لکھنؤ: راشٹریہ سماجک کارکن تنظیم کے کنوینر محمد آفاق نے این آر سی اور سی اے اے پر مخالفت درج کراتے ہو ئے کہا کہ سی اے اے کو اگر این آرسی کے بغیر سمجھیں گے تو یہ ہماری نادانی ہو گی ۔ کسی بھی قواعد کو سمجھنے کے لئے اس کی مثال سمجھنا ضروری ہے ۔ اسی طرح این آر سی کی مثال آسام ہے۔ آسام میں تقریبا 19 لاکھ لوگ این آر سی میں اپنانام درج نہیں کر اپائے ۔ جس میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے ، ان غیر مسلموں کو سی اے اے کے تحت یہ ہندوستانی آسانی سے ہو جا ئیں گے ۔ مگر مرکزی حکومت بتائے کہ ان لاکھوں مسلمانوں پر کیا ہو گا ۔ یہ ایک صوبہ کا حال ہے ، تصور کریں کہ یہ کہیں پورے ملک میںنافذ ہو گیاتو یہ تعداد لاکھوں سے کروڑوں میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔ بہت سے نامور آسامی کی اولادیں اس این آر سی سے باہر ہو چکی ہیں ۔ جبکہ ان کے پر کھوں نے ہندوستان کے لئے اپنی قربانی پیش کی تھی ۔ میں مسلم مذہبی رہنما خصوصی طورپر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر عالی جناب مولانا سید رابع حسنی ندوی اور ان کے مشیر کار وں کی خاموشی سے حیران ہوں ۔ کہیں ان کی یہ خاموشی مسلمانوں کو ہلاکت میں نہ ڈال دے ۔ یا تو یہ اپنی خاموشی توڑیں یا پھر کسی ہونہار کو اپنا صدر بنا ئیں ۔ اس کے علاوہ ابھی حال ہی میں ندوۃ العلماء سے سبکدوش ہو ئے ایک مولانا جو باتیں تو لمبی لمبی کر تے تھے ، مگر آج ایک لفظ بھی ان کا سننے کو نہیں مل رہا ہے ۔ یہی حال شہر کی چاند کمیٹیوں کے صدروں کاہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ این آر سی ، اور سی اے اے پر ان کا واضح بیان آتا ۔ اور مسلمان کو ایک واضح راستہ مل جاتا ۔ اور ملک تشدد سے بچتا ، ساتھ ہی بے قصور مسلم نوجوان جیلوں کی صعوبتیں نہ جھیلتے ۔