پٹنہ: نومبرکوآل انڈیا مسلم بیداری کارواں کی 7 رکنی وفد کی سیتامڑھی فسادزدگان سے ملاقات اور سروے کے بعد تفصیلی رپورٹ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو سونپی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں پولیس انتظامیہ کی جانبداری پر کئی سوال کھڑے کئے گئے ہیں۔ بیداری کارواں کے قومی صدر نظرعالم نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر 19 اکتوبر کو ہی پولیس انتظامیہ مستعدی کا مظاہرہ کرتی تو اس معاملہ پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ رپورٹ میں آگے کہا گیاہیکہ یہ تنازع مدھوبن گاؤں سے شروع ہوا جہاں سے ایس پی کے دفتر کی دوری محض 5سے 7 منٹ کی ہے لیکن پولیس کو مدھوبن پہنچنے میں 42 منٹ لگ گئے۔ اور الٹا اقلیتی طبقہ پرہی پولیس نے دباؤ بنانا شروع کردیا جب کہ اکثریتی فرقہ کو شرارت کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔اسی کا فائدہ اٹھاکر دنگائیوں نے اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو جان سے مارا ، دکانیں جلائی، جانوراور زیورات لوٹ لے گئے، گھروں کو نذرآتش کیا، گیریج اور گاڑیوں کو کثیرتعداد میں آگ کے حوالے کردیا، کاروباریوں کو دکانیں چھوڑ بھاگنے پر مجبور کیا گیا، مسجد کے شٹرپر لاٹھیاں برسائی گئیں، پاکستانیوں کو جلاکر راکھ کردوں گا جیسے اناپ شناپ نعرے اور گالیاں بکی گئیں ۔ آج کی تاریخ میں بھی کثیرتعداد میں جانور کے کاروباری ڈر کے مارے پنورا بازار نہیں جاپارہے ہیں۔بیداری کارواں نے اس رپورٹ میں کہا کہ یہ فساد منصوبہ بند تھا جس میں بی جے پی کے سابق ایم ایل اے پنٹو پرشانت کافی سرگرم تھے۔ نظرعالم نے بتایا کہ مدھوبن کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ ایس پی اگر چاہتے تو 20اکتوبر کو مدھوبن گاؤں فساد کی زد میں نہیں آتا کیوں کہ 19 اکتوبر کو ہی مورتی لے جانے کو لیکر جو انتظامیہ کی جانب سے طے راستہ تھا اس سے دوسرے فرقے کے لوگ مورتی نہیں لے جاکر اقلیتی طبقہ کی جانب سے جبراً لے جانے کی کوشش کرنے لگے تھے جس کو لیکر تناؤ پیدا ہوگیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ واقعہ سے 10 دن قبل ہی یہاں بھاجپا کے سینئر لیڈر سشیل کمار مودی کا بھی اسی علاقہ میں دورہ ہوا تھا۔ اپنے رپورٹ میں بیداری کارواں کے صدرنظرعالم نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ پولیس انتظامیہ مخصوص پارٹی اور فکر کے لئے کام کرتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے پولیس انتظامیہ کو اس لئے مشکوک قرار دیا ہے کہ 3ہفتہ کے بعد بھی فساد کے اہم ملزمین کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ کارواں نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ اقلیتی طبقہ کے لوگ آج بھی خوفزدہ ہیں اور رات کو اپنا گھر چھوڑ دوسری جگہ رہنے پر مجبور ہیں۔ 20 اکتوبر سے ہی مدھوبن گاؤں کے بچے دہشت کی وجہ کر اسکول نہیں جارہے ہیں۔پنورا سے گؤشالہ جانے والی گاڑیوں سے اقلیتی طبقہ کو اتار کر مارا پیٹا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقلیتی طبقہ کی پولیس انتظامیہ نے درخواست تک قبول نہیں کی ہے اور اگر ایک دو کا قبول کیا بھی ہے تو اس میں مناسب دفعہ نہیں لگائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فساد کے اہم ملزمین کھل عام گھوم رہے ہیں اور بھاجپا کے سابق ایم ایل اے ایس پی سے لگاتار ساٹھ گانٹھ بنائے ہوئے ہیں۔ کارواں نے اپنی رپورٹ میں ایسے 8 افراد کی لسٹ شامل کی ہے جن کو بے قصور جیل میں ڈال دیا گیا ہے جب کہ ان 13 متاثرین کی تفصیلاب بھی پیش کی گئی ہیں جن کے گھر، دوکان اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ رپورٹ میں اقلیتی طبقہ کے نقصانات کی جو لسٹ ہے اس سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ فسادیوں نے بہت ہی منصوبہ بند طریقے سے اس معاملے کو پولیس انتظامیہ کی ملی بھگت سے انجام دیا ہے اور اقلیتی طبقہ کو دہشت میں جینے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ مسٹرنظرعالم نے مزید آگے کہا ہے کہ حکومت کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ جس علاقے میں فساد ہوگا اس کے ذمہ دار وہاں کے ایس پی اور ڈی ایم ہوں گے اور ان پر حکومت کی جانب سے کارروائی کی جائے گی لیکن ایسا کہیں سے ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ نہ تو ایس پی پر کوئی کارروائی اب تک ہوئی ہے اور نہ ہی ضلع کلکٹر پر۔ اس سے صاف ہوگیا کہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کا اعلان بھی ہوا ہوائی تھا۔نمائندہ سے گفتگو میں نظرعالم نے بتایا کہ حکومت کے مکھیا نتیش کمار کو اقلیتی طبقہ پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے فساد پرآج بھی اقلیتی طبقہ اُمید لگائے بیٹھی ہے کہ سیتامڑھی اور بہار کے دیگر ضلعوں میں پچھلے دنوں ہوئے فساد میں جو اقلیتی طبقہ کو نقصان پہنچا ہے اس کے ساتھ انصاف ہوگا ، اُنہیں نتیش کے رہتے انصاف ملے گا۔ اس لئے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقلیتی طبقہ کے اس امید کو برقرار رکھیں اور فسادمتاثرین کو مناسب معاوضہ کے ساتھ ساتھ ایس پی، ڈی ایم اور فساد میں شامل سبھی ملزمین پر قانونی کارروائی کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں میں ڈالے۔ اگر حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہے تو تحریک کا آغاز کیا جائے گا جس کا نقصان 2019-20 کے انتخاب میں نام نہاد سیکولرپارٹیوں اور اقتدار پر بیٹھی پارٹی کو اٹھانا پڑے گا۔مذکورہ وفد میں کارواں کے قومی صدرنظرعالم کے ساتھ قاری سلطان اختر، محمدصفی الرحمن راعین (ایڈوکیٹ)، نائب مقصودعالم پپو خان، مولانا مہدی رضا روشن القادر، مولانا غلام حقانی اور وجئے کمار شامل تھے۔