عادل فراز

وزیر اعظم نریندر مودی تین روزہ امریکی دورے سے واپس آچکے ہیں ۔وزیر اعظم کا یہ دورہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے ۔کیونکہ مودی جی نے بائیڈن کے خلاف ٹرمپ کی حمایت میں’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کا نعرہ دیا تھا ،لہذا بائیڈن سےانہیں بہت زیادہ گرم جوشی کی توقع نہیں تھی ۔بائیڈن انتظامیہ نے بھی وزیر اعظم کے دورے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی ۔اس سے پہلے جس پرتپاک طریقے سےمودی جی کا استقبال امریکہ میں ہوا تھا ،اس بار سناٹا نظر آیا ۔خبروں کے مطابق ائیرپورٹ پر کوئی بڑا امریکی افسر انکے استقبال کے لیے موجود نہیں تھا ۔وہائٹ ہائوس میں بھی یہی نظارہ دیکھنے میں آیا۔امریکی صدر بائیڈن نے وزیر اعظم کا استقبال نہیں کیا اور نہ مودی جی نے روایت کے مطابق بائیڈن سے بغل گیر ہونے کی کوشش کی ۔کملا ہیرس نے بھی ملاقات کے دوران ہندوستان میں کمزورہوتی جمہوری قدروں پر بات کی اور جمہوری اداروں کو بااختیار بنانے پر زور دیا ۔بائیڈن نے بھی انہیں عدم تشدد اور رواداری کا پاٹھ پڑھا یا ۔بائیڈن نے کہا کہ اگلے ہفتے مہاتما گاندھی کا جنم دن ہے اور مجھے محسوس ہوتاہے کہ موجودہ زمانےمیں ان کے نظریۂ عدم تشدد،مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کوبہت زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ بائیڈن ہندوستان کی موجودہ صورتحال پر فکر مند تھے اور مودی کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے ۔چونکہ بائیڈن وزیر اعظم مودی کے بہت سے سیاسی فیصلوں کے زبردست ناقد رہے ہیں اس لیے انہوں نے ملاقات کے دوران بھی وزیر اعظم کے سیاسی نظریے پر لطیف پیرائے میں تنقید کی ۔
ہند نژاد امریکیوں کے درمیان بھی وزیر اعظم کی مقبولیت کا گراف کمزور پڑاہے۔اس بار ’ہائو ڈی مودی ‘ کی طرز پر کوئی پروگرام منعقد نہیں ہوا ۔ہندوستانیوں نے بھی انہیں صرف روایتی انداز میں خیرم مقدم کیا ۔میڈیا نے اس استقبال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیکن وہائٹ ہائوس کے باہر جو لوگ ’مودی گوبیک‘ کے پرچم بلند کیے ہوئےتھے ’گودی میڈیا ‘‘ نے انہیںنظر انداز کردیا ۔ان مخالفانہ پرچموں نے وزیر اعظم کی آنکھیں کھول دیں ہوں گی اور انہیں یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ ہندوستان کے باہر بھی ان کی مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے آیاہے ۔کسان تحریک نے بین الاقوامی سطح پر وزیر اعظم کی مقبولیت کو متاثر کیاہے ۔اس کے علاوہ ہندوستان میں جس طرح عدم برداشت کا بازار گرم ہے اور مذہبی رواداری ختم ہوتی جارہی ہے اس نے بھی بین الاقوامی سطح پرہندوستان کی ساکھ کو متاثر کیاہے ۔اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور کورونا جیسے پرآشوب دور میں حکومت کی غفلت نے وزیر اعظم کی سیاسی حیثیت کو نقصان پہونچایاہے ۔جس وقت کورونا کی دوسری لہر شباب پر تھی ،وزیر اعظم بنگال انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑی بڑی ریلیاں کررہے تھے اور ہری دوار کے کمبھ میلے میں زائرین کورونا کی پرواہ کیے بغیر ڈبکیاں لگارہے تھے ،اس وقت امریکی میڈیا نے حکومت کے رویے پر سخت تنقید کی تھی ۔لہذا امریکی میڈیا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ مودی جی کے امریکی دورے کو بہت زیادہ اہمیت دے گی ۔اگر وزیر اعظم ہندوستان کے ’فیک میڈیا نیٹ ورک‘ کی حرکتوں اور خیالی پلائو پکانے والی ذہنیت سے واقف ہیں تو انہیں زمینی سچائیوں کا علم ہونا چاہیے ۔کیونکہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور ناقص و منافرانہ سیاسی حکمت عملی ان کی ساکھ کو نقصان پہونچارہی ہے ۔بہتر ہوگا اگر وزیر اعظم اپنی سیاسی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور ہندوستان کی دن بہ دن بدتر ہوتی صورتحال کو قابو کرنے کی کوشش کریں ۔آسام میں اقلیتوں پر پولیس کا تشدد اور اترپردیش میں بڑھتے ہوئے فرضی انکائونٹرزپر انہیں فکر مندی دکھاتے ہوئے سخت کاروائی کرنی چاہیے ۔اگر پولیس کو اس قدر آزادی فراہم کردی گئی تو ہندوستان جو پہلے ہی آتش فشاں پر بیٹھاہواہے ،اگر کسی دن یہ آتش فشان پھٹ گیاتو اس کی زد میں بلاتفریق سبھی ہندوستانی آئیں گے ۔ایسے تمام واقعات عالمی میڈیا کی نظر میں ہوتے ہیں جو ملک کی سیاسی و سماجی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں ۔


