عارف نقوی

بھّیا ٹھیک ہو؟

ایک دُبلے پتلے ٹھنگنے سے قد کے آدمی نے ، جو سفید دھوتی پہنے، شلوکے کے بٹن کھولے اپنی دُکان سے پیر نیچے لٹکائے بیٹھا تھا، نمستے کرتے ہوئے پوچھا۔ اس کی چھوٹی سی دُکان کسی ڈھابلی کی طرح تھی، جس کا بیرونی حصّہ گلی سے تھوڑا اوپر اٹھا ہوا تھا۔ جس کے نیچے نالی میں گندا پانی بہہ رہا تھا۔ دکان میں سگرٹیں، بیڑیاں، چائے اور صابن کے پیکیٹ اور کچھ الّم غلّم چیزیں بے ترتیبی سے سجی تھیں۔اس کے سامنے گلی کے دوسری طرف ایک کھلی کوٹھری میں ایک عورت سفید سوتی ساری پہنے، پلّو سے سر ڈھانپے ایک بڑی سی تھالی میں بالائی جمارہی تھی۔

’’ اب کی بہت دیر سے آئے۔ بھگوان تمھارے بچّوں کو اچھا رکھے۔۔۔‘‘

اس نے نہ جانے کتنی دعائیں دے ڈالیں۔ مجھے حیرت تھی کہ اتنے برسوں کے بعد بھی وہ لوگ گمجھے پہچان گئے تھے۔ کتنی سادگی اور خلوص تھا ان کے لہجے میں۔ اس عورت کو میں پہچان گیا تھا۔ بچپن میں اسی کی دکان سے بالائی اور دہی خریدا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں وہ چھوٹی سی تھی۔ اس کے ماتا پتا ہمیں بڑے پیار سے بالائی اور دہی دیا کرتے تھے۔ یہ یقین دلاتے ہوئے کہ اصلی دودھ کے ہیں۔ مگر وہ دُبلا پتلا بنیا کون تھا ؟ میں نے بار بار اپنے ذہن پر زور دیا ۔ اس کا نام یاد کرنے کی کوشش کی۔ کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا۔ لیکن ہے کون؟ میں نے اس سے پوچھنے کی ہمت نہ کی۔ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ ایک انسان ہے ، جو مجھ سے خلوص سے مخاطب ہے۔ پنجابی ٹولے کی بغل سے گزرنے والی یہ پتلی سی گلی، جہاں کاریں نہیں جاسکتی ہیں، پرانے لکھنئو میں راجا بازار سے فینس والی گلی اور آغامیر کی ڈیوڑھی کی طرف جاتی ہے، جو سٹی اسٹیشن کے قریب ہے۔ جس کے پاس ایک طرف لکڑی کی ٹالیں اور تاڑی خانہ ہے اور دوسری طرف رفاہِ عام نامی ایک پرانی عمارت، جو اب کھنڈھر میں بدل گئی ہے۔اور وہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک لق و دق عمارت جو کسی زمانے میں چھوٹی رانی کا امام باڑہ کہلاتی تھی اور میںبچپن میں اپنی والدہ اور دوسری رشتے دار عورتوں کے ساتھ وہاں وہاں پر تازیے اور روشنی دیکھنے کے لئے جایا کرتا تھا۔تقسیم ہند کے بعد اس کے مالکان اپنی ساری جائداد کو فروخت کرکے پاکستان چلے گئے تھے اور ایک رئیس مقبول احمد لاری نے اسے خرید کر اور مرمت کروا کر اپنی حویلی میں تبدیل کر لیا تھا۔ اتفاق سے ان کے ایک صاحبزادے مظفر لاری میرے ملاقاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ لکھنئو یونیورسٹی میں تھے۔ اس لئے اب جب لکھنئو جاتا ہوں تو کبھی کبھی روشنی دیکھنے کے لئے تو نہیں مگر مظفر سے ملنے کے لئے ضرور وہاں چلا جا تا ہوں۔ امام باڑہ کے نشانات اب وہاںپر نہیں ہیں۔ فینس والی گلی اور آغا میر کی ڈیوڑھی کے نام بھی مٹتے جا رہے ہیں۔فینس والی گلی جہاں سے کسی زمانے میں فینسیں اور ڈولیاں بلوا کر ہمارے گھر کی عورتیں باہر جایا کرتی تھیں، وہاں اب کوئی فینس یا ڈولی نظر نہیں آتی۔آغا میر ڈیوڑھی کے ساکنان بھی بھو ل چکے ہیں کہ آغامیر کون تھے۔ سٹی اسٹیشن چھوٹی لائن کی ٹرینوں کے لئے ایک اسٹیشن ہے۔بچپن میں جب بھی میں چکبست روڈ سے اپنے نانا کے گھر پنجابی ٹولے جاتا تھا تو سٹی اسٹیشن راستے میں پڑتا تھا۔ میں رفاہِ عام کے سامنے سے یا وزیر گنج کی سڑک سے ہوتے ہوئے ریل کے چھتّے کے نیچے سے گزر تا تھا ۔ پھر ایک بڑی چڑھائی پر سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس وقت رکشا والے کو ہانپتے ہوئے دیکھ کر بہت ترس آتا تھا ۔ مگر اس سے زیادہ وحشت مجھے اس وقت ہوتی تھی جب چھتّے کے نیچے سڑک کے دونوں طرف کوڑھی بھکاریوں کی قطاریں نظر آتی تھیں اور انھیں بھیک دیتے ہوئے بھی ڈرتا لگتاتھا کہ کہیں کوئی مجھے چھو نہ لے۔ آج یہ سوچ کر شرم آتی ہے۔چڑھائی ختم ہونے سے قبل ہی ایک طرف ریلوے لائن کے قریب لکڑی کے گٹھروں کے ڈھیر نظر آتے تھے۔ جو مال گاڑیوں سے نکال کر بے ترتیبی سے اِدھر اُدھر ڈال دئے گئے ہوتے تھے۔ دوسری طرف تاڑی خانے کے قریب نشے میں جھومتے یا کسی نالی کے قریب پڑے ہوئے مزدور نظر آتے تھے اور جی چاہتا تھا کہ جلدی سے وہاں سے بھاگ جائوں۔ لیکن ایک بات ایسی تھی جو کبھی کبھی سٹی اسٹیشن کی طرف میرے قدموں کو کھینچتی تھی۔ بچپن میں مجھے کبوتروں سے کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ میرے نانا کے گھر پر بہت سے کبوتر پلے ہوئے تھے۔ خوبصورت لقّے، شیرازی، چوٹی دار، قلاباز، جو اُڑتے ہوئے قلابازیاں کھاتے تھے، مگر زیادہ اونچائی پر نہیں اڑ پاتے تھے۔ ساتھ ہی اونچے اُڑنے والے بے داغ، ہرے، دوباز، مکھی وغیرہ لاتعداد اعلیٰ نسلوں کے کبوتر ، جو صبح سے تیسرے پہر تک آسمان میں اڑتے رہتے ، تاروں کی طرح ٹمٹماتے رہتے اور شام کو سیدھے اپنے گھر واپس لوٹتے۔ کبھی کبھی نیولے اور جنگلی بلیاں کبوتروں کی تاک میں گھر میں آجاتی تھیں۔ ہم لوگ انھیں ایک بڑے بلّی دان میں پھانس کر اور بورے میں بند کر کے سٹی اسٹیشن لے جاتے تھے اور ریل کے کسی ڈبّے میں چھوڑ دیتے تھے اور چپکے سے وہاں سے کھسک آتے تھے۔ تاکہ بلّی پھر لوٹ کر نہ آجائے۔

