لکھنو : آیة اللہ حمید الحسن قبلہ آج یہاں جامعہ نا ظمیہ میں ”درس قرآن و تفسیر “ کے عنوان پر وگرام کو خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ صاحب مجمع البیان فرما تے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا جس کے قبضہ قدر ت میں میری جان ہے۔ آیت لا الہ الا ھو الحی القیوم کوایک وقت ایسا آئے گا جب حکم رب کریم سے عرش معلیٰ پر اس آیت کو دہن اور زبان عطا کرے گا تو یہ آیت کلام بھی کرے گی ۔ یہاں غورکرنے کی بات ہے جب لوح محفوظ پر قرآن مجید کی آیت کو اللہ کی قدرت سے دہن ،زبان وبیان کی صلاحیت پیدا ہو جائے ۔ یہاں کسی کو اعتراض نہیں کیوں اللہ کی قدت کی بات ہے اور اللہ علی کل شی قدیر ہے ۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس پورے قرآن کا علم ہے وہ قرآن ناطق کیوں نہیں ہو سکتا ہے ۔ دست پیغمبر صلعم پر آنے پر بعد خود حضرت علی علیہ السلام نے کہاکہ تھا ” یا رسول اللہ صلعم کیا میں پڑھوں ؟ اگر پیغمبر اسلام صلعم اگر کہہ دیتے کہ علیؑ قرآن پڑھیے تو ہر مو رخ دعوئے اعتراض کر تا کہ اس میں کون سی اہمیت کی بات ہے جب پیغمبر زمین سے سنگریزے اٹھا کر کہتے تھے بو لو تو وہ بولنے لگتے تھے ۔ جس کے ہا تھ پہ پتھر آکر رسالت کی گواہی دے اگر حضرت علی علیہ السلام نے قرآن سنا دیا تو کون سی حیرت و تعجب کی بات ہے ۔ مگر دست رسالت پر خود مولاعلی علیہ السلام یہ کہنا کہ کیا میں پڑھوں ؟ جب حضرت علیہ السلام نے پڑھا تو پیغمبر اسلام نے کہاکہ یا علی آپ نے ایسا پڑھا جیسے میں پڑھتا تھا ۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ یہاں رسالت کی گواہی ہے حضرت علی علیہ السلام کے لیے کہ اگر کوئی لہجہ نبی میں قرآن پڑھ سکتا ہے تو وہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک ہے ۔

آیة اللہ حمید الحسن قبلہ نے آخر میں ھو کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہاکہ الاالہ الا ھو یہ بھی اپنے آپ میں ایک اسم ہے ۔ ھو اشارہ نہیں ہے ۔ اشارہ یا قریب کے لیے ہو گا یہ بعید کے لیے ہو گا اگر ھو کو اشارہ سمجھ لیاجائے تو یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑھے گی کہ اللہ کو آپ نے قریب و بعید میں محدود کر دیا ۔ خدا و ہ ذات ہے جو لا محدود ہے ۔یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اللہ لو گوں کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ھو یہ بھی اللہ کے اسم میں سے ایک اسم ہے ۔ اللہ کہہ رہا ہے ہم نے قرآن نا زل کیا ہم اس کے محافظ ہیں ۔آپ ہمیں بتائیں کہ کتنے مقام پر قرآن کو نقصان پہنچتاہے ۔کتنے ایسے مخالفین قرآن ہیں جو کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں؟ کیا قرآن مجید کی بے حرمتی نہیں کی ؟ کیاقرآن جلا یا نہیں گیا ؟تومحافظین کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ میں یہ بات بھی واضح کردوں کہ اللہ نے قرآن کے معنی و مفہوم کو باقی کے کا وعدہ کیا ہے حروف کا نہیں یعنی اللہ کہہ رہا ہے تو ظاہر ی اعتبا ر قرآن کو کتنا نقصان پہنچاو ¿گے مگر جو اصل قرآن ہے معنی و مفہوم اس کو کبھی بدل نہیں سکتے کبھی ختم نہیں کر سکتے یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں ظاہری اعتبار سے قرآن صامت سے مراد حروف معنی اور مفہوم ہیں اور با طنی اعتبار سے قرآن ناطق اہلبیت علیہ السلام ہیں کیونکہ حضرت علی السلام نے فرمایا ہے کہ ساری آیت جو نا زل ہوئی ہے اس کا گواہ میں( حضرت علی علیہ السلام ) خود ہوں ۔ اس بات ثبوت بھی حضرت علیہ السلام نے دست رسالت پر قرآن سنا کے دے دیا ۔

پروگرام میں جامعہ نا ظمیہ مولاناظہیر عباس ،مولانا محمد رضا ایلیا،مولانا سید عالی رضا ، مولاناسید حیدرحسن ، مولانا محمد مشرقین ،مولانا سید سہیل ، مولانا معصوم رضا ، مولانا رہبر عسکری،مولانا جوادحیدر،مولانا عابد ر مولانا مہدی رضامولانا نایاب حیدر،مولانا ظہور عبا س ،مولانا ولی حیدر کے علا وہ دیگر طلبہ اور معزز افراد موجود تھے ۔