لکھنؤ کا رساي ادب و مرثیہ نگاری پر بین اقوامي ایک روزہ سیمینار کا انعقاد

ڈاکٹر خورشید جہاں گرلس اینڈ بوائز انٹر کالج سمیتی لکھنؤ و قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبانئی دہلی کے اشتراک سے آج ایک روزہ بین الاقوامی سمینار بعنوان لکھنؤ کا رسائی ادب و مرثیہ نگاری پر بین الاقوامی ایک روزہ سمینارجو منشی نول کشور کی 211 ویں برسی پر انھیں منسوب کیا گیا ہے۔ منشی نول کشور کے اوپر منعقدوہ دو روزہ سمینار کی سوینر کا رسم اجراء سید سبط رضی، پدم شری ڈاکٹر رجنیت بھارگو، مولانا خالد ندوی، ڈاکٹر تقی عابدی کنیڈہ کے ہاتھوں رسم اجراء ہوا اور اسی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شاہدہ صدیقی کی طنز و نگاہ پر شائع کتاب ”کتر بیونت“ کا بھی رسمِ اجراء ہواان ہی لوگوں کے ذریعے ہوا۔

لکھنؤ کا رثائی ادب و مرثیہ نگاری سے سید سبط رضی صاحب نے کہا مرثیہ برِ صغیر میں اس تہذیب کی ترجمانی کرتا ہے اور اس تہذیب کی زبان اُردو ہے ادھر کچھ برسوں سے اس تیزی سے ہندوستان میں خاص طور پر ناردن انڈیا میں اُردو فہمی خصوصاً اُردو شاعری کی زبان سے لاعلمی نئی نسلوں میں بڑھتی جا رہی ہے اس کے پیش نظر میرا خیال ہے کہ اُردو ادب کی طرف مرثیہ کے رسائی ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اُردو زبان کی بقاء کے لئے خاص طور سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر زبان کی روح اُس کا رسم الخط ہوتا ہے جو اسوقت دھیرے دھیرے دیوناگری اسکرپٹ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے مرثیے کی فن کی نزکتوں کو سامعین کی ذہن کے اوپر سے نکال دیتا ہے اور رسائی شعراء اور مرثیہ گو شعراء کو سمجھنے کے لئے ایک فکر کی ضرورت ہے۔ اودھ کے مرثیہ نگاروں نے بالخصوص دبیر و انیس جو اُردو رسائی ادب کی نمائندگی کر گئے ہیں اُنھوں نے اپنی تشبیہات اور استعاروں میں اودھ کی مشترکہ تہذیب کی ترجمانی کی ہے جو ہماری گنگا جمنی تہذیب کا طرہئ امتیاز ہے۔

آزرمی دخت صفوی علی گڑھ نے کہا کہ مرثیہ کی صنف وہ صنف ہے جسمیں ہندوستان نے خصوصا لکھنؤ کا حصہ سب سے زیادہ اہم رہا ہے۔ ڈاکٹر لقمان صاحب سابق وی.سی مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی رامپور نے کہا جو شملا سے تشریف لائے کہ لکھنؤ کا رثائی ادب و مرثیہ نگاری آج منشی نول کشور صاحب کی دین ہے جتنا  میں نول کشور صاحب کو سمجھ سکا ہوں اُسکو میں ایک بڑا انسان پایا ہے۔حافظ عثمان صاحب نے کہا کہ لکھنؤ کا رثائی ادب اور مرثیہ نگاری ہماری زبان و ادب کا بہت بڑا کارنامہ ہے جو شیعہ اور سنی ملکر اتحاد سے کام کریں اور آگے بڑھیں تاکہ ملک میں برابر کی ترقی کرسکیں اور مزید کہا کہ ڈاکٹر خورشید جہاں نے جو کام کئے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ سماج میں خواتین بھی آپکی طرح آگے بڑھیں اور آپکی طرح کام کریں۔

پروفیسر رمیش دکچھت صاحب نے کہا میر انیس نے مرثیہ گوئی کو اورمرزا دبیر نے جس اونچائیوں تک پہچایا وہ اُردو زبان کی طاقت کی پہچان ہے۔ ساتھ ہی پیغمبر ؐ صاحب کے نواسوں کی قربانی کا منظر مرثیہ سننے والوں کے سامنے بہت ہی زندہ طریقے سے ہمارے سامنے آیا کربلا کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔

ڈاکٹر انیس انصاری نے کہا مرثیہ نگاری اُردو ادب میں ممتاز صنف کی حامل ہے اُردو مرثیہ نگاری کا مقابلہ ہندوستان کی دوسری رزمیہ نظمیں جیسے مہابھارت اور راماین اسکے ہم پلّا قرار دی جا سکتی ہیں اس میں حق اور باطن کی جنگ کو ہندوستانی پسِ منظر کے ساتھ بہت ہی فنکارانہ طریقے سے میر انیس کے خاندوے اور مرزا دبیر کے شاگردوں کے ذریعے پیش کئے گئے۔ 

پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ امام حسین کی شہادت کو ایک انسانی رُخ دیا ہے جس وہ ہر مظلوم کے علمبردار بن گئے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ انیس و دبیر کے مراثی نے ہندوستان کے کلچر کو اپنے کلام و جاویدانی مرثیوں کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔میر جعفر عبداللہ نے کلماتِ تشکر سے سب کو نوازہ۔

خالد غاضی ندوی نے کہا کہ اس سے کسی کو انکار نہیں کی مرثیہ اُردو ادب کی آبرو اور سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور پاکیزہ و اعلیٰ اقدار پر مبنی شعری صنف ہے اسمیں ہماری تاریخ و تہذیب کے روشن عناصر نمایاں ہیں۔ لفظ مرثیہ ”رثاء“ سے مشتق ہے، رثاء کے معنی رونا اور لانا ہے مرثیہ میں کسی شخص کی اچھائیوں، اعلی کارناموں، نیکیوں اور پاک دامنی کا ذکر اس شخصیت کی یاد تازہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔

شریک ہونے والوں میں ڈاکٹر قمر جہاں بنارس، مولانا خال غاضی ندوی، محترمہ ڈاکٹر قمر رحمن، سریہ خان، محترمہ وسیم النساء، محفوظ الرحمن، توصیف جہاں، قمر جہاں، کوثر جہاں، شیلا یادو، پرویز شکوہ، ضیاء الرحمن، آزرمی صفوی، میر جعفر عبداللہ،انجینئر عتیق الرحمن، فرح سروش،تسنیم انجم،وضاحت رضوی، شارب ردولوی، ڈاکٹر لقمان، انیس انصاری و ضیاء الرحمن موجود تھے۔