عادل فراز


مدت دراز کے بعدٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے خلاف ہندوستانی ٹیم کوشرمنا ک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ورلڈ کپ کے میچوں میں ہندوستانی ٹیم پاکستان کے لیے ناقابل تسخیر رہی ہے ۔لیکن اس بار ان کی جہد مسلسل رنگ لگائی اور پاکستانی کھلاڑیوں نے ہندوستانی ٹیم کے خلاف فتح حاصل کی ۔ہار اور جیت کسی بھی کھیل کا جزو لاینفک ہے ۔کھیل میں کبھی بھی دونوں ٹیمیں فتح یاب نہیں ہوتیں ۔ایک زمانے تک ورلڈ کپ میں ہندوستان نے پاکستانی ٹیم کو شکست دے کر تاریخ رقم کی ہے۔لیکن اس بار ایسا کیا ہوا کہ ہندوستانی ٹیم کی شکست کے بعد شدت پسند عناصر بوکھلاہٹ کا شکار نظر آرہے ہیں ۔ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی اجتماعی شکست کا ٹھیکرا ایک کھلاڑی ’محمد سمیع ‘ کے سر پھوڑا جارہاہے ۔جبکہ محمد سمیع کے علاوہ ٹیم کے دیگر بالروں کی کارکردگی بھی اس میچ میں ناقابل ذکر رہی ہے ۔مگر شرپسندوں کی تنقید کا نشانہ صرف اور صرف محمد سمیع پر ہے ۔کھلاڑیوں پر تنقید کرنا کھیل شائقین کا بنیادی حق ہے لیکن جب تنقید نفرت اورمذہبی عناد میں بدل جائے تو یہ ذہنی دیوالیہ پن کی علامت بن جاتی ہے ۔محمد سمیع پر تنقید کرنے والوں کی اکثریت ذہنی دیوالیہ پن کا ہی شکار ہے ۔وہ اس میچ میں محمد سمیع کی ناقص کارکردگی کو بہانہ بناکر ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اگل رہے ہیں ۔اسے ’غدار ‘ اور ’وطن دشمن ‘ کہا جارہاہے ۔پاکستان جانے کے طعنے دیے جارہے ہیں ۔ظاہر ہے ان نفرت آمیز بیانات کی نوعیت نئی نہیں ہے ۔زعفرانی و یرقانی تنظیموں نے ایک زمانے سے مسلمانوں کےخلاف اس طرح کی ماحول سازی کی ہے ،جس کا ثمرہ اس شکل میں سامنے آرہاہے ۔یہ طرز عمل ہندوستانی جمہوری نظام کے لیے انتہائی خطرناک ہے ۔مگر جمہوریت ہے کہاں ؟ مودی جی نے جمہوری نظام کو ناگپور کے ’کیسریاہیڈکواٹر ‘ میں قید کردیاہے ،جس کی رہائی کے آثارنظر نہیں آتے ۔


پاکستان کے خلاف اس میچ میں ہندوستانی ٹیم نے اجتماعی طورپر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ہندوستان کے اسٹار بلّے باز روہت شرما صفر پر آئوٹ ہوگئے ۔کے۔ایل۔ راہل جوروہت شرما کے ساتھ پاری کا آغاز کرنے کے لیے میدان پر اترے تھے ،صرف تین رن ہی اسکور کرسکے ۔دیگر کھلاڑیوں نے بھی ناقص بلّے بازی کا مظاہر کیا ۔فقط وراٹ کوہلی نے پاکستانی گیند بازی کے سامنے مزاحمت کرتے ہوئے 57 رنوں کی اچھی پاری کھیل کر ٹیم کو 151 کے اسکوتک پہونچنے میں مدد کی ۔اس کے بعد پاکستانی ٹیم بلّے بازی کے لیے میدان پر اتری ۔تجزیہ نگار وں کا دعویٰ تھا کہ ہندوستانی ٹیم کی بلّے بازی پاکستانی ٹیم کے بالمقابل زیادہ مضبوط ہے ۔لیکن معاملہ بالکل برعکس رہا ۔ہندوستانی بائولروں نے ناقص بائولنگ کا مظاہرہ کیا اور پاکستان بناکسی بلّے باز کے آئوٹ ہوئے میچ جیت گیا ۔محمد رضوان اور بابر اعظم نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 79 اور 68 رنز اسکور کیے ۔ہندوستان کی طرف سے بائولنگ کرتے ہوئے بھونیشور کمار نے تین اوروں میں 25 رنز دیے ۔محمد سمیع نے5.3 اوروں کی گیند بازی میں 43 رنز خرچ کیے ۔