ہاشم انصاری سے میری تفصیلی ملاقات ہوئی میں نے خیریت دریافت کی تو بڑے اطمینان سے اور پر سکون لہجے میں کہا خدا کا شکر ہے۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ڈاکٹروں کی ٹیم بڑی مستعدی اور ذمہ داری کے ساتھ میری دیکھ بھال کر رہی ہے۔ اور اہل لکھنؤ مستقل عیادت کرنے آرہے تھے۔ یہ بات ہاشم انصاری فرما ہی رہے تھے کہ کہ ایک وفد سلطان پور سے عیادت کے لئے پہونچا ابھی چند ہی منٹ گذرے تھے کہ دوسرا وفد جامعہ الصالحات لکھنؤ کا آگیا۔ غیر مسلم بھی کثیرتعداد میں عیادت کے لئے آرہے تھے لیکن ہاشمانصاری راقم الحروف سے مستقل گفتگو کر رہے تھے غالباً وہ میری شباہت سے مجھے زیادہ پڑھا لکھا سمجھ رہے تھے میں نے پوچھا۔ چچا طبیعت کیسی ہے بالکل ٹھیک ہوں اور پھر گویا ہوئے کہ ریاستی حکومت مکمل طورپر میری معاونت کر رہی ہے میرا علاج ریاستی حکومت کے زیر نگرانی ہو رہا ہے۔ کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ یہ ہم پر خدا کا خاص کرم ہے۔ یہ جملہ کہتے ہوئے ہاشم انصاری کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں جولوگ وہاں موجود تھے اچانک ان کی آنکھوں میں بھی نمی نظر آئی جس کا راقم الحروف عینی شاہد ہے۔

ہاشم انصاری لوگوں سے بڑی دلیری بے باکی اور حق گوئی سے بات کر رہے تھے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ہاشم انصاری کو اتنے جذباتی انداز میں بات کرتے دیکھا ہے اور کہا کہ یہ اس کا کرم ہے کہ ہندوستان کے سبھی مذاہب کے لوگ میرا احترام کرتے ہیں یہ میری خوش نصیبی ہے بابری مسجد کے بارے میں ہاشم انصاری سے میں نے پوچھا تو فرمایا کہ میں عدالت عالیہ کے فیصلے کا شدت سے انتظار کر وں گا۔ 

لیکن ۸/فروری کا جملہ پھر دہرایا۔ بابری مسجد مسجد تھی ہے اور رہے گی یہ ہاشم انصاری کے ایمانی جذبات اور ضعیفی العمری کی علامت ہے واضح رہے کہ ہاشم انصاری ۹۹/برس کے ہو گئے ہیں سنچری میں صرف ایک رن کی ضرورت ہے۔ وہ بابری مسجد کے بارے میں جب بات کررہے تھے تو مجھے ایسا لگا جیسے ہاشم انصاری پورے یقین کے ساتھ مائل ملیح آبادی کے اس قطعہ کی بھر پور ترجمانی کر رہے ہیں:

ہمارے تن پہ جب تک سر رہے گا ہے 

خدا کا گھر خدا کا گھر رہے گا

اذاں پھر بابری مسجد میں ہوگی

نظام خالق اکبر رہے گا

واضح رہے کہ ۲۱/فروری کو ۲۱/بجے کر ۵۱/منٹ پر ہاشم انصاری اپنے آبائی وطن اجودھیا بخیر و عافیت پہونچ گئے ہیں۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ہاشم انصاری کو دیر تک سلامت رکھے۔ کیونکہ اس وقت ہاشم انصاری قوم و ملت کا ایک بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔

قمر سیتاپوری

کھدرا، لکھنؤ