شوکت بھارتی: ورلڈوسیلہ فرنٹ

انقلابِ ایران کے بعد امریکا، اسرائیل اور شہنشاہیت کے خلاف اُٹھنے والی امامِ خمینی کی آوازِ اتّحاد پر  جب پوری دنیا سے مسلمانوں نے لبیک کہنا شروع کیا اور ہندوستان کی سب سے بڑی جامع مسجد دہلی کے امام عبد اللہ بخاری مرحوم و دیگر حامیانِ اتّحاد نے بھی لبّیک کہا تو اُس وقت اتّحاد کو پارہ پارہ کرنے والی اداخلی اور خارجی طاقتیں بے چین ہو گئی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ بادشاہت نواز طاقتوں نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اور اتّحاد کی آواز کو دبانے کے لئے ابنِ تیمیہ ابنِ عبد الوہاب نجدی کی کتابوں کو پوری دنیا میں پھیلانے کا کھیل شروع کر دیا۔ ابنِ تیمیہ ہی وہ شخص تھا جس کے نظریات کے سہارے ہی محمد ابنِ عبد الوہاب نجدی اور محمد ابنِ سعود کوا نگریزوں نے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے لئے تیار کیا تھا۔ ابنِ تیمیہ ہی وہ شخص تھا جس نے مسلمانوں کے عقیدہ توحید کو مجروح کیا۔وہ کہتا تھا کہ اللہ جسم رکھتا ہے اُس کے ہاتھ پیر اور انکھ ہے اور وہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ آتا جاتا ہے۔وہ وسیلہ، شفاعت اور تعظیم کو شرک اور پُت پرستی کہا تھا،روضۂ رسولؐ کی زیارت کو جانا فعلِ حرام کہتا تھا اُس کی وجہ سے جب اختلاف پھیلنے لگا تو علماء نے اُس سے مناظرہ کیا اور جب وہ مناظرہ میں ہار گیا تو اُسے حکومتِ شام نے قید کر دیا اور اُسی قید خانہ میں اُس کی موت ہو گئی۔کیونکہ اُس کی وجہ سے ایک بڑا فتنہ مسلمانوں کے بیچ کھڑا ہوا تھا اس لئے انگریزوں نے عقیدہ ابنِ تیمیہ کے ذریعہ خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کام کے لئے اُنہوں نے ابنِ تیمیہ کے ایک پیروکارمحمد ابنِ عبد الوہاب نجدی کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ انگریزوں نے ابنِ عبد الوہاب نجدی کی مدد کے لئے درعئیہ کے امیر محمد ابنِ سعود کو تیار کیااور دونوں کو یہ لالچ دے کر اُن کے درمیان یہ مہائدہ کروایا کہ خلافتِ عثمانیہ ختم ہو جانے کے بعد جیسے ہی مکّہ اور مدینہ پر قبضہ ہوگا تو وہ انہیں دونوں خاندانوں کے ہاتھ میں حجاز کی باگڈور سونپ دیں گے۔ اُس حکومت میں دین کا کام محمد ابنِ عبد الوہاب نجدی کا خاندان اور حکومت کی باگ ڈور محمد ابنِ سعود کا خاندان سنبھالے گا۔ پھر کیا تھا اس مہائدہ کے بعد وسیلہ، شفاعت اور تعظیم کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کو مشرک اور بُت پرست کہہ کر بے دردی سے قتل کیا گیا،اُن کی عورتوں کو کنیز اور بچّوں کو غلام بنایا گیا اور اُن کا مال و اسباب مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا گیا اور مزارات کو زمیں دوز کیا جانے لگا۔  محمد ابنِ عبد الوہاب نجدی اور محمد ابنِ سعود کے مرنے کے بعد بھی ان دونوں خاندان کے افراد اسی کام کو انگریزوں کی مدد سے آگے بڑھاتے رہے آخر کار  ۸۱۹۱؁ء میں پوری طرح خلافتِ عثمانیہ ختم ہو گئی اور ان دونوں خاندانوں کا پورے سر زمینِ حجاز پر قبضہ ہو گیا اور پھر ان لوگوں نے حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ لیا۔