سن شائن ویلفیئرسوسائٹی لکھنؤ کے زیر اہتمام مولانا عبدالماجددریابادی پرسیمینارکا انعقاد

لکھنؤ6: مولاناعبدالماجد دریابادی کی شخصیت اتنی ہشت پہلو ہے کہ ان پر کوئی ایک لیبل چسپاں کرنا ممکن نہیں ہے۔یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ محض ایک صحافی تھے یا محض ایک انشاء پرداز،یاصرف ایک ادیب یا محض ایک مفسر قرآن تھے۔ انہوں نے مختلف پہلوئوں سے اردو زبان وادب کے اتنے گراں بہا خدمات انجام دئیے جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔مذکورہ خیالات کا اظہارپدم شری پروفیسرآصفہ زمانی چیئر پرسن اترپردیش اردو اکیڈمی نے سن شائن ویلفیئرسوسائٹی لکھنؤ کے زیر اہتمام بہ اشتراک اترپردیش اردو اکیڈمی کے ذریعہ منعقد یک روزہ سمینار’’مولانا عبدالماجد دریابادی بحیثیت ادیب وناقد‘‘ میں صدارت کرتے ہوئے کیا۔مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر صابرہ حبیب ،ڈاکٹر صبیحہ انوراورمہمان اعزازی کے طورپر عائشہ صدیقی،اورسلمہ حجاب نے شرکت فرمائی۔نظامت کے ادائیگی اردواکیڈمی کے ملازم عقیل احمدفاروقی نے کی۔

مہمانان خصوصی پروفیسر صابرہ حبیب اورڈاکٹر صبیحہ انور نے کہااپنے ابتدائی دور میںمولانا عبدالماجددریا بادی نے شاعری بھی کی اور ڈرامہ بھی لکھا۔اس طرح ان کا رشتہ تخلیقی ادب یا ادب لطیف سے بھی جڑ جاتا ہے۔ انہوں نے علمی مضامین کے علاوہ فلسفہ، نفسیات، تاریخ،منطق، مذہب،کلچر اور تصوف پر بھی بہت کچھ لکھا۔

مہمانا ن اعزازی عائشہ صدیقی،اورسلمہ حجاب نے کہاکہ مولانا عبدالماجدنے سوانح اور سفرنامے بھی لکھے،منفرد انداز میں تفسیر قرآن لکھی۔مختلف موضوعات کی انگریزی کتابوں کے ترجمے اردو میں کئے۔قرآن مجیدکاترجمہ انگریزی میں کیا،جو ایک ایساکارنامہ جسے کوئی معمولی استعداد رکھنے والا شخص انجام نہیں دے سکتا۔اس کے ساتھ ہی صحافت سے بھی اٹوٹ رشتہ قائم رہا جو ان کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوا۔وہ کوئی پیشہ ور صحافی نہیں تھے بلکہ اس میدان میں بھی ایک اصلاحی مقصد ہمیشہ ان کے ہم قدم رہا۔

سمینار میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے ضیاء اللہ صدیقی ندویؔ نے کہا جید عالم دین، بے مثل ادیب، مرثیہ نگار، آب بیتی نگار، عظیم کالم نویس، صحافی، مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی ایک ایسے نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے جس موضوع پر قلم اْٹھایا حق ادا کردیا۔ مولانا دریا بادی جیسی عظیم شخصیات بہت کم پیدا ہوتی ہیں جن کے قلم کا اعتراف پورے برصغیر نے کیا۔ ان کے ہفتہ وار کالم ’’سچی باتیں‘‘ جو ان کے ہفتہ وار اخبار ’’سچ‘‘ 1925 ء سے لے کر 1974 ء تک اورہفتہ وار صدق جدید کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا تھا کہ ِادھر یہ کالم مولانا کے اخبار میں شائع ہوا اْدھر یہ کالم ہندوستان، پاکستان کے تمام بڑے اخبارات نقل کرکے اپنے قارئین تک جلد از جلد پہونچانے میں باقاعدہ مقابلہ کرتے نظر آتے تھے۔

سمینار میںمولاناعبدالماجد دریابادی کے پرنواسے مولانا نعیم الرحمن ،صحافی غفران نسیم،ضیاء اللہ صدیقی ،ڈاکٹر عشرت ناہید،ڈاکٹر سیما صدیقی،سعدیہ شارق،مخمورکاکوروی نے بھی اپنے قیمتی مقالات میں مولانا کے اوصاف وکمالات کا بخوبی احاطہ کیا۔سمینار کی نظامت عقیل احمدفاروقی نے کی اورعذرازہرہ نے نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا۔

اس موقع پرغزالہ انور،قمر سیتاپوری عبدالسلام صدیقی،شہناز آراخان،دانش خان،محمدذیشان کان،معاذ اختر احسن،ارشاد خان،فرزانہ اعجاز،گوہر ناہید،ڈاکٹرمسیح الدین خان،خالدسیف اللہ صدیقی وغیرہ خاص طور پر موجود تھے۔آخرمیں شکریہ سوسائٹی کی سیکریٹری شان اسلام نے اداکیا اور ساتھ ہی جلسہ کے اختتام کا اعلان بھی کیا۔