عادل فراز

ہندوستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال روز بروز انحطاط پزیر ہے ۔یرقانی تنظیموں کی زہریلی سیاست نے ملک کی پر امن فضا کو مکدر کردیاہے ۔مندرمسجد اور ہندو مسلمان کے نام پر ہورہی سیاست نے ملک کو خانہ جنگی کےدہانے پر لاکھڑا کیاہے ۔آج جس طرح را م مندر کی تعمیر کا مطالبہ کیا جارہاہے وہ ملک کو تباہی اور خانہ جنگی کی طرف لے جارہاہے ۔سیاسی و مذہبی رہنما قانون کی بالادستی کا تمسخر کرتے ہوئے اقلیتوں کو دھمکاکر مندر کی تعمیر کے لئے کوشاں ہیں۔سادھو سنت جو امن و شانتی کا پرتیک ‘کہےجاتے تھے ،زعفرانی سیاست کا شکار ہوکرنفرت اور بدامنی کی دعوت دے رہے ہیں۔رام مندر اور بابری مسجد کی تعمیر انسانی لاشوں کے ڈھیر پر کی جائے یہ بات نہ اللہ کو پسند ہے اور نہ ’بھگوان رام‘ ایسی منافرانہ فکروں کے حامی ہوسکتے ہیں۔تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو مندر اور مسجد کے نام پر ملک کے عوام کو مشتعل کررہے ہیں۔کہیں یہ وہی لوگ تو نہیں ہیں جو ہندوستان کی آزادی کے حامی نہیں تھے ۔جو لوگ آزادی کے بعد تقسیم کے ذمہ دار ٹہرے ۔تقسیم کے بعد بھی جب وہ اپنی آرزوئوں تک نہیں پہونچ سکے تو انہوں نے ’شانتی کے دوت‘مہاتما گاندھی کا قتل کردیا۔آج وہی قاتل ہندوستان میں ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کا سیاسی نعرہ بلند کررہے ہیںکیونکہ یہ لوگ انگریزوں کی سیاست کے وارث ہیں اور ان کے فکری ڈانڈے ایسٹ انڈیا کمپنی سے جاکر ملتے ہیں۔

آزادی کے بعد سے لیکر اب تک یرقانی تنظیمیں مسلسل اس تگ و دو میں تھیں کہ کسی طرح ہندوستان کے اقتدار پر ان کا تسلط ہوجائے تاکہ وہ اپنے منصوبوں کو عملی شکل دے سکیں ۔اس کے لئے انہوں نے جی توڑ محنت کی ،کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد وطن اور قوم کی خدمت کرنانہیں تھا بلکہ وہ اس بے عزتی کا انتقام لینا چاہتے تھے جس کا ذمہ دار وہ ملک کی سیکولر فکر،یکجہتی اور قومی اتحاد کو تصور کرتے تھے جبکہ ان کی رسوائی انکی اپنی بداعمالیوں کی مرہون منت تھی مگر اسکے باوجود انہوں نے اس کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑدیا۔ان لوگوں نے ہندوستان کی آزادی میں رتّی بھر حصہ نہیں لیا بلکہ گاندھی جی اور ہندوستانی انقلابیوں کے خلاف انگریزوں کی حمایت میں کھڑے ہوئے تھے اور بعض جاسوسی میں بھی ملوث تھے ۔مگر تقسیم ہند کے بعد جب وہ اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے میں ناکام رہے تو وہ نئے لائحہ ٔ عمل کے ساتھ میدان میں کود پڑے۔پورے ملک میں اپنی ذیلی شاخیں قائم کیں جن میں سیکولرازم،یکجہتی اور قومی اتحاد کے خلاف نوجوانوں کو گمراہ کن لٹریچر پڑھایا گیا ۔ہندوستان کی تاریخ کو اپنے مؤرخین کے ذریعہ دوبارہ لکھوانے کی تحریک شروع کی تاکہ مسلمانوں کو غاصب اور لٹیرا ثابت کیا جاسکے۔انہی ذیلی اداروں کے اراکین کو اپنے والنٹیرز کی حیثیت سے میدان سیاست میں دخیل کیا اور آج وہ اہم عہدوں پر مسلط ہیں۔تقریباَ ستّر سالوں تک ملک کے ہر اہم ادارے اور بڑے عہدہ پر اپنے افراد کو معین کرنے کے لئے جدوجہد کی تاکہ انکے منصوبوں کو پایہ ٔ تکمیل تک پہونچنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔یہ اعلیٰ افسران انہی ذیلی تنظیموں کے کارکن ہیں جنہیں ’ہندتوو‘ کے ایجنڈہ کے تحت اسکالرشپ فراہم کی گئی اورسرکاری مسند تک رسائی حاصل کرنے میں ہر ممکن تعاون دیا گیا۔آج بھی انہی ذیلی و ضمنی اداروں کےرکن والنٹیرز انتخابات کے دنوں میں گھر گھر جاکر اپنے امیدوار کے لئے ووٹ مانگتے ہیں اور اسکی تشہیر میں ہر طرح کی مدد کرتے ہیں ۔یہی اراکین گلی محلوں میں جاکر چھوٹی چھوٹی نشستوں کا انعقاد کرکے ہندوئوں کو ملک کے دوسرے باشندوں کے خلاف اکساتے ہیں اور ’ہندتوو‘ کے جعلی ایجنڈے پر انہیں متحد کرنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔آج ہر ہندواکثریتی علاقہ میں انکے دفاتر موجود ہیں جو علاقائی سطح پر زعفرانی ایجنڈہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ۔یہ لوگ بھی اپنے آقائوں کی طرح’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کے فلسفہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ملک کے اقلیتی طبقے سے نفرت اور انکے خلاف لوگوں کے دلوں میں زہر گھولنا انکی ترجیحات میں شامل ہے ۔انہی لوگوں کی بنیاد پر آج ہندوستان کی اونچی ذاتیں ،نیچی ذات والوں کے خلاف متحد ہیں اور دلتوں کو اپنے پائوں کی جوتی کے برابر سمجھتی ہیں۔تعجب ہوتاہے کہ تقریباَ ستّر سالوں تک یہ تنظیمیں ملک کے مختلف حصوں میں نفرت کی کھیتی کرتی رہیں اور ہمارے ملک کی انٹلیجنس اور حکومتی ایجنسیاں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ان کا تخریبی اور مفسدانہ لٹریچر نوجوان نسل کو گمراہ کرتا رہا اور سرکاریں چپ چاپ یہ تماشا دیکھتی رہیں۔آج راہل گاندھی ان لوگوں کے خلاف کتنی بھی محاذ آرائی کرلیں مگر انہیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان لوگوں کی رسیّاں ڈھیلی کرنے میں کانگریس کا ہاتھ تھا ،اگر ایسا نہ ہوتا تو آج یہ لوگ ملک پر مسلط نہ ہوتے ۔

