عادل فراز

بغداد ائیرپورٹ کے باہر امریکی دہشت گردانہ اور بزدلانہ حملے میں شہید ہوئے ایرانی سپاہ قدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور کتائب حزب اللہ کے کمانڈر ابومہدی المہندس کی شہادت کے بعد مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں ۔اگر مشرق وسطیٰ میں جنگ کا آغاز ہوتاہے تو اس کی ذمہ داری ایک نفسیاتی مریض اور ناعاقبت اندیش امریکی صدر کے سرہوگی ۔ڈونالڈ ٹرمپ پہلا ایسا امریکی صدر ہے جو عالمی سیاست سے نابلد اور مشرق وسطیٰ کی علاقائی صورتحال سے ناواقف ہے ۔چونکہ اس کے پس پشت استعمار اور عالمی استکبار کام کررہاہے اس لئے ان کا مقصد فقط اپنا مفاد حاصل کرناہے۔انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ امریکی صدر کے اس ناعاقبت اندیشانہ اقدام سے عالمی سطح اور خاص طورپر مشرق وسطیٰ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔وہ مطمئن ہیں کہ اگر اس حملے کے غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں تو اسکی ساری ذمہ داری امریکی صدر کے سرپر ہوگی اور عالمی میڈیا اور سامراج جو ان کا مرہون منت ہی نہیں بلکہ غلام ہے ،انہیں اس صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹہرائے گا ۔چونکہ ڈونالڈ ٹرمپ کواس حملے سے پہلے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ امریکہ میں ان کے خلاف جو مؤاخذکی تحریک چل رہی ہے وہ متاثر ہوگی اور متوقع الکشن میں بھی اس حملے کا براہ راست فائدہ حاصل ہوگا ۔ٹرمپ کے سامنے بل کلنٹن کے سیاہ کارناموں کی تاریخ ہے ،جس نے مؤاخذہ سے بچنے کے لئے عراق پر جنگ تھوپ کر اپنا مفاد حاصل کیا تھا ۔آج عراق پر تھوپی گئی جنگ کے تمام عواقب اور حقائق سامنے آچکے ہیں مگر کلنٹن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ،ٹرمپ بھی عالمی استکبار کی طاقت اور رسائی سے واقف ہے اس لئے وہ ان کے دھوکے میں آکر اس حملے کا مرتکب ہواہے ۔

اگر مشرق وسطیٰ میں جنگ کا آغاز ہوتاہے تو اسکے سب سے زیادہ اثرات خطے میں موجود علاقائی ممالک پر اثرانداز ہوں گے ۔انہیں بھی ناخواستہ اس جنگ میں شامل ہونا پڑے گا ۔چین جو ہر اعتبار سے امریکہ کو اپنا حریف مانتاہے اور اس وقت ایران کے ساتھ اس کے گہرے روابط ہیں ،عالمی سیاست کے خلاف ایران کی بھرپور حمایت کرے گا ۔جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی شہادت سے پہلے خلیج فارس میں تین ملکوں،چین ،روس اور ایران کی مشترکہ جنگی مشق جاری تھی ۔چین نے واضح الفاظ میں امریکی آمریت اور اس کی فوجی کاروائی کی مخالفت کی ہے ۔ہندوستان جو اس وقت اسرائیل اور امریکہ کا قریبی دوست مانا جاتاہے ،اس جنگ سے براہ راست اثر قبول کرے گا ۔اس وقت ہندوستان کی اقتصادیات اپنے بدترین دور سے گذر رہی ہے ،ظاہر ہے جنگ کی صورت میں اس کی اقتصادیات کا رہا سہا ڈھانچہ بھی تباہ ہوجائے گا ۔ امریکی حملے کے بعد عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بھاری اچھال آیاتھا جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں ۔ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے ایرانی ہم منصب سے اس الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کے لئے گفتگو کی ہے ،لیکن ہندوستان بھی جانتاہے کہ اس رسمی گفتگو سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔امریکہ کے اس حملے نے مشرق وسطیٰ میں جو صورتحال پیدا کردی ہے اس کی بھرپائی اب مذاکرات سے نہیں ہوسکتی ۔

