پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کی تحصیل شب قدر میں ایک عدالت کے احاطے میں خودکش بم دھماکے میں سترہ افراد جاں بحق اور کم سے کم تیس زخمی ہوگئے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے دھڑے جماعت الاحرار نے صحافیوں کو بھیجی گئی ایک ای میل میں اس خودکش حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حملہ صوبہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دینے کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔

شب قدر کے اسپتال کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کے ہاں تیرہ لاشیں منتقل کی گئی ہیں جبکہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں چار لاشیں لے جائی گئی ہیں۔بم دھماکے میں مرنے والوں میں دو پولیس اہلکار اور ایک خاتون بھی شامل ہے۔

چارسدہ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر سہیل خالد نے بتایا ہے کہ یہ حملہ ایک خودکش بمبار نے کیا ہے۔وہ جب سیشن عدالت کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا اس کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور اس پر فائرنگ کی تھی۔اس دوران نے اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے زوردار دھماکے کے بعد فائرنگ کی آوازیں سنی ہیں۔دھماکے کے وقت عدالت میں لوگوں کا بہت رش تھا۔دھماکے کے نتیجے میں عدالت کے احاطے میں بعض گاڑیوں کو آگ لگ گئی۔واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر لیا۔

تحصیل شب قدر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے مہمند ایجنسی کے نزدیک واقع ہے۔اس ایجنسی میں طالبان اور القاعدہ کے جنگجو بڑی تعداد میں موجود رہے ہیں اور ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کارروائی کررہی ہے۔

یہ خودکش بم دھماکا ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کی سکیورٹی فورسز ملک بھر میں قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں اور انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کررہی ہیں۔وزارت داخلہ کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد سے مختلف کارروائیوں میں 2159 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے اور 1724 کو گرفتار کیا گیا ہے۔

قومی ایکشن پلان 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد وضع کیا گیا تھا۔اس کے تحت پاکستانی فوج افغان سرحد کے ساتھ واقع قبائلی علاقوں میں قائم طالبان جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے اور حکومت بھی جنگ پسندی کے خاتمے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔اس کے نتیجے میں گذشتہ سوا ایک سال کے دوران دہشت گردی کے حملوں میں 70 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔تاہم دہشت گرد گاہے گاہے سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر بم حملے کرتے رہتے ہیں۔