چارمسلمان دہشت گردی کے الزامات سے باعزت بر ی ، اتر پردیش حکومت کو منہ کی کھانی پڑی

نئی دہلی : سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج یہاں چار مسلم نوجوانوں کو بڑی راحت دیتے ہوئے انہیں دہشت گردی جیسے سنگین الزامات سے باعزت بری کردیا۔یہ اطلاع آج یہاں چار ملزمین سے تین ملزمین واصف حیدر،ممتاز مختار احمد اور شفت رسول کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی ) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی جبکہ ایک ملزم حاجی عتیق احمد کے مقدمہ کی پیروی اے پی سی آر تنظیم نے کی۔گلزار اعظمی کے مطابق سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس این وی رمنا اور جسٹس موہن شانتانوگودرا نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ملزمین کو باعزت بری کیئے جانے والے فیصلہ کے خلاف حکومت اترپردیش کی جانب سے داخل اپیل پر سماعت کرنے کے بعد اسے خارج کردیا ، جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کامنی جیسوال، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ارشاد حنیف اور ان کے معاونین ایڈوکیٹ عارف علی اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے پیروی کی۔دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں انہیں ایسی کوئی بھی خامی نظر نہیں آتی جس پر نظر ثانی اور فیصلہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، تفصیلی فیصلہ جلد ہی ملزمین اور وکلاء کو مہیا کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ 16؍ مارچ 2001ء کو کانپور میں فساد برپا کرنے اور پولس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزامات کے تحت تحقیقاتی ایجنسی نے ملزمین واصف حیدر،ممتاز مختار احمد،حاجی عتیق حاجی رشید احمد اور شفت رسول کو تعزیرات ہند کی دفعات 302,307,395,147,149,427,436,153-Aکے تحت مقدمہ قائم کیا تھا نیز ملزمین کے قبضہ سے بندوق اور دیگر ممنوعہ ہتھیار ضبط کرنے کا بھی دعو ی کیاتھا جس سے انہوں نے پولس افسر ایس پی پاٹھک کا قتل کیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ کانپور میں قرآن شریف کو جلانے کے خلاف احتجاج کے دوران فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا جس میں دونوں فرقوں کی جانب سے 18؍ لوگ ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔چارج فریم ہونے کے بعد نچلی عدالت میں ملزمین کے مقدمات کی سماعت چلی جہاں انہیں22؍ جنوری 2004ء کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن نچلی عدالت کے فیصلہ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے 29؍ مئی 2009 کو تبدیل کرتے ہوئے ملزمین کو باعزت بری کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کھلے دل سے استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے نے ایک بار پھر ہماری اس بات کی تصدیق کردی کہ کس طرح قانون اور انصاف کی اعلیٰ قدروں کو پامال کرتے ہوئے کہانیاں گھڑ کر مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی سازشیں ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے باربار حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ اس خطرناک سازش کا پردہ چاک کرنے اور بے گناہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے لئے اس طرح کے معاملوں کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تفتیش کرائی جانی چاہیے اور جو افسران اس سازش میں ملوث پائے جائیں انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔متأثرین کے لئے معاوضے اور بازآبادکاری کا نظم ہومگر افسوس صد افسوس ہمارے اس مطالبے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔مولانا مدنی نے مزید کہا کہ جو نوجوان اس سازش کا شکار بنائے جاتے ہیں انہیں جب تک انصاف ملتا ہے ان کی زندگیاں تباہ ہو چکی ہوتی ہیں، اور یہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور ظلم ہے کہ کسی بے گناہ پر محض ایک الزام لگا کر اس کی پوری زندگی تباہ کردی جائے اور حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔انہوں نے اس امر پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ اس طرح کے معاملوں میں جب کوئی گرفتاری ہوتی ہے تو ملک کا میڈیا کسی ثبوت کے بغیر اسے خطرناک دہشت گرد بناکر عوام کے سامنے پیش کرتا ہے اور گرفتاری کرنے والے افسران کی خوب خوب قصیدہ خوانی کی جاتی ہے مگر جب اس گرفتاری کا جھوٹ عدالتوں میں بے نقاب ہوتا ہے اور بے گناہوں کو باعزت رہائی ملتی ہے تو میڈیا اس کی ایک لائن کی خبر تک نہیں دکھا تا۔انہوں نے کہا کہ کیا یہ امتیاز اور تعصب کی بدترین مثال نہیں ہے؟ اس معاملے میں بھی پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کا تعصب اپنی گھناؤنی شکل میں نمودار ہوا ہے اور بے گناہوں کو انصاف ملا۔مولانا مدنی نے آخر میں کہا کہ جمعیۃ علماء ہند بے گناہوں کو انصاف دلانے کے لئے اپنی قانونی امدادی مہم اسی طرح جاری رکھے گی۔

واضح ہو کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے ملزمین کو بڑی راحت مل گئی تھی اور وہ دس برس کی جیل کے صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد جیل سے رہا ہوئے تھے لیکن ان کے مقدمہ سے باعزت بری ہونے کے چند ماہ بعد ہی ریاستی حکومت نے ان کی رہائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جہاں مقدمہ کی سماعت تقریباً آٹھ سال تک چلتی رہی اور آج بالآخیرملک کی سب سے بڑی عدالت سے ان بے گناہوں کو انصاف حاصل ہوا۔
فضل الرحمٰن قاسمی