حجاز پر قبضہ کرتے ہی آلِ سعود کی حکومت نے مکّہ اور مدینہ کے تمام مزارات بھی زمیں دوز کر دیے اور جو بھی ان کے راستے میں آیا اُسے جان سے ہاتھ سے دھونا پڑا۔ سعودی عرب جیسے ہی پیٹرول کی دولت سے مالا مال ہوا آلِ سعود کی حکومت نے ابنِ تیمیہ اور محمد ابنِ عبد الوہاب نجدی کی فکر کو اُس دولت کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیلانے کا منصوبہ بنا لیا اور اسی کام کے لئے اپنے خزانے پوری طرح سے کھول دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے بکنے والی زبانیں اور قلم دنیا بھر میں خرید لئے گئے اوروہی سلسلہ آج تک جاری ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی بکی ہوئی زبانیں اور قلم پوری دنیا میں آلِ سعود کے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور اُنہیں دین کا سب سے بڑا ہمدرد ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہی وہ لوگ ہے جو ابنِ تیمیہ اور ابنِ عبدالوہاب نجدی کی فکر کو پوری دنیا میں پھیلا کر مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں اور مزارات کو شرک اور بُت پرستی یکا اڈّہ کہہ کر زمیں دوز کر رہے ہیں۔ اسی فکر یکے ذریعہ تیار کیے جانے والی دہشتگرد تنظیمیں اسلام کا نام بدنام کر رہی ہیں، اتّحاد کو پارہ پارہ کر رہی ہیں اور جگہ جگہ انسانی خون سے ہولی کھیل رہی ہیں۔یوں تو ابنِ تیمیہ اور ابنِ عبد الوہاب نجدی کے وائرس سے پھیلنے والی یہ بیماری جس کا نتیجہ طالبان، القائدہ اور دائش جیسے دہشتگرد ہیں۔ شاہ اسمائیل دہلوی اور سید احمد رائے بریلوی کے ذریعہ سب س پہلے ہندوستان میں داخل ہوئی۔مگر علماء حق نے اس کا صختی سے مقاقبلہ کیا اور اس وائرس کو اپنے زمانے میں پنپنے نہیں دیا۔جس کی وجہ سے یہ وائرس کچھ دن تک ڈی ایکٹیو ہو گیا لیکن جیسے ہی اس کی مخالفت کم ہوئی  اس وائرس نے ایکٹیو ہو کر اپنا کام پھر سے شروع کر دیا۔اس وائرس کو ایکٹیو کرنے کے لئے پیٹرو ڈالر کا سیلاب آ گیا۔وہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی جنہوں نے آلِ سعود کی حکومت کے خلاف العرب ولاسلام نام کی کتاب لکھی تھی وہ بھی اس وائرس کی زد میں آ گئے۔ پھر کیا تھاسید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسمائیل دہلوی کے ذریعہ لائے گئے اس وائرس کو مولانا ابو الحسن ندوی نے بڑی ہی خوبصورتی سے اتّحاد اور پیامِ انسانیت کی آڑ میں آگے بڑھانا شروع کیا۔جس کی وجہ سے اُنہیں ایک چارٹرڈ پلین سے سعودی عرب بُلوا کر مہمانِ خصوصی بنایا گیا اور اُنہیں سعودی حکومت نے تحفہ میں خانہ کعبہ کی چابی بھی پیش کر دی۔ پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے مولانا نے ابنِ تیمیہ کو اسلام کا بہت بڑا ہیروں بنا دیا، اُن پر ایک کتاب لکھ ڈالی اور اُس کا عربی ترجمہ ندوۃ العلماء کے پرنسپل سعید الرحمان ندوی سے کروا کر دربارِ آلِ سعود میں پیش بھی کر دیا۔