لکھنو: . گزشتہ دور میں جوفقہا، علما، مولانا حضرات تھے ان کا مقصد اپنی تقاریر ، خطابت ، مجالس حسینی کے ذریعہ اہل بیت علیہم السلام کی حیات مبارکہ اور ان کے اخلاق و کر دار کو عوام تک پہنچاہو تا تھا۔دور حا ضر میں علوم آل محمد کی ترویج کے لیے فقہا ، علما ، مولاناانتھک محنت کرتے ہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہی مقصد الحمد اللہ جا ری و ساری ہے نیز قیامت تک یہ سلسلہ با قی رہے گا.

حو زہ علمیہ ابو طالب میں مجلس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے شروع ہو اس کے بعدشعر ائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ مجلس کو خطاب کر تے ہوئے مولانا محمد رضا ایلیا مبارک پورنے کہاکہ گزشتہ دور میں عالم ، مولانا کے ذریعہ عوام اہلبیت علیہم السلام کے فضائل و منا قب سنتے تھے اور ان کی قدر منزلت پہچانتے تھے۔ اب اہل بیت علیہم السلام کے ذکر سے ذاکر اپنی پہچان بناتا ہے۔ نوجوان نسل کو سب سے زیا دہ خطرہ مغربی ثقافتی یلغار سے ہو تا ہے جس سے بیدار کر نا ضروری نہیں عینی فریضہ بھی ہے۔فقہاو علما کی نظر میں منبر کی بہت اہمیت و خا صیت ہے۔ آج کے دور میں انٹر نیٹ ، سیٹلائٹس ، ٹیلی ویڑن ، میڈیا ،پر نٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا ، صحافت ، ذرائع ابلا غ بہت زیا دہ ہیں لیکن منبر جیسا ان میں کوئی نہیں ہے۔ منبر یعنی آمنے سامنے ہو کر گفتگو کرنا یہ بیحد اہم اور واضح اثر رکھتا ہے۔

مولانا نے مزید کہا کہ خطیب کا اپنے زمانے کی ثقافت سے آگاہ ہونالازمی ہے۔ ہر سال اٹھنے والے عقائدی شبہات، ہر معاشرے کی تبدیل ہونے والی عادات و رسوم اور مومنین پہ گزرنے والا ہر زمانے سے خطیب کو آگاہی حاصل ہونی چاہیے نئی افکار یا عادات یا ثقافت سے آگاہی منبر حسینی کی طرف ایک نئی قسم کی توجہ مبذول کرواتی ہے کہ جو کافی مو ¿ثر اور کامیاب ہوتی ہے۔ قرآنی آیات، معتبر کتب سے روایات اور ثابت شدہ تاریخی واقعات کے بیان کے وقت نہایت دقت سے کام لیا جائے کیونکہ بیان کیے جانے والی روایات یا واقعات کے مصادر کے بارے میں دقت سے کام نہ لینے کی وجہ سے سامعین کے ذہنوں میں منبر حسینی کی منزلت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ منبر سے ایسے خیالی واقعات کو بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے کہ جو منبر کے تشخص و شہرت کو نقصان پہنچنے کا باعث بنتے ہیں اور ان سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ منبر ایک بے فائدہ نشریاتی وسیلہ ہے کہ جو سامعین کی ثقافت اور ذہنی بلندی سے مطابقت نہیں رکھتا۔کیا آج کے دور میں ہر حسینی کو اس بات کی طرف دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے؟مجلس کے آخر میں مصائب سکینہ بنت الحسین ؑکو بیان کیا جسے سن کر تمام عزاداروں کی گریہ کر پر سہ پیش کیا ۔ پر وگرام میں حوزہ علمیہ کے اساتذہ و طلاب کے علاوہ عوام بھی موجود تھے ۔