سبرامنیم سوامی جو گاہے بہ گاہے سنگھ پریوار کے خفیہ ایجنڈوں اور مخفی حکمت عملی کو فاش کرتے رہتے ہیں،نے حال ہی میںایک ہندی سوشل ویب سایٹ ’دی کوئنٹ‘ کو ایک انٹرویو دیا ہے جس میں وہ ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کے بعض منصوبوں کو بیان کررہے ہیں۔یہ پہلی بارنہیں ہے کہ جب سبرامنیم سوامی اپنے ایجنڈہ کا برملا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے بلکہ کئ بار انہوں نے اس زہریلی فکر کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے اور ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بننے کا ناٹک کرتے رہے ہیں۔انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہاہے کہ’’ ابھی تک ہندوئوں کو ذات،طبقہ اور دیگر بنیادوں پر تقسیم کیا جارہا تھا اور اب ہماری پالیسی یہ ہے کہ مسلم خواتین کو تین طلاق کے معاملہ پر الگ کردیا جائے ،شیعوں اوربوہروں کو بانٹ دیا جائے ۔ سنّی مسلمانوں خصوصاَ وہابی سنیوں کو الگ کردیا جائے ۔اس سے ایک بار پھر ہم انتخابات میں کامیاب ہوجائیں گے ‘‘۔ اس بیان کے بعد بھی کیا مسلم قیادت اورعوام یہ سمجھنےسےمعذور ہے کہ وزیر اعظم ماہ محرم الحرام میں بوہرہ مسلمانوں کی منعقد کردہ مجلس میں کیوں شریک ہوئے تھے۔اس شرکت کے کئی دیگر سیاسی اہداف بھی رہے ہونگے مگر اس شرکت کو مودی کی ’’شیعہ پرستی‘‘ پر محمول کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ۔اگر انہیں شیعہ مسلمانوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو مسلم قیادت یہ واضح کرے کہ انہوں نے شیعہ برادری کو عام مسلمانوں سے ہٹ کر کونسے حقوق اور مراعات دی ہیں۔وہیں مسلمان خواتین کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ موجودہ حکومت ان کے حقوق کے تئیں قطعی سنجیدہ نہیں ہے بلکہ وہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے ایجنڈہ کے تحت اس مسئلہ کو اٹھارہی ہے ۔یقیناَ تین طلاق اور حلالہ کے غیر شرعی عمل نے مسلم خواتین کو بہت نقصان پہونچایاہے مگر اس مسئلہ کا حل شرعی دائرہ میں رہ کر بھی ممکن تھا لہذا موجودہ یرقانی سیاست کی مصلحت پرستی کو سمجھیں اور اپنے اداروں اور علماء سے رجوع کرکے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا مطالبہ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔جو سیاست اپنے لوگوں کے حقوق کے لئے سنجیدہ نہیں ہے وہ ہمارے حقوق کے لئے کیا سنجیدہ ہوگی ۔

