اریبہ ایجوکیشنل اینڈویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام ’قرۃ العین حیدر بحیثیت عظیم فنکار‘پر سمینار منعقد

لکھنؤ : قرۃ العین حیدراردو ادب کی لافانی شخصیت جنہیں ذہانت ورثے میں ملی اور اسی ورثہ نے ان کے قلم سے وہ جواہراگلوائے جن کی جگمگاہٹ نے آج بھی ادب کو درخشندہ بنائے رکھا۔قرۃ العین نے افسانے،ناول،تراجم،اوربچوں کی کہانیاں وغیرہ سبھی اصناف میں طبع آزمائی کر اپنی منفرد پہچان بنائی،بلا شبہ قرۃ العین حیدر کے قدوقامت اور ان کے جیسے کمالات رکھنے والے تخلیق کا ر کسی بھی زبان میں صدیوں میں پیداہوتے ہیں۔اردوزبان کو ہمیشہ قرۃ العین حیدر کے تخلیقی ورثہ پر ناز رہے گا۔ مذکورہ خیالات کااظہار مہمان خصوصی ڈاکٹر طلعت نقوی (پرنسپل شیعہ پی جی کالج)نے اریبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام و اتر پردیش اردو اکادمی کے اشتراک سے منعقد سمینار ’قرۃ العین حیدر بحیثیت عظیم فنکار‘ بمقام ایکسپور مارٹ کانفرنس ہال قیصرباغ لکھنؤ میں کیا۔

سمینارمیں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹرنشاں زیدی،شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی نے کہاکہ قرۃ العین حیدر نے تین نسلوں کے خیالات،احساسات اور جذبات کو مختلف کرداروں کے ذریعے تاریخی پس منظر میں پیش کردیا ہے۔اس وقت کی تہذیب، معاشرت، سیاست،نظریات اور انقلاب کو رومان کی ردا تلے ایک وسیع کینواس پر اتارد یا ہے جس میں کہیں کہیں شعور کی رو بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔

سمینار میں استقبالیہ کلمات ڈاکٹر رضوانہ،شعبہ ٔ اردو آدرش کالج آف ایجوکیشنل بارہ بنکی نے اداکئے اور تمام مہمانان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پروگرام کی کامیابی کیلئے تمام مہمانوں اور سامعین کا والہانہ استقبال کیا۔ سمینار کی کامیاب نظامت اپنے مخصوص انداز میں ڈاکٹر منتظر قائمی شعبہ اردوپی جی کالج محمودآباد نے کی۔

مہمانان اعزازی سماجی کارکن مراری داس سوامی جی، سماجی کارکنہ ڈاکٹر شالنی سنگھ نے اردو ادب کابہترین پروگرام منعقد کرانے کیلئے اریبہ سوسائٹی کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کی اور ریاستی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے اترپردیش اردوکا اکادمی کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے تاکہ اردو زبان وادب کی زیادہ سے زیادہ خدمت اور بہت ممکن حد تک فروغ ہوسکے۔حکومت سب کا ساتھ اور سب کاوکاس کیلئے پُر عزم ہے۔

مہمان ذی وقار ڈاکٹرشبانہ اعظمی ،شعبۂ عربی لکھنؤ یونیورسٹی نے کہاکہقرۃ العین حیدر کے افسانوں میں عورت احساس حزیمت، فریب خوردگی اور شکست خواب کی علامت ان کے افسانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے افسانو ں کا اصل موضوع زمان وتاریخ کے تناظر میں عورت کا مقدر ہے،جس کا مکمل نمونہ سیتاہرن میں ملتا ہے۔سیتاسے لیکر آج تک عورت مظلوم ہی رہی ،محبت اوروفا اس کی سرشت میں ہے اور وہ دھوکے کھاکر بھی اعتماد کا دامن نہیں چھوڑتی۔
مقالہ نگاران ڈاکٹرعشرت ناہید،ڈاکٹر نور فاطمہ،ڈاکٹرجاں نثارجلال پوری ڈاکٹر عزیزرضا،ڈاکٹر سیدمحمدمیاں زیدی،ڈاکٹر سید احمد میاں،محمدسعید اختر، شاہد حبیب، مولانا اشرف فردوسی ندویؔ، کمال الدین انصاری،دائود احمداورفیروز عباس نے اپنے مقالات میں کہا کہ قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری،ناولٹ اور ناول نگاری کا اجمالی جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اردو بلکہ ہندوستان کی تمام زبانوں کی ایسی فکشن نگار ہیں جن کی تخلیقات کو عالمی ادب کے روبرو رکھا جاسکتا ہے جو زندگی کی اصلی تصاویر ہیں اور زندگی کا حقیقی نقشہ پیش کرتی ہیں۔

دیگر مہمانان ومعززین میں ڈاکٹرخورشید جہاں،مولاناہارون رشید ندوی،انصار احمد،مولانا عبدالکریم ندوی،ضیاء اللہ صدیقی،انجینئر رحمن،محمدراشدخان،جہاں آرا سلیم ،سلمہ خاتون کے دیگر معززین شہر کثیر تعداد میں موجود تھے اور پروگرام بہت کامیاب رہا۔آخرمیں سوسائٹی کے منیجر انصاراحمدایدوکیٹ نے مہمانوں کا شکریہ اداکیا اور ساتھ ہی ساتھ اترپردیش اردواکیڈمی کا بھی شکریہ اداکیا۔