رپورٹ: کشور مصطفی

۲۹؍ مئی کی سہانی شام کو جرمنی کی سابقہ راجدھانی بَون میں رائن انڈس فورم کی طرف سے ایک خوبصورت ادبی محفل کا انعقاد کیا گیا۔جو شہر کی ایک خوبصورت مضافاتی بستی ’ہائیڈرش ہوف‘ میں منعقد ہوئی، جس میں کئی ملکی اور غیر ملکی ادیبوں وشعراء نے شرکت کی۔

محفل دو حصوں میں تھی۔ بیرونِ ملک سے تشریف لائے ہوئے مصنفین عامر اسحق سہروردی کی کتاب ’کہتا ہوں سچ‘ اور کاشف رضا کے ناول ’چہار درویش اور کچھوا‘ کی رسم ِ اجراء اور اس کے بعد افطار اور عشائیہ اور اس کے بعد عارف نقوی کی صدارت میں انٹرنیشنل مشاعرہ۔

محفل کا آغازکرتے ہوئے رھائن انڈس فورم بون کی جنرل سکریٹری کشور مصطفی نے حاضرین کا استقبال کیا اور تنظیم کے صدر ڈاکٹر اسلم سید سے درخواست کی کہ وہ فورم اور اردو ادب کے بارے میںاپنے خیالات کا اظہار کریں۔

ڈاکٹر اسلم سید نے اپنے فورم کا تعارف کراتے ہوئے گوئٹے کی ایک غیر مطبوعہ نظم ’محمد کا گیت‘ کاحوالہ دیاجس میں شاعر نے پانی کے بہائو کو اسلامی ثقافت کے عروج سے تشبیہ دی ہے کہ کس طرح ایک چھوٹی سی ندی ایک بڑے دریا اور پھر سمندر میں تبدیل ہو گئی۔انہوں نے کہا کہ دریائے رھائن اور دریائے سندھ کے پانی سے تہذیبوں کو قریب لانے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے بعدکراچی سے آئے ہوئے دو ادیبوں کی دلچسپ کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی ۔ عامر اسحق سہروردی کی کتاب ’کہتا ہوں سچ‘۔ یہ ایک صحافی ہیںجنہوں نے اپنے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کالموں کو یکجاکیا ہے۔ دوسری کتاب سید کاشف رضا کا ناول ’چہار درویش اور کچھوا‘ ہے۔کاشف رضا نوجوان ادیب اور شاعرہیں۔جو انسانی فطرت کی عکاسی ان گوشوں سے کرتے ہیں۔ جن پر عام طور سے رسائی ممکن نہیں ہے۔یہ کام وہ ایک کچھوے سے لیتے ہیں۔جو وہ سچ اگلتا ہے وہ چہار درویش میں چھپاتے ہیں۔ دونوں مصنفین نے اپنی کتابوں پرروشنی ڈالی ، کچھ حصے پڑھ کر سنائے اور حاضرین کے سوالوں کے جواب دئے۔اس موقع پر لوگوں کی فرمائش پر عارف نقوی نے ترقی پسند تحریک کے بارے میں کچھ سوالوں کے جواب دئے۔ اس اثنا میں افطاری کا وقت ہو گیا تھا اس لئے وقفے کا اعلان کیا گیا۔

دوسرے دور کا آغاز مشاعرے سے کیا گیا جس کی صدارت اردو زبان کے مشہور ادیب ،شاعر اور استادجنہیں یورپ کے بابائے اردو کا لقب دیا گیا ہے عارف نقوی نے کی، جو برلن سے خاص طور سے تشریف لائے تھے ۔

دوسرے شعراء جنہوں نے حاضرین مجلس کو اپنے کلام سے محظوظ کیا ان میں کنیڈا سے تشریف لائے ہوئے شاعر و ادیب سلمان حیدر تھے، جنہوں نے اپنے منفرد انداز میں جادو جگایا۔ محترمہ طاہرہ رباب نے تحت اور خوبصورت ترنم سے کلام پیش کر کے کافی داد حاصل کی۔وہ آٹھ گھنٹے گاڑی چلا کر شمع اردو کی روشنی میں اضافہ کرنے کے لئے ہیمبرگ سے تشریف لائی تھیں۔ محترمہ مونا کاظم ،جن کا ہر قدم اور قلم صرف مظلوم انسانوں کے لئے اٹھتا ہے ڈیلس (Dallas)امریکہ سے تشریف لائی تھیںان کے کلام کو بھی بہت پسند کیا گیا اور داد دی گئی۔

برسلس سے تشریف لائے ہوئے شاعر شیراز راج نے بھی اپنے خوبصورت اشعار سے لوگوں کو مسحور کیا۔محترمہ غزل انصاری کی شمولیت نے مشاعرے میں رنگ اور آواز کا آہنگ بھرا۔ وہ صرف اسی لئے انگلستان سے آئی تھیں۔کاشف رضا نے غزل ایک نئے رنگ سے پیش کی اور داد حاصل کی۔ جناب اقبال حیدرجو فرانفورٹ سے تشریف لائے تھے، جناب عاطف توقیراور جناب نجمی حیدر کے کلام کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ آخر میں صدر مشاعرہ عارف نقوی نے تحت اللفظ اور ترنم دونوں انداز سے اپنے کلام سے نوازا ۔ اور اس طرح سے آدھی رات کو یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