سبرامنیم سوامی کے بیان سے واضح ہوتاہے کہ کس طرح شیعوں کو سنیوں کےمقابلے میں لاکر کھڑا کردیا گیاہے ۔سنیوں میں بھی صوفیوں اور وہابیوں کو بانٹنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔صوفی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں ہمارے علاوہ کسی نے پیغام اسلام کی ترویج و تبلیغ نہیں کی جبکہ انہیں اس خیال خام میں سنگھ پریوار نے ہی مبتلا کررکھا ہے تاکہ اپنے مقصد کو آسانی سے حاصل کرسکیں۔صوفیوں کو سمجھنا چاہئے کہ اسلام انتشار و اختلاف کا مذہب نہیں ہے بلکہ امن و سلامتی کا دعویدار ہے لہذا پہلی فرصت میں اگروہ اسی فلسفہ پر عمل پیرا ہیں جس کی تبلیغ ان کے مشائخ اور خواجہ حضرات نے کی ہے،اطاعت کرتے ہوئے آپسی اختلافات کو ختم کرکے زعفرانی سیاست کو ناکارہ بنانے میں اہم کردار اداکریں۔سبرامنیم سوامی نے واضح الفاظ میں کہاہے کہ ہم اقتدار پر مسلط رہنے کے لئے سنی اہل حدیث کو عالمی دہشت گردی کاحامی قراردینے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ذات پات کی نسل پرستی اور معاشی نابرابری کےشکار اکثریتی طبقے کےجہلاء اسلاموفوبیا اور مسلمانوں سے ابلیسی نفرت میں مبتلا ہوکر ایک بارپھر نام نہاد دہشت گردی اور خودساختہ’ دیش بھکتی ‘کے نام پر متحد ہوگئے ہیں۔‘‘

بعض وہ شیعہ حضرات جو نادانی میںیا دانستہ طورپر سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو عملی شکل میں دینے میں مدد کررہے ہیں انہیں اس زہریلی سیاست کے نتائج پرغورکر نا چاہئے۔بابری مسجد اور رام مندر قضیہ پر جس طرح کی سیاست مسلمانوں نے اختیار کی ہے یقیناَ وہ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کا حصہ ہے۔اگربعض شیعہ افرادسازش کا شکار ہوکر عام مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کررہے ہیں تو یقیناَ ان کا کوئی نا کوئی ذاتی مفاد ہے جس کے حصول کے لئے وہ ہاتھ پائوں ماررہے ہیں ۔قومی سطح پر یہ بات پایہ ٔ ثبوت کو پہونچ چکی ہے کہ’ شیعہ بی جے پی پرست ‘ہیں جبکہ شیعوں کی اکثریت نے ان مفاد پرستوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی وضاحت کی ہے مگر چند افراد کی بے بصیرتی اور احمقانہ حرکتیں پوری قوم کی وضاحت پر بھاری پڑرہی ہیں۔کیونکہ جو شیعہ قوم کے اہم اور قومی نمائندہ سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بی جے پی کے کھلے ہوئے حامی اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں اس لئے ساری وضاحتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔جبکہ ہم نے بارہا یہ لکھاہے کہ شیعہ اسی طرح تمام قومی سیاسی جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں جس طرح دوسرے مسلمان تقسیم کا شکار ہیں۔اس لئےبعض کم فہم شیعوں کی ’بی جے پی پرستی ‘ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ پوری شیعہ قوم بی جے پی کی حامی ہے انتہائی غلط فیصلہ ہے۔

مسلمانوں کو ۲۰۱۹؁ء کے انتخاب سے پہلے قومی سطح پر متحد ہونا ہوگا۔ہندوئوں کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ ہم آج بھی وہی مسلمان ہیں جو آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد یکجہتی اور قومی اتحاد کے علم بردار تھے ،اسی طرح سیکولر ہندو طبقہ کو بھی آگے بڑھ کردلتوں اور اقلیتوں کو گلے لگانا ہوگا تاکہ ملک کا سیکولرازم برقرار رہے ۔اگر فاشسٹ طاقتوں کو شکست دیناہے تو پہلے آپسی اتحاد اور بیداری شرط ہے ۔ورنہ ہم اس عہد میں داخل ہوچکے ہیں جہاں مذہب اور قومیت کی آڑ لیکر فاشسٹ طاقتیں نفرت کو فروغ دے رہی ہیںاور ہندوستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