ادارہ شعرو ادب کی شعری نشست منعقد

لکھنو: ۔شعر ی ادب کی آبیاری کے لیے استادوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو شاعری کے رموز و نکات اور باریکیوں سے واقف کرائیں اور نشستوں میں شرکت کے لیے انہیں آمادہ کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ظاہر ہے کہ نئی نسل اسی وقت آگئے بڑھے گی جب ان کے کلام میں پختگی آئے گی ۔اس طرح کی نشستیں اردو کی ترویج کے لیے بہتر ماحول تیار کرنے میں معاون ثابت ہوتی رہی ہیں۔

ماہ نامہ نیا دور کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کل یہاں ادارہ شعر و ادب کی جانب سے بر مکان جناب عرفان زنگی پوری ،کاظمین میں منعقد ایک طرحی نشست کے دوران بطور مہمان خصوصی کیا۔انہوں نے کہا کہ شعراءکرام کو اردو زبان ادب کی ترقی کے لیے آگئے آنا چاہئے اورادبی فضاءبرقرار رکھنے میں پیش پیش رہنا چاہئے تاکہ گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ زبان اردو کی اہمیت وسیع طور پر اجاگر ہو سکے۔

شعری نشست کی صدارت کرتے ہوئے جناب تجسس اعجازی نے اپنے خطاب میں اچھی شاعری کے اوصاف بیان کرتے ہوئے مطالعہ کی اہمیت پر زور دیا۔نشست میں فخرالدین علی احمد کمیٹی کے سابق چیرمین جناب نہال رضوی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔نظامت کے فرائض جناب خورشید فتح پوری نے انجام دئےے۔
طرحی نشست میں درج ذیل مصرع ”نفر ت کی آگ سے کوئی دامن بچا بھی ہے“پرطبع ازمائی کی گئی۔نشست کے دوران پیش کیے گئے منتخب اشعار اس طرح ہیں۔

مشق ستم پہ ناز نہ کر اے جفا شعار

تجھ کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

لکھا ہوا ہے شعر جو قرطاس وقت پر

سنیے تو یہ شکستہ دلوں کی صدا بھی ہے

تجسس اعجازی

جو دور ہے وہی نہیں لگتا ہے مجھ کو دور

جو پاس ہے اسی سے میرا فاصلہ بھی ہے

نہال رضوی

مانا محبتوں سے ہے کل رونق حیات

مقصود زندگی میرا اس کے سوا بھی ہے

ڈاکٹر محمود محمدآبادی

رسی دراز ہے ابھی ظالم تری مگر

کیا ظلم کا شجر کبھی پھولا پھلابھی ہے

ڈاکٹر شیدا اعظمی

ہم زندگی کا درد بتائیں کسے یہاں

کیسے گزر رہی ہے کوئی پوچھتا بھی ہے

یونس رحمانی الہ آبادی

کب تک نہیں چراغ جلائیں یہ سوچ کر

موسم ہے آندھیوں کا مخالف ہوا بھی ہے

حسن فراز

اس دور میں جیئں تو بھلا کس طرح جیئں

پانی میں زہر ہے تو مکدر ہوا بھی ہے

خورشید رضافتح پوری

زد پر ہوا کی ننہا سا روشن دیا بھی ہے

لیکن وہ تیرگی سے نبر د آزما بھی ہے

ڈاکٹرمخمور کاکوروی

خوشیوں کے ساتھ درد کا اک سلسلہ بھی ہے

یعنی کہ زندگی میں مرض بھی دوا بھی ہے

عرفان زنگی پوری

ہم کیا کریں گے تخت نشینوں سے دوستی

ہم نے کبھی ضمیر کا سودا کیا بھی ہے

فرید مصطفےٰ

خاروں سے کس طرح کروں شکوہ حیات کا

اکثر ہمارا ہاتھ گلوں سے جلا بھی ہے

سلمان کلاں پوری

کہتا ہوا جہاں سے سکندر گزر گیا

یہ مال و زر جہاں میں کسی کا ہوا بھی ہے

رضا لکھنو ی

میں تو فریب کھا کے بھی کرتا ہوں اعتبار

کیا کوئی میرے جیسا یہاں دوسرا بھی ہے

معید رہبر

انکار کر رہے ہو جو اس کے وجو دسے

کیا دوسرا نگاہ میں کوئی خدا بھی ہے

اسریٰ بھیک پوری