سنبھل اترپردیش صوبہ کا قدیم شہر ہے، اس کو تاریخی دستاویزوں میں ’’سرکار ِسنبھل‘‘ لکھا گیا ہے۔ پرتھوی راج چوہان کے زمانہ میں سنبھل کو راجدھانی کا مقام حاصل تھا۔ مغلوں کے دور میں بھی سنبھل کی امتیازی حیثیت باقی رہی۔ متعدد علماء کرام اس سرزمین میں پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن وحدیث کی ترویج میں نمایاں خدمات پیش کیں۔ البتہ برطانوی عہد حکومت میں دوسرے اہم مغل مراکز کی طرح سنبھل کا بھی زوال ہوا۔ انگریزوں سے ملک کی آزادی کے لئے سنبھل کے متعدد حضرات نے قربانیاں دیں، جن میں میرے دادا مجاہد آزادی مولانا محمد اسماعیل سنبھلی کا بھی اہم نام ہے۔ ان کو انگریز حکومت کے خلاف شعلہ بیان تقاریر کی وجہ سے صرف ۲۲ سال کی عمر میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی دادا محترم کو کئی بار قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ ۱۹۳۶ اور ۱۹۴۶ کے دونوں الیکشن میں مولانا اسماعیل سنبھلی کو عوام نے اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ آزادی کے بعد۱۹۵۲ میں ہونے والے پہلے جمہوری اسمبلی الیکشن تک مولانا اسماعیل سنبھلی ہی اسمبلی میں سنبھل کی نمائندگی کرتے رہے۔

پورے ملک کی طرح شہر سنبھل میں بھی CAA، NPR اور NRC کے خلاف احتجاجات ہو رہے ہیں۔ ۲۰ دسمبر کو سنبھل کے چندوسی چوراہے پر ہزاروں نوجوانوں کے احتجاج کے دوران پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس چھوڑے، جس کے بعد بھگدر مچ گئی تھی، کچھ افراد نے پولیس پر پتھر بھی پھینک کر مارے جس کے جواب میں گولی چلی اور سنبھل کے دو نوجوان(بلال اور شہروز) جاں بحق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے اور ان کے گھر والوں کے صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ اہل سنبھل نے دونوں شہیدوں کے گھر والوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا۔ سنبھل سے ۴۵ لوگ، جن میں چند نابالغ بھی ہیں، گرفتار کرکے ان کے اوپر متعدد دفعات لگادی گئی ہیں، سنبھل کے وکلاء حضرات کسی معاوضہ کے بغیر ان کی رہائی کے لئے اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ ابھی تک گرفتار شدہ لوگوں میںسے ۹ لوگوں کی رہائی ممکن ہوسکی ہے، دیگر حضرات کی رہائی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ۲۳ دسمبر کو سنبھل کی خواتین نے بھی سنبھل میں جگہ جگہ CAA، NPR اور NRC کے خلاف اور گرفتار شدہ افراد کی رہائی کے لئے پر امن احتجاج کیا تھا۔