قریب سے ایک گائے دُم ہلاتی ہوئی معصومیت سے آگے بڑھ گئی۔ ایک نوجوان موٹر سائیکل لئے پیدل
چلتا ہو اور گائے سے بدکتا ہوا دوسری طرف سے آرہا تھا۔ میں ایک طرف ہو گیا۔ گلی کیچڑ سے بھری تھی۔ برسات کا گندا پانی نالی میں بہہ رہا تھا۔ پتلون کی مہریاں میں نے اوپر چڑھالی تھیں۔ میں نے اس بنئے اور بالائی والی کو خدا حافظ کہا اور وہاں سے ہٹ کر پنجابی ٹولے میں داخل ہو گیا۔محلّے کے تین چوتھائی مکانات کسی زمانے میں میرے نانا کی ملکیت ہوا کرتے تھے۔ اب دو تہائی ان کی اولادوں کے پاس ہیں۔ کچھ فروخت کر دئے گئے ہیں ۔ کچھ بغیر فروخت کئے دوسروں کے قبضے میں پہنچ گئے ہیں۔ محلے میں پہنچتے ہی دائیں طرف کچھ ایسے مکانات نظر آئے جو اب کھنڈھرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ پہلے وہاں بریلی کے کچھ لکڑی والے رہتے تھے۔اب کون رہتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم۔ بائیں طرف ایک بڑا سا احاطہ تھا، جس کا پھاٹک غائب تھا۔ یہ ’احاطہ سید عبدالسلام‘ تھا۔ جو میرے نانا کے نام سے منسوب تھا۔ نام کی تختی اب اس پر نہیں تھی۔ ان کی اولادوں کو بھی جو اس احاطے میں رہتے ہیں شاید یہ کمی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بیرونی پھاٹک اور پھر ڈیوڑھی اور گلیارے میں سے گزر کر ایک اور پھاٹک میں سے گزرنا ہوتا ہے، جو اب بند نہیں رہتا۔ اس کے بعد ہم اصلی احاطے میں داخل ہوتے ہیں۔ جس کے دو طرف دو بڑے مکانات میرے نانا کی دوسری زوجہ کے لڑکوں کے لئے ہیں اور ایک بڑا مکان میری خالہ اور میرے رہنے کے لئے ہے۔جس کے ایک کوٹھے پر ایک حصّے میںمیری والدہ مرحومہ کی اجازت سے ایک فیملی رہتی تھی اور اب اپنا تالا ڈال کر کہیں چلی گئی ہے۔ احاطے سے ملے ہوئے کچھ دوسرے مکانات میں بہت سے کرایہ دار بسے ہوئے ہیں۔ وقت کے ساتھ آمدنی گھٹتی جا رہی ہے۔ مرمت پر اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ پھولوں کی کیاریاں اور کیلے، پپیتے اور جامن کے درخت جو میں بچپن میں اس احاطے میں دیکھتا تھا اب نظر نہیں آتے۔سامنے ہماری ایک خاندانی مسجد ہے۔ جسکی پشت احاطے سے لگی ہوئی ہے اور گنبد گھر سے نظر آتے ہیں ۔ اس کا دروازہ پنجابی ٹولے کی گلی میں کھلتا ہے۔ مسجد کے سامنے گلی کے پار بھی ہم لوگوں کے کچھ مکانات ہیں، جو کرائے پر اٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی پشت پر ایک پارک اور اس میں ایک بزرگ کا اونچا سا مزار ہے جسے ’’شیر علی شاہ کا مزار‘‘ کہتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ ان بزرگ کی شہادت ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دوران ہوئی تھی۔ چونے سے پتا ہوا یہ مزار سونا پڑا رہتا ہے۔ بس کبھی کبھی وہاں سے لوبان کی خوشبو آتی ہے۔ورنہ آس پاس کے لڑکے پارک میں دھول اڑاتے رہتے ہیں۔ گھاس یا پھولوں کی کیاریاں میں نے وہاں کبھی نہیں دیکھیں۔ پورا محلّہ ٹوٹے پھوٹے مکانوں اور پتلی پتلی گلیوں پر مشتمل ہے۔ جس کے تین طرف بڑے بڑے مہاجنوں اور رستوگیوں کی اونچی اونچی عمارتیں ہیں۔ جہاں سے طرح
طرح کی رنگ برنگی پتنگیں اڑتی رہتی ہیں۔ خصوصاً جمگھٹ میں آسمان پتنگوں سے بھرا رہتا ہے اور چھتوں پر اور پارک میں ڈور لوٹنے والے لڑکوں کا اُدھم مچا رہتا ہے۔