پاکستان اور افغانستان ایران کے دو ایسے پڑوسی ممالک ہیں جن کے جغرافیائی حدود ہندوستان سے ملتے ہیں ۔جبکہ افغانستان کی سرحدیں ہندوستان سے نہیں ملتی ہیں مگر پاکستان اور چین سے سرحدی ملاپ ہونے کی وجہ سے وہ ہندوستان کا بھی ہمسایہ ملک ہے ۔اگر امریکہ ان دونوں ملکوں کے ائیربیس کا استعمال ایران کے خلاف کرتاہے تو اس کا خمیازہ دونوں ملکوں کو داخلی اور خارجی سطح پر بھگتنا پڑے گا ۔افغانستان میں طالبان سے امریکہ کی مذاکرات کی تمام تر کوششیں ناکام ہوچکی ہیں ،اس لئے اگر امریکہ افغانستان کی سرزمین کو ایران کے خلاف استعمال کرے گا تو طالبان اور خود افغانستان کی فوج سے اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔یہی صورتحال پاکستان میں بھی پیدا ہوگی ۔کیونکہ پاکستانی عوام اور وہاں کی فوج ایران کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دے گی ۔پاکستان اس کے نقصانات سے بخوبی واقف ہے ۔اگر ایسا ہوگا تو امریکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی شکست سے دوچار ہوجائے گا۔کیونکہ ایران کی فوج سے پہلے اسے پاکستان اور افغانستان میں ہی وہاں کی تنظیموں ،عوام اور فوج سے مزاحمت کرنا پڑے گی جو جنگ کی صورتحال میں اس کے لئے خطرناک ثابت ہوگی ۔امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے پاکستانی جنرل باجوہ سے قاسم سلیمانی کی شہادت کےسلسلے میں بات کرتے ہوئے ان کی حمایت طلب کی ہے مگر ابھی یہ پوری طرح واضح نہیں ہے کہ پاکستان اس جنگ میں کیا مؤقف اختیار کرے گا ۔

رہا سعودی عرب اور اسرائیل کی سرزمین کے استعمال کا مسئلہ تو ان دونوں ملکوں کو خطے میں سب سے زیادہ ایران سے خطرہ لاحق ہے ۔اگر سعودی عرب ایران کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت دیتاہے تو پھر اس پر چہارجانب سے حملہ ہونے کی امید ہے ۔لبنان میں حزب اللہ ،یمن میں انصاراللہ ،عراق میں حشد الشعبی اور مہدی آرمی ،شام میں شامی فوج،حزب اللہ کےجوان اور دیگر مقاومتی تنظیمیں اس کے خلاف کمربستہ ہوجائیں گی ۔سعودی عرب اپنے مخالفوں کی طاقت اور اپنی متوقع تباہی سے پوری طرح واقف ہے اس لئے امریکی حملے میں ہونے والی شہادتوں پر اس کا کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ورنہ سعودی عرب کے لئے تو یہ جشن کا موقع کا تھا کیونکہ ایران کا طاقتور ترین کمانڈر امریکی حملے میں شہید ہواتھا مگر انہوں نے برملا کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا ۔یہی صورتحال اسرائیل میں بھی پیدا ہوگئی ہے ۔مذکورہ تمام فوجی طاقتوں سے جتنا خطرہ سعودی عرب کو لاحق ہے اس سے کہیں زیادہ اسرائیل ان علاقائی طاقتوں سے خوفزدہ ہے ۔اسکی اہم وجہ یہ ہے کہ یمن،شام اور لبنان میں اسرائیل کی فوجی حکمت عملی کو ناکام کرنے میں جنرل قاسم سلیمانی کی منصوبہ بندیوں کااسے پوری طرح علم ہے ۔اسرائیل جانتاہے کہ حزب اللہ ،انصار اللہ ،حشدالشعبی اور دیگر علاقائی فوجی طاقتوں پر ایران کا کتنا گہرا اثرہے ۔وہ یہ بھی جانتاہے کہ فلسطین کی مقاومتی تنظیمیں من جملہ الحماس ایران کی حمایت میں اس کے خلاف کمربستہ ہیں ۔اس لئے متوقع جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ خمیازہ اسرائیل کو بھگتنا ہوگا ۔