ایران سے اُٹھنے والا اسلامی انقلاب اور اتّحاد کی آواز پر کیونکہ ہندوستان کی سب سے بڑی مسجد، جامع مسجددہلی سے امام بخاری نے بھی لبّیک کہہ دیا تھا اور جامع مسجد دہلی سے لگاتار شیعہ سُنّی اتحاد کے نعرے لگ رہے تھے۔جو آلِ سعود کی بادشاہت کے لئے بڑا خطرہ تھے یہی وجہ تھی کہ اُس اتّحاد کوتوڑنے کے لئے ہی مولانا ابو الحسن علی ندوی نے ”اوّلین اسلام کی دو متازات تصویریں“نام کی کتاب خود لکھی اور”ایران خمینی اور شیعت“نام کی کتاب اُنہوں نے اپنے ایک بہت ہی قریبی مولانا منظور نومانی سے لکھوا ڈالی۔ اِن کتابوں میں ایران اور شیعوں کو مجوسی اور یہودی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ ایران کی آواز اتّحاد پر پر چلنا ایک بڑا دھوکہ ہے یہ کام صرف اور صرف اس لئے کیا گیا تاکہ کسی بھی حال میں شیعہ سُنّی اتّحاد پارہ پارہ ہو جائے۔اتنا ہی نہیں اہلِ سُنّت کو بھی ایک دوسرے سے ٹکرانے کے لئے اور وسیلہ، شفاعت، تعظیم کے عقیدہ کو شرک اور بُت پرستی ثابت کرنے کی تحریک چلائی گئی اور اسی کام کے لئے ہی ہندوستان میں بھی ابنِ تیمیہ، عبد الوہاب نجدی، اسمائیل دہلوی جیسے مصنّفین کی کتابوں کا جال پوری دنیا میں پھیلا دیا گیا۔جس کی وجہ سے اہلِ سُنّت کو مسجدوں میں سلاۃ و سلام پڑھنے سے روکا جانے لگا،میلاد شریف، عرص، قوّالیوں اور ذکرِ شہیدانِ کربلا کو بدعت کہا جانے لگا۔ یوں تو عراق اور ایران کی جنگ کے وقت سے ہی شیعوں اور سُنّیوں کو ایک دوسرے سے ٹکرانے کی سازش ہو رہی ہے لیکن ابھی حالیہ عراق اور سیریا میں دائش کے خلاف اُٹھنے والی آواز کو دبانے کے لئے اس سازش نے زور پکڑ لیا۔ابھی حال ہی میں شیعہ اور سُنّی اختلاف کو بڑھانے کے لئے ہی سعودی عرب کی حکومت نے ترکی، پاکستان اور دیگر خلیجی حکومتوں کو بھروسہ میں لے کر ۴۳ ممالک کا ایک گروپ بنایا اور پھر شیعہ عالمِ دین باقر النمر کو پھانسی دے دی اور جیسے ہی اس پھانسی پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا تو امریکا، اسرائیل اور بادشاہت نواز فراد اور ادارے اسے شیعہ سُنّی رنگ دینے لگے اور اُن کے ایجنٹس شہید باقر النمر کو قصّاب جیسے دہشتگرد سے ملا نے لگے۔ ۲۱ جنوری ۶۱۰۲؁ء کو اسلامک سنٹر دہلی میں اور پھر ۷۲ جنوری ۶۱۰۲؁ء کو لکھنؤ کے شوکت علی کے احاطے میں بھی پاکستان کی طرز پر اتّحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے شیعوں اور ایران کے خلاف خوب زہر اُگلا گیا اور شیعوں کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا گیا کہ ابنِ تیمیہ نے کہا ہے کہ’شیعہ‘  یہوں اور نصاریٰ سے زیادہ اسلام کے کے لئے خطرناک ہیں۔اتّحاد کا بگل بجانے والی مذہبی مسلم تنظیموں کے سرکردہ مسلم لیڈران جنہوں نے اخباری بیان جاری کر کے دہشتگردوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے والا بتایا ہے۔ اگر وہ واقئعی اتّحاد کے دائی تھے تو اُنھوں نے دہلی اور لکھنؤ کی کا نفرنس میں اتّحاد کو پارہ پارہ کرنے والوں کے خلاف کوئی بیان کیوں نہیں جاری کیا ان سرکردہ لیڈران کو چاہئے کہ وہ۲۱ جنوری اور ۷۲ جنوری ۶۱۰۲؁ء کو ہونے والی دہلی اور لکھنؤ کانفرنس کی پریس رلیز کا بھی ا چھی طرح مطالیع کرلیں اور دیکھ لیں کہ اتّحاد کو پارہ پارہ کرنے والے سرکردہ افراد کا تعلق کس مکتبِ فکر اور کن اداروں سے ہیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو لوگ اُن صوفیائے کرام کے آستانوں کو بارود کے ڈھیر سے اُڑا رہے ہیں جنہوں نے اخلاق، امن، محبت اور انسانیت کا درس دیا۔اُن دہشتگردوں اور اُنہیں تیاری کرنے والی دہشتگردی فکر کے خلاف جب شیعہ اور سُنّی تنظیمیں آواز بلند کر رہی ہیں تو اُنہیں یہ سرکردہ لیڈر اتّحاد دُشمن کیوں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔سرکردہ لیڈران یہ بھی بتائیں کہ اتّحاد کی آواز کیوں یا تو صوفیائے کرام کے ماننے والے اُٹھا رہے ہیں یا پھر شیعہ تنظیمیں۔آج تک کسی بھی پیٹرو ڈالر پر چلنے والے ادارے یا آلِ سعود کی حکومت نے آوازِ اتحاد کیوں بلند نہیں کی۔ سرکردہ لیڈران یہ بھی بتائیں کہ اُنہوں نے آج تک ان اداروں اور اُس فکر کو کیوں بے نقاب نہیں کیا جس کا نتیجہ دائش جیسی دہشتگرد تنظیمیں ہیں جواسلامی خلافت قائم کرنے کے نام پر پوری دنیا میں دہشتگردی پھیلا کر اللہ کی کتاب،،کلمۂ توحید، مقدّس نعرے اللہ اکبر اور امن کے مذہب اسلام کو بدنام کر رہی ہیں۔سرکردہ لیڈران سے میرا یہ بھی سوال ہے کہ اُنہوں نے دائش کے نقشہ پر صبحان اللہ لکھنے والے جمیعتِ علمائے ہند کے سیکریٹری علیم فاروقی اور جامیہ سید احمد شہید کے فاؤنڈر سلمان ندوی کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کی جنہوں نے دائش کے خلیفہ کو مبارک بادی کا خط لکھا۔ کیا ان لوگوں کا ایسا کرنا نوجوانوں کو دائش کی طرف راغب کرنا نہیں ہے۔سرکردہ لیڈران یہ بھی بتانے کی زہمت گوارہ کریں کہ جب مسلمانوں کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی جامعۃ الاظہر کے بڑے بڑے علماؤں نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ ابنِ تیمیہ، ابنِ عبد الوہاب نجدی، حسن بنّہ اور سید قطب جیسے لوگوں کے ذریعہ پیش کی گئی جہاد اور اسلام کی غلط تصویر کا نتیجہ ہی بنامِ اسلام پھیلی ہوئی تمام دہشتگرد تنظیمیں ہیں جو افغانستان سے لے کر سیریا تک لاکھوں افراد کا خون بہا چکی ہیں اور بہا رہی ہیں جن میں ۹۹ فیصدقتل ہونے والے کوئی اور نہیں بلکہ مسلمان ہیں تو پھران کتابوں پر پابندی آئد کرنے کے لئے سرکردہ لیڈران نے کوئی بیان کیوں نہیں جاری کیا۔ سرکردہ مسلم لیڈران اور تنظیمیں اس بات کی بھی وضاحت کریں کہ وہ کون لوگ ہیں اور وہ کون سی فکر ہے جس نے محبت اور انسانیت کا درس دینے والے صوفیائے کرام کے مزارات کو شرک اوربُت پرستی کا اڈّہ کہہ کر زمیں دوز کیا اور وسیلہ، شفاعت اور تعظیم کا قرآنی عقیدہ رکھنے والوں کا خون پانی کی طرح بہا دیا اور بہا رہے ہیں اور یہ کون لوگ ہیں جو اسلامی خلافت قائم کرنے کے نام پر لگاتار انسانی خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ کیا ایسے افراد اور ایسی فکر کو بے نقاب کرنا مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی سازش ہے؟  