روسی صدر ولادی میر پوتین نے وزارت دفاع کو شام سے منگل سے روسی افواج کے انخلاء کا حکم دیا ہے۔

ولادی میر پوتین نے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے ایک بیان میں وزیر دفاع سرگئی شوئیگو سے کہا ہے کہ ”ہماری وزارت دفاع اور مسلح افواج کو جو کام سونپا گیا تھا،وہ مجموعی طور پر مکمل کر لیا گیا ہے۔اس لیے میں وزارت دفاع کو حکم دیتا ہوں کہ وہ عرب جمہوریہ شام سے کل (منگل) سے ہماری مسلح افواج کے مرکزی حصے کو واپس بلالیں”۔

کریملن نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ صدر پوتین اور شامی صدر بشارالاسد نے سوموار کے روز ٹیلی فون پر گفتگو میں شام سے روسی فورسز کے انخلاء سے اتفاق کیا ہے۔بیان کے مطابق :”روسی صدر نے کہا کہ شام میں روس کی مسلح افواج کا کام مکمل ہوگیا ہے۔اس لیے روسی فضائیہ کے دستے کے مرکزی حصے کو واپس بلانے سے اتفاق کیا گیا ہے”۔

دونوں لیڈروں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ روس شام میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے ایک فوجی اڈا اپنے پاس برقرار رکھے گا۔صدر پوتین نے اپنی وزارت خارجہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ شام امن معاہدے کی ثالثی کے لیے روس کا کردار وضع کرے۔ان کا کہنا تھا کہ روس کے جنگ زدہ ملک میں کردار سے امن عمل کے لیے ضروری حالات پیدا ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ روس کے لڑاکا طیارے 30 ستمبر 2015ء سے شام میں صدر بشارالاسد کی وفادار مسلح افواج کے خلاف لڑنے والے داعش اور دوسرے باغی گروپوں پر فضائی حملے کررہے تھے۔روسی طیارے داعش کے علاوہ القاعدہ سے وابستہ النصرۃ محاذ اور مغرب کے حمایت یافتہ باغی گروپوں کو اپنی بمباری کا ہدف بناتے رہے ہیں۔ان فضائی حملوں کی بدولت شام کے شمالی علاقوں میں اسدی فوج کو زمینی پیش قدمی میں مدد ملی ہے اور اس نے متعدد شہروں ،قصبوں اور دیہات پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے یا وہاں قبضے کے لیے ان کا محاصرہ کررکھا ہے۔

روسی صدر نے ایسے وقت میں شام میں موجود اپنی فوج کے انخلاء کا حکم دیا ہے جب جنیوا میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں شامی حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ان مذاکرات کا مقصد شام میں گذشتہ پانچ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی لائحہ عمل وضع کرنا ہے۔

روس اور اس کا اتحادی ایران شامی صدر بشارالاسد کے سب سے بڑے حامی اور مؤید ہیں اور وہ ان کی اقتدار سے رخصتی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔بشارالاسد کا اقتدار بچانے کے لیے ہی روس نے شام میں فوجی مداخلت کی تھی جبکہ ایران کے فوجی شامی فوج کے شانہ بشانہ مشیروں کے روپ میں باغیوں کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑرہے ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک ،ترکی اور سعودی عرب شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے جنیوا اول معاہدے کے تحت بشارالاسد کی اقتدار سے رخصتی چاہتے ہیں۔یادرہے کہ 30 جون 2012ء کو اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پائے جنیوا اوّل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عبوری حکومت میں صدر بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن شامی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ صدر کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوگی۔