سی اے اے قانون کے خلاف سو سے زیادہ پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر ہوئیں، جس پر سپریم کورٹ میں ۲۲ جنوری کو سماعت تھی۔ پورے ملک کی طرح سنبھل کی عوام کو بھی ہندوستان کی عدالت عظمیٰ سے کافی توقعات تھیں، مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اپنا جواب کورٹ میں پیش نہیں کیا اور مزید ۶ ہفتوں کا وقت مانگا، جس پر سپریم کورٹ نے حکومت کو مزید چار ہفتوں کا وقت دے دیا۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کے بعد پورے ملک میں دوبارہ سے CAA، NPR اور NRC کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔ دہلی کے شاہین باغ کے طرز پر خواتین نے جگہ جگہ احتجاج شروع کردیا۔ سنبھل کے مشہور محلہ دیپا سرائے، جہاں بہت بڑی تعداد میں ترک برادری آباد ہے، میں حسینی روڑ پکا باغ کے قریب ایک وسیع میدان میں ۲۳ جنوری سے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طلبہ کی سرپرستی میں خواتین نے احتجاج شروع کردیا ہے، جو ۲۴ گھنٹے چل رہا ہے، مختلف تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے کارکن وقتاً فوقتاً تشریف لاکر اپنے خیالات کا اظہار کرکے اپنی مکمل سپورٹ دھرنے پر بیٹھی خواتین کے ساتھ ظاہر کررہے ہیں۔ نہ صرف سنبھل کے پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبران بلکہ قرب وجوار کے دیگر پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبران بھی احتجاج پر بیٹھی خواتین کے جذبات کو سلام کرنے کے لئے یہاں تشریف لارہے ہیں۔ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم حضرات بھی دھرنے کی جگہ پر تشریف لاکر اپنی حمایت کا اعلان کررہے ہیں۔ بھیم آرمی اور دلت سرکشا منچ کے ذمہ داران بھی یہاں تشریف لاکر CAA قانون کے خلاف احتجاج میں بیٹھی خواتین کے ساتھ مکمل ہمدردی کا اظہار کرچکے ہیں۔ بارش کے باوجود خواتین کی ہمت کو سلام پیش ہے کہ وہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود اپنے موقف پر قائم ہیں کہ جب تک حکومت CAA قانون کو واپس نہیں لیتی ہے یا اس میں ضروری تبدیلی نہیں کرتی ہے یہ احتجاج جاری رہے گا۔ سنبھل کے پکا باغ کے قریب میدان میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین ۲۴ گھنٹے احتجاج میں موجود رہتی ہیں۔ سحری اور افطار کے نظم کے علاوہ ان کے کھانے کا معقول انتظام ہے۔ ذکر واذکار کے ساتھ ملک میں امن وسکون اور شانتی کے لئے دعائیں بھی کی جارہی ہیں۔ سنبھل خاص کر دیپاسرائے کے نوجوان خواتین کی جانب سے دھرنے کو کامیاب بنانے کے لئے ۲۴ گھنٹے اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ ۳ لاکھ سے زیادہ آبادی والے اس قدیم شہر میں ۷۵ فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ بہوجن کرانتی مورچہ کی جانب سے بھارت بند کے اعلان پر عمل کرتے ہوئے آج شہر سنبھل میں کاروباری نظام متاثر رہا۔ عموماً دکانیں بند رہیں۔

ملک کی عوام کی طرح سنبھل کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نیا قانون (CAA) ہندوستانی دستور اور دنیا میں مشہور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ہے اور اس کے بعد مستقبل میں پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوگا، اس لئے اس نئے قانون کی مخالفت کرنا ہم سب کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس نوعیت کے فیصلوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے مظاہرے یا جلسے یا جلوس کرنا یا انتظامیہ کو میمورنڈم پیش کرنا ہندوستانی قوانین کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستانی آئین کے مطابق ہمیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ اس نئے قانون کے پاس ہونے کے بعد سے پورے ہندوستان میں جگہ جگہ اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور پرامن طریقہ پر یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے کیونکہ اس وقت آواز بلند نہ کرنے پر ہماری قوم کو بڑا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جو سب کا ساتھ سب کے وکاس کی بات کرتی ہے مگر وہ اس نئے قانون کے ذریعہ ہندو مسلم ایکتا کو ختم کرکے ملک کی عوام کو تقسیم کرنا چاہتی ہے، جس سے ملک ترقی کے بجائے زوال پزیر ہورہا ہے، جس کے لئے ملک کی موجودہ اقتصادی حالت شاہد ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ’’سب کا ساتھ سب کے وکاس‘‘نعرہ کو عملی جامۂ پہناکر اس قانون کو واپس لے یا تبدیلی کرکے اس میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مسلمان کا نام بھی شامل کرے۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی