وہائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے مسلمانوں کے متعلق رپورٹوں کے سلسلہ میں اس بار فاطمہ نور کی کہانی پیش کی جارہی ہے۔ یہ کہانی اچھوتے اور رنجیدہ پہلوؤں کے ساتھ ساتھ پرمسرت اختتام کی حامل ہے۔ فاطمہ نے اپنی زندگی کا پہلا سال اپنے آبائی ملک صومالیہ کے شہر کسمایو میں گزارا.. وہ صومالیہ جس کو 80ء کی دہائی سے جاری خانہ جنگی نے برباد کردیا۔

اس خانہ جنگی کے نتیجے میں فاطمہ کے گھروالوں نے کینیا میں ممباسا شہر کے نزدیک پناہ گزین کیمپ میں قیام کیا.. جہاں اس ننھی بچی کا بچپن امن و استحکام اور اچھی زندگی کے عناصر سے کہیں دور گزرا۔

فاطمہ کا کہنا ہے کہ “جنگ کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجانا اور پھر پناہ گزین کیمپ میں زندگی گزارنا یہ بہت مشکل کام ہیں.. مگر ایک خاندان کا یک دم منتشر ہوجانا یہ تو کسی کے خیال میں بھی نہیں ہوتا”۔

یہ المیہ یہاں پر موقوف نہیں ہوا.. سال 2000 میں پناہ گزینوں کے امور سے متعلق ہائر کمیشن نے کھچا کھچ بھرے ہوئے اس کیمپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں فاطمہ کا خاندان ایک تلخ حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور ہوگیا اور وہ حقیقت تھی تباہ حال صومالیہ کو واپسی مگر اپنی بیٹی کے بغیر.. اس کے والد نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو کسی بھی والدین کی طرف سے پیش کی جانے والی سب سے بڑی قربانی ہوسکتی ہے.. اور وہ فیصلہ تھا چھوٹی سی فاطمہ کو ڈنمارک بھیجنے کا فیصلہ تاکہ وہ ایک عزیز کے گھر رہ کر سلامتی کے ساتھ بہتر زندگی گزار سکے۔ اس طرح فاطمہ کو اچھی تعلیم کے حصول کا موقع بھی مل جائے خواہ اس کی بھاری قیمت فاطمہ کے اپنے گھروالوں سے 10 برس تک ملاقات نہ کرنے کی صورت میں ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

فاطمہ نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا کہ وہ کس طرح دارالحکومت کوپن ہیگن سے باہر ایک چھوٹے سے شہر “فالابي” میں پروان چڑھیں جہاں انہوں نے ڈینش زبان بھی سیکھی۔ اجنبیت کے احساس کے باوجود وہ کامیابی ہونے کا مصمم ارادہ رکھتی تھیں.. یہاں تک کہ وہ عظیم موقع آن پہنچا جس نے ہمیشہ کے لیے ان کی زندگی بدل ڈالی.. اور وہ موقع تھا کہ امیگریشن آفس کی جانب سے ان کے خاندان کی پناہ کی درخواست منظور کرلی گئی۔

یہ پہلا موقع تھا کہ جس میں فاطمہ کی برسوں بعد اپنے گھروالوں سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا ذریعہ امریکا میں پناگزینوں کو قبول کرنے والا پروگرام بنا جس کے تحت ہر سال دنیا بھر میں جنگ و تنازع کا شکار ملکوں کے 70 ہزار مہاجرین کو قبول کیا جاتا ہے.. یہ کسی بھی ملک کی جانب سے پناہ گزینوں کے لے سب سے بڑا پروگرام ہے۔

فاطمہ کے گھرانے کو ریاست ٹینیسی میں مشہور گلوکار ایلوس پریسلے کے شہر میمفس میں نیا بسیرا میسر آگیا جہاں اس کے والد نے ایک گھر خرید لیا جو کئی برسوں سے امریکا میں متعدد نوکریاں کرتے چلے آرہے تھے جن میں ٹیکساس ریاست میں ٹرک چلانا بھی شامل ہے۔

ادھر 13 سالہ فاطمہ نے ایک امریکی اسکول میں داخلہ لے کر نئی زبان انگریزی سیکھنا شروع کردی۔ اتفاقیہ طور پر جس دن فاطمہ ہائی اسکول سے فارغ ہوئی اسی روز اس خاندان کی شہریت کی درخواست منظور ہوگئی اور پھر پورے خاندان نے اس نئے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا جس ملک نے بکھرے ہوئے خاندان کو پھر سے یکجا کردیا تھا۔

فاطمہ کا کہنا ہے کہ “یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ بعض لوگ امریکا کے لیے ہماری وفاداری پر شک کرتے ہیں اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ میں نے دو مرتبہ دشمنوں کے خلاف امریکا کے آئین اور اس کے امن کی حفاظت کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے۔ پہلی مرتبہ جب میں امریکی شہری بنی اور دوسری مرتبہ جب میں نے امریکی انتظامیہ میں کام شروع کیا”۔

فاطمہ نے اپنی خواہش سے یونی ورسٹی کی تعلیم حاصل کی جس کے ذریعے وہ 2014 میں وہائٹ ہاؤس میں ملازمت کے حصول میں کامیاب ہوئیں۔ اس وقت وہ وہائٹ ہاؤس میں امیگریشن پالیسی کے دفتر میں معاون کے عہدے پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ جہاں وہ ان پناہ گزینوں کی درخواستوں کی کوآرڈینیشن میں شریک ہوتی ہیں جو ایک پرامن اور محفوظ زندگی اور نئے مواقع کی تلاش میں امریکا آتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان افراد کو نئے ملک کے نظام سے مانوس ہونے کے سلسلے میں بھی تعاون کرتی ہیں۔ اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے فاطمہ کو ایک خاص اطمینان محسوس ہوتا ہے اس لیے کہ وہ خود پناہ گزین رہ چکی ہیں اس لیے ان کی مشکلات کو سمجھتی ہیں۔

فاطمہ خالص امریکی لہجے میں کہتی ہیں کہ “میں صومالیہ میں پیدا ہوئی اور میرا بچپن ڈنمارک میں گزرا.. مگر میں خود کو 100 فی صد امریکی شہری خیال کرتی ہوں”۔