سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ان کے ملک اور ایران کے درمیان جنگ ایک تباہی کا آغاز ہوگی اور الریاض اس جنگ کی اجازت نہیں دے گا۔

انھوں نے یہ بات برطانوی جریدے اکنامسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ”یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی ہم کوئی پیشین گوئی نہیں کرسکتے ہیں اور جو کوئی بھی جنگ کی شہ دے رہا ہے،اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے”۔

انھوں نے انٹرویو میں مزید کہا کہ ”اس (جنگ) کے دنیا پر بہت سخت اثرات مرتب ہوں گے۔ہم یقینی طور پر ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دیں گے”۔ اکانومسٹ کے صحافیوں نے شہزادہ سلمان سے پانچ گھنٹے تک گفتگو کی ہے اور یہ ان کا پہلا آن ریکارڈ انٹرویو ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے ساتھ حالیہ سفارتی کشیدگی کے تناظر میں کہا کہ ”ہمیں خدشہ ہے،وہ (ایرانی) اس کو مزید بڑھاوا دیں گے۔ذرا تصور کریں کہ اگر ایران میں کسی سعودی سفارت کار یا اس کے خاندان یا بچوں پر حملہ ہوتا ہے تو پھر ایران کی پوزیشن مزید مشکل سے دوچار ہوجائے گی”۔

گذشتہ ہفتے کے روز سعودی عرب میں شیعہ عالم نمر النمر کا دہشت گردی اور بغاوت کے جرم میں سرقلم کیے جانے پر مشتعل ایرانی مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے پر دھاوا بول دیا تھا اور ان کی عمارتوں میں گھس کر آگ لگا دی تھی جبکہ بعض ایرانی لیڈروں نے سعودی عرب کے خلاف تند وتیز بیانات جاری کیے تھے۔ان واقعات کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان سلمان کی میڈیا سے یہ پہلی گفتگو کی ہے اور انھوں نے ایرانی سیاسی لیڈروں کے اشتعال انگیز لب ولہجے کے برعکس انٹرویو کے دوران محتاط الفاظ میں بات چیت کی ہے۔

ایران میں جنیوا کنونشنز کی اس انداز میں کھلے عام پامالی کے ردعمل میں خلیج تعاون کونسل میں شامل چھے میں سے دو سعودی عرب اور بحرین نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔کویت اورقطر نے اپنے سفیروں کو تہران سے واپس بلا لیا ہے اور پانچویں ملک متحدہ عرب امارات نے بھی اپنا سفارتی درجہ گھٹا دیا ہے اور ایران کو سفارتی عملہ کرنے کے لیے کہہ دیا ہے جبکہ چھٹے ملک سلطنت آف اومان نے ایران سے تعلقات برقرار رکھنے یا منقطع کرنے کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