ہندوستان کی شعری و ادبی تاریخ میں غیر مسلم شعراء و ادباء کی تاریخ ساز خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ان میں بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے خالص اردو گھرانوں میں آنکھ کھولی تقسیم سے قبل کا ہندوستان ایک ایسا ہی ہندوستان تھا جس میں بڑی تعداد ان غیر مسلم شعراء و ادباء کی تھی جن کی مادری و گھریلوی زبان اردو تھی۔ بعد کی نسلوں نے اردو سے اس رشتہ کو قائم نہیں رکھا جو رشتہ ان کے آباء واجداد کا تھا بعض ایسے بھی ہیں جن کا تعلق گھر کا ماحول یا خاندانی طورپر اردو سے برائے راست نہ سہی مگر اردو شاعری کے ذوق نے ان کی ذات میں اردو سے محبت اور شاعری سے عقیدت پیدا کردی ایسے ہی نوجوان نسل کی شعراء میں اترپردیش کے مردم خیز شہر پرتاپ گڈھ کے نوجوان شاعر راجوریاض پریادرشی کا شماربھی ہوتا ہے۔ اردو شعرو ادب کے صاف ستھرے ذوق نے جن کو شاعر بنا دیا عصر حاضر کی اردو دشمنی کے اس ماحول میں راجیو ریاض کی ذات بحیثیت اردو شاعر کے قابل فخر ہے راجیو کا قیام میرؔ و غالبؔ کی دہلی میں ہے جہاں کی ادبی فضا نے ان کی شاعری کو جلا بخشتی، دہلی کی ادبی رنگ میں رچی بسی ادبی زبان کو انھوں نے اپنایا اورر اپنے ذوق کے تسکین کی خاطر شعر و سخن میں طبع آزمائی کرنے لگے راجیو کو اس بات کا ادراک بہت تاخیر سے ہو سکا کہ ان کی ذات میں ایک شاعر بھی چھپا ہے ان کے کلام کے مطالعہ سے ایک کامیاب اور جدید غزل گو شاعر کی تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے راجیو نے بہت قلیل عرصے میں دہلی کی ادبی فضا میں مقبولیت اور ہر دل عزیزی حاصل کرلی راجیو ایک زندہ دل، بذلہ سنج وضع دار با اخلاق و پیکر خلوص و محبت ہے نیک دل اور پر خلوص شاعر ہے مشاعروں نے اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات نے اردو کو بھی اپنی زد میں لے لیا اس طرح فراقؔ،جگن ناتھ آزادؔ، آنند نرائن ملاؔ، جکبستؔ  جیسے اردو کے عظیم سپاہیوں کی زبان اردو بھی تعصب اور مذہبی تفریق کا شکار ہوگئی ارباب سیاست نے محبت کی شیریں زبان کو سیاسی مفاد کی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا مگر تمام تر سیاسی و مذہبی تعصب کے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسے غیر مسلم باذوق اردو کے شاعروں پرستاروں اور عاشقوں کا ہے جنہوں نے اردو کو اپنے دل میں جگہ دے رکھی ہے اس لئے اس زبان کو آسانی سے نہیں ختم کیا جاسکتا نہ ہی شعر و ادب کی قدروں کو اردو کے دشمن پامال کرسکتے ہیں راجیو پریہ درشی گرچہ وادئے شعروسخن کے نوخیز رہنورد ہے ان کی شاعری کا خلاصہ مجموعی طورپر اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ عصری تقاضوں اور مسائلے زندگی کے ساتھ ساتھ فکر و آگہی حالات کے تلخ تجربات و مشاہدات ان کی شاعری کا امتیازی وصف ہے زندگی کے درد و کرب کو بھی انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے میرؔ و غالبؔ کی دہلی کو انھوں نے اپنا مستقل مستقر بنا رکھا ہے اس لئے وہ دہلی ہی نہیں بلکہ دہلی کے باہر بھی قدر و منزلت کے ساتھ مدعو کئے جاتے ہیں ان کے قدردانوں کی بڑی تعداد دہلی اور دہلی کے باہر بھی پائی جاتی ہے راجیو ریاض نے ایک غیر ادبی ماحول میں آنکھیں کھولی جہاں شاعری تو کیا شاعری کا ذوق رکھنے والے بلکہ صحیح اردو بولنے والے بھی نہ تھے ایسے غیر ادبی اور غیر اردو کے ماحول میں پرورش پانے والے راجیو ریاض نے شعر و سخن کے ذوق کو اپنایا اور ان کے شعری ذوق نے ان کو دہلی کے ادبی ماحول میں کامیاب شاعر کے حیثیت سے تسلیم کروایا راجیو مشاعروں کے کامیاب اور مقبول شاعر ہے آج وہ وادی شعر و سخن میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں ہیں راجیو نے جس عمر میں شاعری کی ابتداء کی وہ عمر جوانی کی امنگوں اور آرزؤں کی عمر ہوتی ہے مگر آج راجیو کا شمار اردو کے نوجوان عاشق و پرستاروں میں ہوتا ہے منفرد رنگ، منفرد لہجے اور منفرد رنگ و آہنگ کے نوجوان نمائندہ شاعر راجیو ریاض نے باقاعدہ اردو کی تعلیم حاصل کی اساتذہئ سخن کے کلام کا مطالعہ کیا تب جاکر ان کی شاعری میں نکھار آیا راجیو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی ادب کا بھی صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں اسی لئے ان کو ہندی شعر و ادب پر بھی دسترس حاصل ہے ادبی حلقوں کو بجا طور پر راجیو ریاض جیسے اردو کے بے لوث سپاہی و عاشق پر ناز کرنا چاہئے۔ محفل شعر و ادب میں ان کی خاطر خواہ پذیرائی ہونا چاہئے۔

نمونہئ کلام

میری خوشی سے جن کو کوئی غم ہوا نہیں 

اپنوں میں ایسا شخص ابھی تک ملا نہیں 

تیرے بغیر بھی تعمیر میری دنیا ہے 

ہر اس خیال کو دل سے نکال رکھا ہے 

ہولئے سب ہوا کی روانی کے ساتھ 

میں اکیلا مخالف کھڑا رہ گیا 

دوستی بھی دشمنی بھی دونوں ہی کھل کریں 

کیا رکھا ہے دوستو اس دوغلے کردار میں 

ہم بھی تھے اہل ہنر ہم صاحب دستور تھے

ہاں مگر فخرو تکبر سے ہمیشہ دور تھے 

کہہ گیا بیٹا کمانے جا رہا ہے شہر کو

بس گیا جاکر وہاں گھر لوٹ کر آیا نہیں 

وزن تقدیر کا میری کچھ کم تر نکلتا ہے 

جسے ہیرا سمجھتا ہوں وہی پتھر نکلتا ہے 

بقلم

     فیروز خان ندوی

موبائل:8924040310