”عالمی یوم مادر ”کے عنوان سے چھوٹی کربلا میرٹھ میں تقریب منعقد

لکھنو: امام بارگاہ چھوٹی کربلا میرٹھ میں حضرت فاطمہ بنت رسالت مآب کے یوم پیدائش پر عالم یوم ما در کے عنوان سے قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس مین مقامی اور بیرونی مقالہ نگاروں نے حضرت فاطمہ زہرا کی حیات کے مختلف پہلوو ¿ں پر روشنی ڈالتے ہوئے دور حاضر میں سیرت سیدہ پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پروگرام کا تعارف پیش کرتے ہوئے آرگنائزر ڈاکٹر عفت ذکیہ نے بتایا کہ عہد حاضر میں بدلتی ہوئی تہذیبی اقدار اور مغربیت کے غلبہ کے زیر اثر ہماری ثقافت اور معاشرت میں روز بہ روزجو تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں ان کو دور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ معصومینؑ کی زندگیوں ،ان کی سیرت طبیہ اور اسوہ ¿ حسنہ کو معیار زندگی بنایا جائے لہٰذا اس ضرورت کے پیش نظر سال گزشتہ سے ہم نے حضرت فاطمہ زہرا کے جشن ولادت کے مو قع پر منقبت خوانی کے ساتھ ساتھ مقالہ نگاری کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ اور مدرسہ گلزار فاطمہ کا آغاز تلا وت کلام پاک سے ہوا جس میں منبہائے فاطمہ ، فقیہافاطمہ نے کی طرز حیات ‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے حضرت زہرا اور حضرت علیؑ کی ازدواجی زندگی سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کی اور کہاگیا جس طرح رسول اکرم کی بیٹی نے اپنے شوہر کے ساتھ خلوص و محبت سے زندگی گزاری وہ نوجوان نسل کے لیے نمونہ عمل ہے۔

ڈاکٹر عفت ذکیہ نے حجاب اسلامی اور مغربی ثقافتی یلغار کے عنوان سے اپنے مقالے میں مغرب کی تعفن زدہ زندگی کو تہذیب نہیں بلکہ وحشت کا نام دیتے ہوئے اس کے اسلامی تہذیب پر حاوی ہوجانے کے مضر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ مغربیت جسے ہم تہذیب کا نام دے کر اپنا رہے ہیں در اصل وہ تہذیب نہیں بلکہ وحشیت اور بر بریت ہے جو اسلامی تہذیب کو فنا اور تباہ رہی ہے۔ معاشرے میں پھیلی بے حیائی ، عریا نی ،بے حجابی اور پر اگندگی کو دور کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ہر مسلمان عورت سرور کا ئنات جناب فاطمہ زہرا کے کر دار کو نمونہ عمل بناتے ہوئے حیا، پاکیزگی اور حجاب کی حفاظت کرے۔ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہو گا جس مین مغرب کی بے حیائی اور آلو دگی نہ ہو تبھی ہم اسلامی اقدارکو پائمال ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

عندلیب زہرا نے اپنے مقالہ ”شادی کی نسبت سے نکاح تک کا سفر “ میں رسول اکرم کی حدیث ’شادی سے انسان کا نصف دین محفوظ ہو جاتا ہے ‘ کی روشنی مین آج کے دور میں بڑھتی ہوئی بدنظمی اور شادیوں میں بے وجہ تاخیر کو معاشرے کے لیے نا سور قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ آج کل کی شادیاں شریعت کے دائرے سے خا رج ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اس لیے شادی جیسا آسان کام مشکل ترین ہو گیا ہے جس کی وجہ سے سماج میں روز بزوز برائیاں پنپتی جا رہی ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی شادی کو سادگی اور آسانی کے ساتھ انجام دے۔
بجنور سے تشریف لائیں افشاں عباس نے ” دور حاضر میں خواتین کی حمایت ولایت اور نصرت امام وقت کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ کس بھی ہستی کی حامیت اور دفاع کرنے سے پہلے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس کے اغراض و مقا صد سے آگاہ ہوں۔ اس کے اہداف کو سمجھیں ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کے دشمن کو سازش سے بھی بخوبی آگاہ ہوں۔ شہزادی کو نین حضرت زہرا نے انہیں اصولوں پرعمل کرتے ہوئے اپنے خطبوں کو ہتھیار بنایا تھا۔ لہٰذا اد ورحاضر کی خواتین کو بھی انہیں اصولوں پر عمل کرنا چاہئے۔ اپنے وقت کے امام کے اغراض و مقا صد کو نظر میں رکھتے ہوئے نیز دشمن کی سازش اور چال کو سمجھ کر ولایت کی حمایت کرنی چاہئے کسی بھی حال میں ولایت ہم سے ساقط نہیں عورت کا ہتھیار تلوار نہیں بلکہ اس کا ہتھیار امن کا حجاب ہے۔ ہمیں حجاب کو اپناہتھیار بنانا چاہتے ہے۔ مقالات کے علا وہ حضرت زہرا کی شان میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کرنے والوں میں کنیز زہرا ، شبنم فاطمہ۔سدرہ ، شازیہ اور رقیہ رضوی وغیرہ شامل تھیں۔

پر وگرام کی نظامت شازیہ حسن نے انجام دی۔ آخر میں کو ئز میں بچیوں سے حضرت فاطمہ زہرا کی حیات اور سیرت پاک کے حوالے سے سوالات دریافت کیے گئے۔ شعبہ اردو اسماعیل مہیلا پی جی کالج کی صدر محترمہ شمیم زہرا نے پر وگرام کی صدارت کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں حضرت فاطمہ زہرا کی فضیلت بیان کرنے کے ساتھ پر وگرام اور چاروں مقالات پر اظہار خیال بھی کیا۔ آخری میں ’عالمی یوم مادر ‘کی مناسبت سے پر وگرام میں موجود لڑکیوں نے اپنی اپنی ماو ¿ں کو یوم ما در پر تحائف پیش کیے۔ پر وگرام میں کثیر تعداد میں خواتین اور بچیاں موجود تھیں۔