انصاف پسند اخبارات اور ٹیلی ویزن لگاتار اس راز کوفاش کر رہے ہیں کہ دہشتگردی فکر کو آلِ سعود کی حکومت نے ہی بنامِ اسلام اپنے سرکاری خزانے سے تیار کیاہے اور ابنِ تیمیہ اور ابنِ عبد الوہاب نجدی کی کتابیں ہی اس فکر کی اساس ہیں۔ سرکردہ لیڈران یہ بھی بتائیں کہ، کون سی کتابیں، کون سے ادارے، کون سے صحافی، اخبارات اور سرکردہ لیڈراس فکر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جب تک ان ساری باتوں سے پردہ نہیں اُٹھایا جائے گا تب تک صحیح معنیٰ میں اتحاد نہیں ہو سکتا۔سرکردہ لیڈران اچھی طرح سمجھ لیں کہ ابنِ تیمیہ اور ابنِ عبد الوہاب نجدی کے ذریعہ پھیلائے گئے وائرس نے اتّحاد کے خوبصورت جسم کے ایک حصّہ کو پوری طرح ناکارا کر دیا ہے۔اس لئے اگر جسم کے اُس سڑے ہوئے حصہ کو آپریشن کر کے الگ نہیں کیا جائے گا تویہ شیعہ سُنّی اتّحاد اور گنگا جمنی تہذیب کے خوبصورت درخت کو سوکھے ہوئے پیڑ میں تبدیل کر دیگا۔ اس لئے وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ امام خمینی اور امام بخاری کی آوازِ اتّحاد کو مل جل کر بلند کیا جائے اوردہشت گردی فکر کو پیدا کرنے والوں اور پروان چڑھانے والوں کو بھی بے نقاب کیا جائے نہ کہ اُنہیں اتّحاد کی چادر میں چھپانے کی کوشش کی جائے کیونکہ امام خمینی اور امام بخاری کا اتّحاد امن انسانیت اور اسلام دشمن داخلی اور خارجی طاقتوں کے منھ پر زور دار تمانچا ہے۔ جس کی تکلیف سے آج تک وہ طاقتیں تلملا رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اُن طاقتوں نے مل جل کر ۴۳ ممالک کا ایک گرپ بنا لیا ہے جو ایران سے اُٹھنے والی آواز اتّحاد کو روکنا چاہتی ہیں،مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر دہشتگردوں کی پشت پناہی چاہتی ہیں اور یہ سارا کام  امریکا و اسرائیل نواز حکومتیں صرف اور صرف اس لئے کر رہی ہیں تاکہ اُن کی بادشاہت اور حکومت پر کسی طرح کی آنچ نہ آئے۔ اُن کے آقا امریکا، برٹین اور یوروپی ممالک تیل اور گیس کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہیں اور بیت المقدّس کو گرا کر گریٹر اسرائیل بنانے کا خواب دیکھنے والی حکومت اسرائیل مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے۔ سرکردہ لیڈروں کو چاہئے کہ یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ دائش اور دائشی فکر کے خلاف آواز اُٹھانے والے صوفیائے کرام کی آڑ لے کر مسلکی انتشار نہیں پھیلا یا جا رہا ہے۔ بلکہ اسلام کو بدنام کرنے والی دہشتگرد فکر کو بے نقاب کیا جا رہا یہے۔اس لئے ایسا کرنے والوں پر کسی بھی طرح کا کیچڑ اُچھالنا کسی نہ کسی طرحاُنہیںافراد کی مدد ہے جو اسلام کو بنامِ اسلام بدنام کر رہے ہیں۔

(اس مضمون کے خیال مکمل طور نجی ہیں، اور instantkhabar.com اس میں درج  باتوں کی نہ تو حمایت کرتا ہے اور نہ ہی اس کے حق یا مخالفت میں اپنی رضامندی ظاہر کرتا ہے. اس مضمون کو لے کر آپکے خیالات کا بھی instantkhabar.com خیر مقدم کرتا ہے. آپ مضامین پر اپنی رائے editor@instantkhabar.com پر بھیج سکتے ہیں. پوسٹ کے ساتھ اپنا مختصر تعارف اور تصویر بھی بھیج.)