مصر سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے پہلے سیکریٹری جنرل بطروس ،بطروس غالی انتقال کرگئے ہیں۔ان کی عمر ترانوے برس تھی۔

وہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔مصر کی سرکاری خبررساں ایجنسی (مینا) کے مطابق انھیں کولھے کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور منگل کے روز چل بسے ہیں۔

بطروس غالی مصر کے ایک معروف مسیحی قبطی سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 14 نومبر 1922ء کو پیدا ہوئے تھے۔انھوں نے قاہرہ اور پیرس سے تعلیم حاصل کی تھی اور بین الاقوامی قانون میں تخصص کیا تھا۔ ان کے دادا بطروس غالی پاشا 1908ء سے 1910ء تک مصر کے وزیراعظم رہے تھے۔

بطروس ،بطروس غالی عالمی ادارے کا سربراہ بننے سے پہلے مصر کے وزیر خارجہ رہے تھے اور انھوں نے ہی کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کے دورے اور امن مذاکرات سے قبل 1977ء میں انھیں وزیر مملکت بے محکمہ نامزد کیا تھا۔اسرائیل کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کرنے کی وجہ سے انور سادات کو ملک میں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے وزیر خارجہ اسماعیل فہمی احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے۔اس کے بعد انھوں نے بطروس غالی کو قائم مقام وزیر خارجہ اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور بنا دیا تھا۔

انھوں نے ستمبر 1978ء میں طے شدہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے لیے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کے نتیجے ہی میں مارچ 1979ء میں مصر کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ طے پایاتھا اور یوں وہ صہیونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا تھا۔

انور سادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک نے اکتوبر 1981ء میں اقتدار سنبھالا تھا اور بطروس غالی کو وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے منصب پر برقرار رکھا تھا لیکن انھیں کبھی مکمل وزیر کے عہدے پر ترقی نہیں دی تھی ۔اس کی ایک وجہ شاید یہ کہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں ایک عیسائی کو یہ اہم منصب سونپا جانا متنازعہ قراع پاتا۔ان کی ایک مصری یہودی خاتون لی سے شادی ہوئی تھی لیکن ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔

بطور سیکریٹری جنرل

وہ براعظم افریقا سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے پہلے سیکریٹری جنرل تھے۔وہ 1992ء میں اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔تب دنیا میں بڑی ڈرامائی تبدیلیاں رو نما ہورہی تھیں۔سوویت یونین کا انہدام ہوچکا تھا اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا امریکا کی بالادستی کے حامل یک قطبی دور میں داخل ہورہی تھی۔

لیکن سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے ان کے صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے تھے جس کی وجہ سے امریکا نے ان کی دوسری مدت کے لیے تجدید کا عمل بلاک کردیا تھا اور وہ 1996ء میں پانچ سال پورے کرنے کے بعد سبکدوش ہوگئے تھے۔وہ اقوام متحدہ کے صرف ایک مدت کے لیے سیکریٹری جنرل رہنے والے واحد عہدے دار تھے۔ان کے بعد گھانا سے تعلق رکھنے والے کوفی عنان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بنے تھے۔

سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے ان کے پانچ سالہ دور کو متنازعہ قراردیا جاتا ہے۔بعض تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اقوام متحدہ کو واحد سپر پاور امریکا کے اثرورسوخ سے آزاد کرانے کی کوشش کی تھی جبکہ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ براعظم افریقا میں نسل کشی اور بلقان میں خونریزی رکوانے میں ناکام رہے تھے۔

انھوں نے اقوام متحدہ میں اپنے الوداعی تقریر میں کہا تھا کہ ”انھوں نے سوچا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب دنیا منقسم نہیں رہی ہے اور اقوام متحدہ دنیا میں ایک موثر کردار ادا کرسکے گی لیکن اس نصف عشرے کے درمیانی سال بہت ہی پریشان کن اور التباس زدہ رہے تھے”۔

انھوں نے سنہ 2005ء میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں 1994ء میں روانڈا میں قتل عام کو اقوام متحدہ میں اپنی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا تھا۔افریقی ملک روانڈا میں صرف ایک سو دنوں میں پانچ لاکھ ٹوٹس اور ہوٹس قبائلیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔

بطروس غالی نے امریکا ،برطانیہ ،فرانس اور بیلجیئم پر اس قتل عام کا الزام عاید کیا تھا اور کہا تھا کہ انھوں نے فوجی مداخلت کے لیے ناممکن العمل شرائط عاید کردی تھیں۔انھوں نے وسطی افریقا میں واقع اس ملک میں قتل عام رکوانے کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشنوں کو بھیجنے کے لیے سخت اقدامات کی مخالفت کی تھی۔

انھیں جولائی 1995ء میں سربوں کے ہاتھوں مشرقی بوسنیا میں واقع قصبے سربرنیکا میں اقوام متحدہ کے اعلان کردہ محفوظ زون میں آٹھ ہزار مسلمانوں کے قتل عام پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ان مقتولین کے خاندانوں نے 1999ء میں دوسرے عالمی عہدے داروں کے علاوہ بطروس غالی کو بھی اس قتل عام کا ذمے دار قرار دیا تھا۔

سابق سیکریٹری جنرل کو اقوام متحدہ کے عراق کے تیل برائے خوراک پروگرام کی وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا اور ان کے ایک کزن فخری عبدالنور نے مبینہ طور پر تیل برائے خوراک پروگرام کے ڈائریکٹر بینن سیوان سے تیل کی رعایتیں حاصل کی تھیں۔عالمی ادارے میں اصلاحات لانے میں ناکامی کا بھی انھیں مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا لیکن انھوں نے امریکا کی جانب سے واجب الادا رقوم کی عدم ادائی کو اس کا ذمے دار قرار دیا تھا۔

بطروس غالی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے اکثر امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے جس سے کلنٹن انتظامیہ ان سے نالاں تھی۔انھوں نے 1996ء میں لبنان میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام فلسطینی مہاجرین کے ایک کیمپ پر اسرائیل کی بمباری کی شدید مذمت کی تھی۔اس حملے میں ایک سو مہاجرین مارے گئے تھے۔

انھوں نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد امریکا پر عالمی ادارے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکام اکثر ان کے (غالی کے) اقدامات کو براہ راست کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے تھے۔انھوں نے اپنی ایک کتاب میں امریکی سفارت کاروں کو غیرتربیت یافتہ اور غیر مہذب قرار دیا تھا۔