وزیر اعظم نے تین روزہ دورے پر امریکی صدر بائیڈن کے ساتھ ملاقات کی ۔ان کی ملاقات کا دورانیہ ایک گھنٹے طے پایا تھا جو نوّے منٹ تک جاری رہا ۔ملاقات کے دوران مودی جی کچھ متذبذب اور پریشان نظر آرہے تھے ۔شاید ’نمستے ٹرمپ ‘ اور ’ہائو ڈی مودی ‘ کے زخم ہرے ہوئے ہوں گے ۔ظاہر ہے بائیڈن بھی ٹرمپ کے حق میں ان کے بیانات اور ریلیوں کو فراموش نہیں کرسکتے تھے۔پہلی بار ہندوستان کے کسی وزیر اعظم نے امریکی انتخابات میں اس قدر گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا ۔مودی جی کو یقین تھاکہ ایک بار پھر ڈونالڈ ٹرمپ اقتدار کی کرسی حاصل کرلیں گے ،لہذا نہوں نے اپنے دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ’اب کی بار ٹرمپ سرکار ‘ کا نعرہ بلند کیا ۔لیکن بدقسمتی سے ڈونالڈ ٹرمپ کو ذلت آمیز شکست نصیب ہوئی اور مودی جی کے خوابوں کا شیش محل پل میں چکنا چور ہوگیا ۔یہی وجہ ہے کہ بائیڈن سے ملاقات کے دوران وہ انتہائی فکر مند تھے ۔حالانکہ بائیڈن نے اچھےمیزبان کی حیثیت سے خوشگوار ماحول سازی کی پوری کوشش کی ،لیکن دونوں کے انداز گفتگو اور ’باڈی لنگویج ‘ سے اندازہ ہورہاتھا کہ ہاتھ تو مل گیے لیکن دل نہیں ملے ہیں ۔


وزیر اعظم مودی تین روزہ دورےمیں کواڈ سربراہی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے ۔اس اجلاس میں امریکہ اور ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک کے وزراء بھی شامل تھے ۔کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا جس کی رو سے انڈ و پیسیفک کو آزاد اور بااختیار بنانے کے لیے عزم کا اظہار کیا گیا ۔وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سےبھی خطاب کیا جو اس دورے کی روایت میں شامل تھا ۔وزیر اعظم نےخطاب کے دوران اپنی حصولیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کورونا وائرس سے نمٹنے میں حکومت کی کامیابی اور ’خودکفیل بھارت‘(آتم نربھر) کے عزائم پر بھی روشنی ڈالی ۔انہوں نے افغانستان کے تازہ حالات اور دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ۔انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کا اڈّہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی آگ اس کے بانیوں کو بھی جھلسادے گی ،لہذا پاکستان مقامی دہشت گرد گروہوں پر کاروائی کرے۔المختصر یہ کہ مودی جی کی تقریر اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی مشق معلوم ہورہی تھی ۔خطاب کے دوران وزیر اعظم نے گنگا میں تیرتی ہوئی لاشوں ،آکسیجن کی کمی ،کورونا سے ہونے والی اموات کی شرح ،روز بہ روز افزوں ہوتی ہوئی مہنگائی ،پیٹرول اور ڈیزل کی آسمان چھوتی قیمتوں اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کےبارے میں کوئی بات نہیں کی ۔ظاہر ہے بیرون ملک ان سے ایسے بیانات کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی ۔کیونکہ جب سرکار اپنے لوگوں کے درمیان حقائق بیان کرنے سے کترارہی ہو تو وہ ملک کے باہر حقیقت بیانی سے کیسے کام لے سکتی ہے ۔
وزیر اعظم تین روزہ دورے سے واپس آئے توڈھول اورتاشے پیٹ کر ان کا شاندار استقبال کیا گیا ۔ظاہر ہے ’گودی میڈیا ‘ کے ذریعہ ہندوستانی عوام کو یہ بارور کرانا بھی ضروری تھاکہ مودی جی امریکہ سے کامیاب پلٹ کرآئے ہیں ۔ورنہ اس قدر ناکامیوں اور امریکہ میں پر جوش استقبال نہ ہونے کے باجود ہندوستان آمد پر اس طرح ڈھول بجاکر استقبال کرنا مناسب قدم نہیں تھا ۔وزیر اعظم کو چاہیے کہ ملک کی خراب ہوتی ہوئی شبیہ کو سدھارنے پر توجہ دیں اور ذاتی تشہیر کے بجائے ملک کی ترقی کی بات کریں ۔اقوام متحدہ کے اسمبلی اجلاس میں خود کو ’چائے والا‘ بتاکر اپنی ترقی کے گن گان کرنا ،ملک کی تصویر نہیں بدلے گا ۔ملک کی تصویر بدلنی ہے تو ترقیاتی ایجنڈے پر کام کرنا ہوگا ۔یہ ترقیاتی ایجنڈہ علی گڑھ میںراجہ مہندر پرتاب سنگھ کے نام پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے سے طے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے دن و رات محنت کرنی ہوگی ۔کوئی بھی ہندوستانی یہ نہیں چاہے گا کہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام بدنام ہو ۔اس لیے مذہبی رواداری اور باہمی احترام کی فضا کو ہموار کرنا سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔لیکن جب تک سرکار میں زعفرانی اور خلجانی طبیعت کے رہنما ہیں یہ بدلائو ممکن نہیں ہے ۔