نئی دہلی: آج صبح پونے گیارہ بجے سپریم کورٹ میں جب بابری مسجد ملکیت مقدمہ پیش ہوا تو جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء پیروی کیلئے عدالت میں موجودتھے ، اس سے قبل کے کسی طرح کی کارروائی عمل میں آتی چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس کشن کول پر مشتمل بینچ نے یہ کہہ کر سماعت 10؍ جنوری تک کے لئے ملتوی کردی کہ اس کے لئے وہ ایک موزوں بینچ تشکیل دیگی اور اب وہی اس بات کا فیصلہ کریگی کہ مقدمہ کی آئندہ سماعت کا لائحہ عمل کیا ہو، قابل ذکر ہے کہ مقدمہ کی فریق اول جمعیۃ علماء ہند کے لیڈ میٹر سول سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 (محمد صدیق جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء اتر پردیش )کی طرف سے مسلمانوں کا موقف رکھنے کے لئے آج سینئرایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون سینئرایڈوکیٹ راجو رام چندرن، سینئرایڈوکیٹ ورندہ گروور،ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول د دیگر پیش ہوئے جبکہ فریق مخالف کی جانب سے ہریش سالوے ، ویدیاناتھن اور اتر پردیش حکومت کی جانب سے اے جی تشار مہتا و دیگر موجود تھے ،لیکن عدالت نے کسی بھی فریق کو سنے بغیر ہی اپنا فیصلہ صادر کردیا کہ اس معاملے کی سماعت 10؍ جنوری کو ہوگی اور اس درمیان مناسب بینچ اگلی کارروائی کے لیئے لائحہ عمل تیار کریگی۔حالانکہ چیف جسٹس آف انڈیا نے موزوں بینچ کے تعلق سے صاف صاف کچھ نہیں کہا کیونکہ تیس سیکنڈ کے اندر ہی معاملے کی سماعت ملتوی کیئے جانے کا ااعلان کردیا لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے چیف جسٹس آف انڈیا کے فیصلہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 10؍ جنوری سے قبل چیف جسٹس آف انڈیا ایک سہ رکنی بینچ کا تعین کردیں گے ۔اسی درمیان رام جنم بھومی بابری مسجد معاملے کی جلدا زجلد یومیہ سماعت سے متعلق مفاد عامہ کی ایک عرضداشت بھی عدالت نے مستردکردی اور کہا کہ معاملہ کی سماعت کو لیکر وہ گزشتہ 29؍اکتوبر کوہی اپنافیصلہ سناچکی ہے۔
صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے آج کی پیش رفت کے حوالہ سے کہا کہ ہمارے وکلاء کو پوری تیاری کے ساتھ گئے تھے مگر جس طرح فاضل عدالت نے کسی موزوں بینچ کی تشکیل کی بات کہی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب اس معامعلہ کی سماعت ایک نئی بینچ کریگی ،انہوں نے کہا کہ فاضل عدالت کو اس کامکمل اختیارہے کہ وہ مقدمہ کو جس بینچ کے حوالہ کرنا چاہے کرسکتی ہے ، چنانچہ اب 10؍ جنوری کو ہی اس بات کا خلاصہ ممکن ہے کہ آئندہ سماعت کی نوعیت کیا ہوگی ، مولانامدنی نے کہا کہ عدالت نے روزانہ سماعت کولیکر دائر ایک عرضی بھی مستردکردی ہے اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ عدالت عجلت میں کوئی فیصلہ صادرنہیں کرنا چاہتی کیونکہ وہ اس کی حساسیت سے آگاہ ہے ،اس لئے اس کے تمام پہلووں کا باریکی سے جائزہ لینا چاہتی ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وکلاء تمام شواہد دستاویزات کی شکل میں عدالت میں پیش کرچکے ہیں جن کی تعدادہزاروں میں ہے ، ان میں تراجم کے ساتھ ساتھ گواہوں کے بیانات اور محکمہ آثارقدیمہ کی رپورٹ بھی شامل ہیں، اور ان سب کی تفصیل کئی ہزارصفحات پر پھیلی ہوئی ہے ، چنانچہ کوئی فیصلہ دینے سے قبل فاضل جج صاحبان ان دستاویزات کا باریک بینی سے یقیناًمطالعہ فرمائیں گے اور اس میں اچھا خاصاوقت صرف ہوگا ، مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ہماری طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہورہی ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ مقدمہ کا فیصلہ جلد ازجلد آئے ، دوسرے ہم ابتداسے یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ ہم عدلیہ پر اعتمادہی نہیں کرتے بلکہ اس کا پورا احترام کرتے ہیں اس لئے سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے تسلیم کرنے کے لئے تیارہیں ۔