پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپ میں دو افراد ہلاک اور دس زخمی ہوگئے ہیں۔ان ہلاکتوں کے بعد ملک بھر میں پی آئی اے کی پروازیں معطل کردی گئی ہیں۔

مقامی میڈیا کی اطلاع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے منگل کے روز کراچی کے جناح بین الاقوامی ہوائی اڈے پر احتجاج کرنے والے پی آئی اے کے ملازمین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا ہے،اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں اور ربر کی گولیاں چلائی ہیں جبکہ رینجرز اور پولیس نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی تردید کی ہے۔

پی آئی اے کے ملازمین قومی فضائی کمپنی کی نج کاری اور وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی جانب سے لازمی سروس ایکٹ کے نفاذ کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔اس دوران فائرنگ سے دو مظاہرین زخمی ہوگئے اور وہ بعد میں دم توڑ گئے ہیں۔کراچی میں ان ہلاکتوں کی اطلاع پھیلنے کے بعد لاہور ،اسلام آباد ،ملتان ،پشاور اور کوئٹہ کے ہوائی اڈوں سے شام چار بجے کے بعد پی آئی اے کے فلائٹ آپریشنز معطل کردیے گئے ہیں۔

قبل ازیں پاکستان ائیرلائنز کیبن کریو ایسوسی ایشن کے صدر اور جائنٹ ایکشن کمیٹی کے ترجمان نصراللہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے ان کے چار نکاتی ایجنڈے کو تسلیم نہیں کیا ہے اس لیے ہڑتال جاری رہے گی۔

کراچی کے ہوائی اڈے پر پی آئی اے کے احتجاجی مظاہرین کو ہوائی اڈے کے کارگو گیٹ سے داخل ہونے اور جناح ٹرمینل کی جانب جانے سے روکنے کے لیے رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ٹیلی ویژن کی فوٹیج کے مطابق مظاہرین نے زور زبردستی کرکے کارگو گیٹ کی جانب جانے کی کوشش کی تھی جس پر سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں اور ان پر پانی کا استعمال کیا ہے۔

اس دھکم پیل کے دوران مظاہرے میں شریک پی آئی اے کے شعبہ انجینیئرنگ کا ایک ملازم عنایت رضا گولی لگنے سے زخمی ہوگیا۔گولی اس کے سینے میں لگی تھی،اس کو ایک نجی اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا ہے۔

مظاہرے کے دوران فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک اور ملازم سلیم جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل کمپلیکس میں دم توڑ گیا ہے۔جناح اسپتال کی ترجمان ڈاکٹر سیمی جمالی نے ایک ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کے پاس دس زخمی لائے گئے ہیں اور ان میں دو کی حالت تشویش ناک ہے۔

کراچی مشرقی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (ڈی آئی جی) کامران افضل نے بتایا ہے کہ گولیوں کے خول اکٹھے کر لیے گئے ہیں اور اس بات کا تعیّن کیا جارہا ہے کہ مظاہرین پر کس نے گولی چلائی ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس ملازمین نے فائرنگ نہیں کی ہے کیونکہ ہم نے انھیں مظاہرین سے تشدد آمیز طریقے سے نہ نمٹنے کی ہدایت کی تھی۔

رینجرز کے افسر تعلقات عامہ نے بھی ایک سرکاری بیان میں کہا ہے کہ ”کسی رینجرز اہلکار نے جناح ٹرمینل پر مظاہرین کو کنٹرول کرنے کےلیے فائرنگ نہیں کی ہے”۔سکیورٹی اہلکاروں نے میڈیا کو واقعے کی کوریج سے روک دیا تھا اور اس دوران جھڑپوں میں ایک صحافی سمیت تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔

کراچی میں پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین کے خلاف طاقت کے استعمال اور دو ہلاکتوں کے بعد پشاور،اسلام آباد،لاہور اور ملتان میں بھی ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے احتجاج کیا گیا ہے۔قبل ازیں سول ایوی ایشن کے حکام نے بتایا تھا کہ اس احتجاج کے باوجود اندرون اور بیرون ملک پروازوں کی معمول کے مطابق آمد ورفت جاری ہے لیکن شام کے وقت پی آئی اے کی پروازیں معطل کردی گئی ہیں۔

درایں اثناء پی آئی اے کے ترجمان عادل گیلانی نے کہا ہے کہ قومی ائیرلائنز کی انتظامیہ نے احتجاجی مظاہرین کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی تھی لیکن انھوں نے اس پر کوئی کان نہیں دھرے ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت قانون کے مطابق صورت حال سے نمٹنے کے لیے کارروائی کررہی ہے۔