پاکستانی حکومت نے پاکستان میں تعینات بنگلہ دیش کی سفارت کار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے اُنھیں آئندہ 72گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے مطابق جس بنگلہ دیشی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے ان کا نام موشومی رحمان ہے اور وہ بنگلہ دیشی ہائی کمیشن میں سیاسی قونصلر کا عہدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہیڈ آف چانسلری بھی ہیں۔

اہلکار کے مطابق مذکورہ سفارت کار کو اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے تاہم حکومت کی طرف سے ابھی تک اُن الزامات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا جن کو بنیاد بناتے ہوئے موشومی رحمان کو ملک چھوڑنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اہلکار کے مطابق کسی بھی غیر ملکی سفارت کار کے سفارتی آداب کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت ادارے رپورٹ کرتے ہیں جن کی روشنی میں حکومت کسی بھی ملک کے سفارت کار کو ناپسندیددہ شخصیت قرار دیکر اُنھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیتی ہے۔ تاہم سرکاری طور پر ابھی تک بنگلہ دیشی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل گذشتہ ماہ بنگلہ دیشی حکومت نے کالعدم جماعت کے رکن کو مالی معاونت فراہم کرنے کے الزام میں پاکستانی سفارت کار فارینہ ارشد کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ کالعدم جمعیت المجاہدین بنگلہ دیش کے ایک مبینہ رکن ادریس شیخ کی حراست کے بعد پولیس کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ملزم نے یہ تصدیق کی ہے کہ اسے بیرونی ملک سے فنڈنگ ملتی ہے۔

بعد ازاں مقامی میڈیا نے غیر ملکی مالی مدد کرنے والے کی شناخت فارینہ ارشد کے نام سے کی جو بنگلہ دیش میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے میں بحیثیت سیکنڈ سیکریٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے پاکستانی سفارت کار پر لگنے والے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ پاکستانی سفارت کار کو بنگلہ دیشی حکام کی طرف سے ہراساں کیا جارہا تھا