جسپریت بمراہ نے تین اوروں میں 22 رنز دیے ۔ورون چکرورتی نے چار اوروں میں 33 رنز اور رویندر جڈیجہ نے چار اوروں میں 28 رنز دیے ۔یعنی تنہا محمد سمیع ایسے بالر ہیں جنہوں نے چار اوروں میں سب سے زیادہ رنز دیے ۔لیکن یہ تو ہر میچ میں ہوتاہے کہ کوئی بالر بہت زیادہ کامیابی حاصل کرتاہے اور کسی بالر کو ایک وکٹ بھی ہاتھ نہیں آتی ۔محمد سمیع نے اس میچ سے پہلے ہندوستان کے لیے شاندار بائولنگ کا مظاہرہ کیاہے ۔اس کا بائولنگ ریکارڈ شاندار ہے ،جس پر کرکٹ کے ماہرین نے اس کی تعریف کی ہے ۔اس کے باوجود ہندوستانی ٹیم کی اجتماعی ناقص کارکردگی کا ٹھیکرا اکیلے محمد سمیع کے سر پھوڑنا اس نفرت آمیز سیاست کا ثمرہ ہے جو گذشتہ چھ سات سالوں میں عالم وجود میں آئی ہے ۔محمد سمیع ہندوستانی ٹیم میں تنہا مسلمان کھلاڑی ہیں ،اس لیے نفرت کے پجاریوں کو ہندوستانی ٹیم کی شرمناک شکست پر غصہ نکالنے کے لیے آسان ہدف محمد سمیع نظر آئے ۔جبکہ پورے میچ میں وراٹ کوہلی کی کپتانی زیر سوال رہی ۔یوں بھی وراٹ کوہلی کپتانی کے لیے اہل کھلاڑی نہیں ہیں ۔پاکستان کے خلاف میچ میں ہاردک پانڈیا ،بھونیشور کمار اور ورون چکرورتی کو ٹیم میں شامل کرنا درست فیصلہ نہیں تھا ۔خاص طورپر ہاردک پانڈیا جو گذشتہ میچوں میں ناکامیابی کا شکار رہے ہیں ،انہیں ایسے اہم میچ کے لیے ٹیم میں شامل کرنا غیر عاقلانہ فیصلہ تھا ۔


  اصل مسئلہ یہ ہے کہ نفرت کے سوداگروں کو اس بار پاکستانی ٹیم کو نیچا دکھانے اور ان کے تمسخر کا موقع ہاتھ نہیں آیا ۔اگر پاکستانی ٹیم شکست سے دوچار ہوجاتی تو ہمارے بعض بیکار بیٹھے ہوئے کھلاڑی ،کچھ بکواس بازی کرنے والے ٹی وی اینکرزاور بعض ناکام سیاست مداروں کو ’دیش بھکتی ‘ دکھانے کا موقع مل جاتا ۔میچ سے پہلے بڑے بڑے دعویٰ کرنے والے لوگ میچ کے بعد غائب ہوگئے ۔کسی نے وراٹ کوہلی کی ناقص کپتانی کو مورد تنقید قرار نہیں دیا کیونکہ پاکستان کے خلاف میچ میں ہندوستانی ٹیم کے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا۔جبکہ پاکستانی کھلاڑی ہندوستانی ٹیم کے خلاف پوری تیاری اور ہوم ورک کے بعد میدان پر اترے تھے ۔مگر وراٹ کوہلی کی بلّے بازی نے اس کی ناقص کپتانی پالیسیوں پر پردہ ڈال رکھاہے ۔جبکہ ایک عرصے سے اس کی بلّے بازی میں بھی وہ کرشمہ نظر نہیں آرہاہے جو اس کی شناخت کا ذریعہ تھا ۔مگر ہماری کرکٹ ٹیم جو ہمیشہ سیاست کا اکھاڑہ رہی ہے اس بار بھی کوہلی کی ناقص کارکردگی کی پردہ پوشی میں مصروف ہے ۔جس طرح ایک زمانے تک مہندر سنگھ دھونی کو بطور بلّے باز ڈھویا گیا جبکہ مہندر سنگھ دھونی کو کئی سالوں پہلے ریٹائر کردینا چاہیے تھا ۔یہی صورتحال سچن تندولکر کے ساتھ دیکھی گئی ۔بطور بلّے باز ان کی مسلسل ناکامیوں کو نظر انداز کیاگیا اور ایک مدت تک ’کرکٹ کے بھگوان ‘ کو ٹیم پر بوجھ کی طرح لادے رکھا گیا ۔اس کے برعکس بعض اچھے کھلاڑیوں کو وقت سے پہلے ٹیم سے باہر کردیا گیا کیونکہ ان کی سیاست ٹیم منیجمنٹ کے مزاج کے موافق نہیں تھی ۔آج بھی ہندوستانی کرکٹ بورڈ سیاست کا اکھاڑہ ہے جہاں وزیر داخلہ امیت شاہ کا بیٹا جئے شاہ ہندوستانی کرکٹ کنڑول بورڈ کا سکریٹری ہے ۔جبکہ بی جے پی کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہاہے کہ ہمارے یہاں کنبہ پروری نہیں ہے ۔جئے شاہ جس کے پاس کرکٹ کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں ہے ،اسے ہندوستانی کرکٹ بورڈ میں بطورسکریٹری نامزد کرنا کنبہ پروری کی سیاست کا ہی شاخسانہ ہے ۔
