوئی بھی مسلمان اِس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کررہا ہے، اس کے لئے ایک ایسے اہم کام (نمازِ جنازہ کی ادائیگی) میں ہماری شرکت ہوجائے جو اُس کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔
نمازِجنازہ میں چار تکبیریں (یعنی چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا) ضروری ہیں، جن کی ترتیب اس طرح سے ہے :
پہلی تکبیر کے بعد : ثنا (سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ، یا پھر حمد وثنا کے طور پر سورہ فاتحہ پڑھ لیں۔
دوسری تکبیر کے بعد : درود شریف پڑھ لیں۔ صرف اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد پڑھنا بھی کافی ہے۔
تیسری تکبیر کے بعد: جنازہ کی دعا پڑھیں۔ احادیث میں دعا کے مختلف الفاظ مذکور ہیں، یاد نہ ہونے پر صرف اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتپڑھ لیں۔
چوتھی تکبیر کے بعد: سلام پھیر دیں۔
مسائلِ متفرقہ:
٭ نمازِ جنازہ میں تکبیر اولیٰ کے وقت یقینا دونوں ہاتھ اٹھائے جائیں گے، البتہ دوسری، تیسری اور چوتھی تکبیر کے وقت رفع یدین کرنے یا نہ کرنے میں علماء کا اختلاف ہے، ان شاء اللہ دونوں شکلوں میں نماز صحیح ادا ہوگی۔علماء احناف کے نزدیک رفع یدین نہ کرنا بہتر ہے۔
٭ اگر نماز ِجنازہ میں ایک یا دو یا تین تکبیریں چھوٹ گئی ہیں تو صف میں کھڑے ہوکر امام کی اگلی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہہ کر جماعت میں شریک ہوجائیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد صرف چھوٹی ہوئی تکبیریں (یعنی اللہ اکبر) کہہ کر جلدی سے سلام پھیر دیں کیونکہ چار تکبیریں کہنے پر نماز ِجنازہ ادا ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔
٭ حرمین شریفین میں تقریبا ًہر نماز کے بعد جنازہ کی نماز ہوتی ہے، لہذا فرض نماز سے فراغت کے بعد فوراً ہی سنن ونوافل کی نیت نہ باندھیں ، بلکہ تھوڑی دیر انتظار کرلیں کیونکہ نماز ِجنازہ پڑھنے والے کو بھی اجروثواب ملتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شحض کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ساتھ چلا یہاں تک کہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اس کو دفن کرنے میں بھی شریک رہا تو وہ دو قیراط اجر (ثواب) لے کر لوٹتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص نماز جنازہ میں شریک ہوا مگر تدفین سے پہلے ہی واپس آگیا تو وہ ایک قیراط اجر (ثواب) کے ساتھ لوٹتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
٭ جنازہ کی نماز مسجد کے باہر کسی میدان میں پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ البتہ مسجد کے باہر جگہ نہ ملنے کی صورت میں مسجد میں بھی نماز ِجنازہ ادا کرنے کی گنجائش ہے، مگر جنازہ کو مسجد کے باہر رکھ دیا جائے، چند حضرات باہر کھڑے ہوجائیں اور باقی لوگ مسجد میں رہیں تو پھر کوئی کراہیت بھی نہیں ہے۔
٭ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لئے طہارت یعنی کپڑوں اور بدن کا پاک ہونا، اسی طرح وضو کا ہونا ضروری ہے، یعنی بغیر وضو کے نماز جنازہ نہیں پڑھی جاسکتی ہے۔
٭ نمازِ جنازہ میں اگر لوگ کم ہوں تب بھی تین صفوں میں لوگوں کا کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ بعض احادیث میں جنازہ کی تین صفوں کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ (ابوداود)
٭ دیگر نمازوں کی طرح‘ مذکورہ تین اوقات میں نماز ِجنازہ بھی پڑھنے سے نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے:
۱) سورج طلوع ہونے کے وقت۔ ۲) زوال (ٹھیک دوپہر)کے وقت۔ ۳) سورج ڈوبنے کے وقت۔
٭ اگر جوتے کے پاک ہونے کا یقین نہیں ہے تو جوتے اتارکر نماز جنازہ پڑھیں۔