جنر ل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی شہادت کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ مزید نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ٹرمپ نے باربار ایران کو دھماکر اپنی بوکھلاہٹ اور خوف زدگی ظاہر کردی ہے ۔امریکہ عالمی میڈیا کےسامنے یہ دہرارہاہے کہ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف یہ کاروائی کی ہے ۔ظاہر ہے عالمی میڈیا استعمار کے ہاتھ کا کھلوناہے لہذا وہ کبھی امریکہ کےالزامات کے خلاف نہیں جاسکتا۔ہندوستانی میڈیا جو اس وقت استعمار کے پروپیگنڈہ کا پوری طرح شکار ہوچکاہے ،جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کو دہشت گرد تسلیم کرچکاہے ۔اگر امریکہ کسی فوج یا تنظیم کو دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیتاہے تو پوری دنیا ان تنظیموں اور فوجوں کو دہشت گرد کہہ کر مخاطب کرنے لگتی ہے ۔یہ میڈیا اس وقت بھول جاتی ہے کہ اس کے ملک کی متعدد تنظیموں کو امریکہ نے دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال رکھاہے ۔پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ عالمی دہشت گردی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔داعش جیسی دیگر درجنوں دہشت گرد تنظیموں کو وجود میں لاکرامریکہ نے اپنا مفاد پوراکیاہے ۔اگر امریکہ کے دہشت گرد کہنے سے کوئی دہشت گرد ہوجاتاہے تو پھر ہندوستان کو بھی اپنی متعدد تنظیموں کے بارے میں از سرنو غورکرنا ہوگا۔امریکہ بخوبی جانتاہے کہ اس حملےکے بعد علاقہ میں کیا صورتحال پیدا ہوگی اس لئے اس نے ہندوستان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے یہاں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری ایران کے سر منڈھنے کی کوشش کی ہے جبکہ ممبئی اور دہلی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کے ایجنٹ شامل تھے ۔لہذا میڈیا کو امریکی اور اسرائیلی پروپیگنڈہ کے بجائے جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کے خدمات اور حصولیابیوں پر تحقیق کرنی چاہئے اور عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے انہیں حقیقت سے روشناس کرانا چاہئے مگر ہم جانتے ہیں کہ بکائو میڈیا یہ کام کبھی نہیں کرے گا ۔

ایران جنرل قاسم سلیمانی ، ابومہدی المہندس اور دیگر شہداء کی شہادت کے انتقام کا اعلان کرچکاہے ۔ایران مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقت کا نام ہے ۔ایران کے اس اعلان کو جو لوگ بہت ہلکے میں آنک رہے ہیں انہیں بھی اس کے نتائج کا اندازہ ہے مگر وہ عالمی سطح پر کھل کر اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرسکتے ۔ہندوستان کو اس حقیقت کو فوری طورپر سمجھنا ہوگا کہ اگر مشرق وسطیٰ میں جنگ کا آغاز ہوتاہے تو اس کا کردار کیا ہوگا۔ہندوستان کو اسرائیل نوازی میں ایران کے خلاف جاکر اپنا اور اپنی عوام کا نقصان نہیں کرنا چاہئے ۔انہیں اس جنگ کے نتائج پر سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی ۔ظاہرہے اس وقت ہندوستان میں اسرائیل اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے اس کے باوجود ہندوستان علاقائی سالمیت کے لئے اپنا مثبت کردار اداکرسکتاہے ۔اس کے لئے ہندوستان کو اسرائیل اور امریکہ نوازی سے دستبردارہونا پڑے گا۔