قابل غور یہ ہے کہ ہندوستان میں روز بہ روز اقلیتی طبقے کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے ۔محمد سمیع تو ایک اچھا کھلاڑی ہے جو اگلے کچھ میچوں میں اپنی کارکردگی کے ذریعہ ایک بار پھر ناقدین کو منہ توڑ جواب دینے کی اہلیت رکھتاہے ۔لیکن آسام ،تری پورہ اور اترپردیش میں مسلمان نفرت آمیز سیاست کے مقابلے میں کس طرح اپنا دفاع کریں ،یہ اہم سوال ہے ۔کیونکہ ہماری پولیس ،حفاظتی دستے اور قانونی ایجنسیاں بھی ’کیسریا سیاست‘ کی شکار ہوچکی ہیں ۔آسام میں جس طرح ایک غریب مسلمان شخص کو پولیس نے گولی ماری اور اس کی لاش کے ساتھ پولیس کی موجودگی میں فوٹو جرنلسٹ نے جس طرح انسانیت سوز سلوک کیا ،اس سےاندازہ ہوتاہے کہ ملک کی فضا میں کتنا نفرت کا زہر گھول دیا گیا ہے ۔تری پور ہ میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر شرپسند مسلسل حملے کررہے ہیں ۔بنگلہ دیش میں شرپسندوں کے ذریعہ ہندو مندروں کو نشانہ بنایا گیا تھا ،اس کا انتقام تری پورہ کے مسلمانوں سے لیا جارہاہے ۔الگ الگ علاقوں میں شرپسندوں کی ٹولیاں اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں ۔کبھی گائے کشی کے نام پر تو کبھی لو جہاد اور تبدیلیٔ مذہب کے بہانے انہیں ہدف قرار دیا جاتاہے ۔مسلمان سرکاری ملازمت میں داڑھی نہیں رکھ سکتا اور اس کے پہناوے کی بنیاد پر اس کا تمسخر کیا جاتاہے ۔الگ الگ چینلوں پر اسلامی تعلیمات اور فلسفے سے جاہل افراد قرآن اور سیرت پیغمبرؐ پر انگشت نمائی کرتے ہیں ۔جب کہ ان کی اکثریت قرآنی آیات ،اس کی تفسیر اور سیرت پیغمبر سے ناواقف ہوتی ہے ۔مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جارہاہے کہ وہ قرآن مجید کے بجائے ’آرایس ایس ‘ کے تحریف کردہ قرآن‘ پر ایمان لے آئیں ۔مسجدوں اور مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈّہ کہاجاتاہے اور مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی مانگ کی جارہی ہے۔ مسلمان محلوں میں ہراساں کرنے کے لیے جگہ جگہ پولیس چوکیاں قائم کی جارہی ہیں اور گلی کوچوں میں فورس تعینات رکھی جاتی ہے ۔بر سر اقتدار جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت کی زمام ہمیشہ کسی ایک کے ہاتھوں میں نہیں رہتی ۔وقت بدلتاہے ۔حالات پلٹا کھاتے ہیں ۔حکومتیں گردش زمانہ کی نذر ہوجاتی ہیں ۔مستقبل میں سیاست کی زمام کس کے ہاتھوں میں ہو یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے بہتر ہوگا کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔اقلیتی طبقے کو ہراساں کرنا اور ان کے جوانوں کوفرضی معاملات میں گرفتار کرنا بند کیا جائے ۔مسلمان اس ملک کے عزت دار شہری ہیں ۔اور یہ حق ان سے کوئی تنظیم اور حکومت نہیں چھین سکتی ۔ہاں کچھ وقت کے لیے انہیں کمزور اور خوف زدہ ضرور کیا جاسکتاہے ۔اور بس!