٭ جنازہ کی نماز میں تکبیر کہتے ہوئے آسمان کی طرف منہ اٹھانا بے اصل ہے۔
٭ اگر کسی مسلمان کو بغیر نمازِجنازہ کے دفن کردیا گیا ہو تو جب تک نعش کے پھٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو اسکی قبر پر نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
٭ کافر شخص کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائے گی، اسی طرح غسل یا کفن کا اہتمام بھی کافر شخص کے لئے نہیں ہے۔
٭ جس شہر یا جس علاقہ میں انتقال ہوا ہے اسی جگہ میت کو دفن کرنا زیادہ بہتر ہے، اگرچہ دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں میت کو منتقل کرکے وہاں دفن کرنا جائز ہے۔
٭ جو حضرات جنازہ کے ساتھ قبرستان جارہے ہیں، اُن کو قبرستان میں جنازہ زمین پر رکھنے سے پہلے بیٹھنا مکروہ ہے۔
٭ جنازہ کو قبرستان کی طرف تھوڑا تیز چل کر لے جانا بہتر ہے۔ جنازے کے دائیں بائیں پیچھے آگے ہر طرف چل سکتے ہیں۔ البتہ آگے چلنے کے مقابلے میں جنازہ کے پیچھے چلنا زیادہ بہتر ہے۔
٭ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ایک دو دن میت کے گھر کھانا بھیجنا اخلاق حسنہ کا ایک نمونہ ہے۔ (مسند احمد، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی) البتہ میت کے گھر والوں کا رشتہ داروں کو جمع کرکے اُن کو کھانا کھلانے کا خاص انتظام کرنا غلط ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاہے۔ (ابن ماجہ ۱۶۱۲ ۔ مسند احمد ۶۹۰۵)
نوحہ گری:کسی رشتہ دار کے انتقال پر دل یقینا غمگین ہوتا ہے۔ آنکھ سے آنسوبھی بہتے ہیں۔ مگر بآواز بلند اور مختلف لہجوں کے ساتھ رونے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نوحہ گری کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: گھر والوں کے زیادہ رونے پیٹنے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ (مسلم: اَلْمَیِّتُ یُعَذَّبُ بِبُکَائِ اَہْلِہِ)
غائبانہ نماز ِجنازہ: اگر کوئی مسلمان ایسے علاقہ میں فوت ہوجائے جہاں اس کی نماز ِ جنازہ ادا نہیں کی گئی تو ایسے شخص کی غائبانہ نماز ِجنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ شاہ حبشہ نجاشی فوت ہوئے تو وہاں کوئی اور مسلمان نہیں تھا ، لہذا خود حضور اکرم ﷺ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ اس واقعہ کے علاوہ کسی کی غائبانہ نماز ِجنازہ نبی اکرم ﷺ نے نہیں پڑھی۔ آپ ﷺ کے بہت سے جان نثار صحابہ ؓ، قراء صحابہ ؓ ، آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار ؓ، آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ ؓ ان سب کا انتقال حالت ِسفر میں ہوا۔ آپ ﷺ کو مدینہ منورہ میں خبر ملی تو آپ ﷺ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ اسی لئے علامہ ابن القیم ؒ اپنی کتاب ( زاد المعاد ج ۱۔ ص ۵۲۰) میں لکھتے ہیں کہ جس شخص کی نماز ِجنازہ پڑھی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نماز ِجنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی ؒنے اپنی کتاب (تلخیص احکام الجنائز ص ۴۸) میں لکھا ہے کہ جس شخص کی نماز ِجنازہ ادا کی جاچکی ہے اس کی غائبانہ نماز ِجنازہ نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ نبی اکرمﷺ کے بعد خلفاء راشدین میں سے کسی کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی۔برصغیر کے جمہور علماء کا موقف ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ مشروع ہی نہیں ہے، شاہ حبشہ نجاشی کے جنازہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے آپ ﷺ کے سامنے کردیا تھا جیسا کہ احادیث میں وضاحت موجود ہے۔
نماز پڑھئے قبل اس کے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ عقلمند شخص وہ ہے جو مرنے سے پہلے اپنے مرنے کی تیاری کرلے۔