احاطہ عبدالسلام کے بیرونی پھاٹک میں سے ہو کر میں اپنے نام نہاد گھر میں پہنچنے اور خالہ و خالہ زاد بہن سے ملنے کے لئے ڈیوڑھی سے گزر ہی رہا تھا کہ مجھے دو چارپائیوں پر کئی بوڑھی و جوان عورتیں اور لاتعداد چھوٹے چھوٹے شور مچاتے بچّے نظر آئے۔ ایک بوڑھی عورت پالتھی مارے، بال کھولے بیٹھی تھی۔ دو لڑکیاں غالباً اس کے بالوں میں جوئیں تلاش کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر عورتیں سنبھل کر بہٹھ گئیں۔ بوڑھی عورت نے لڑکیوں کو پرے ڈھکیل کر جلدی سے اپنے بال ٹھیک کئے اور پوچھا:

’’ـمزے میں ہو۔ ابکی بہت دن لگا دئے آنے میں؟‘‘

ؐٹھیک ہو بُوا؟

بوڑھی عورت کی بانچھیں کھل گئیں۔ وہ نہ جانے کیا کچھ کہہ گئی۔ عورتیں کھسر پھسر کرنے لگیں۔
دائیں اور بائیں طرف کی کوٹھریوں سے ، جہا ں میرے نانا کے وقت میں جانور رہتے تھے ، دھوئیں کی دھانسیں آ رہی تھیں۔ کچھ لوگوں نے ان میں سے گردنیں باہر نکال کر دیکھا اور پھر اندر کر لیں۔
پھرایک کوٹھری میں سے ایک مرداپنی تہمت ٹھیک کرتے ہوئے آ یا اور شکایتیں کرنے لگا:

’’بھیا ، پھاٹک پھر ٹوٹ گیا ہے۔ باہر کی گائے تک حاطہ میں آجاوت ہے۔‘‘

جی چاہا ان لوگوں سے کہوں: کم سے کم اپنے پلنگ تو راستے میں نہ بچھایا کرو۔ اب تو اپنے گھرتک جانے کیلئے بھی کترا کر چلنا پڑتا ہے۔ مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ آگے بڑھ گیا۔ احاطہ میں داخل ہوتے ہی ایک طرف ملبے کے ڈھیر نظر آئے۔ میدان میں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ پھول پودے اور پھلوں کے درخت نہیں تھے۔

’’کھیلئے گا؟ ‘‘ ایک لڑکے نے کریکٹ کا بلّا آگے کرتے ہوئے پوچھا۔

’’یار عادت نہیں رہی۔‘‘

اور پھر جیسے ہی میں نے بلّا آگے کیا دوسری طرف سے گیند تیزی سے آئی اور لڑکے چلّائے:

’’آئوٹ!‘‘

میں آگے بڑھ گیا۔ دروازہ کھول کر جو پہلے ہی سے نیم وا تھا، گھر میں داخل ہو گیا۔ میری خالہ منی باجی( میں انہیںبچپن سے منی باجی ہی کہتا ہوں) اور ان کی بیٹی نکہت مسہری پر لیٹی ہوئی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ غالباً امیتابھ بچّن کی فلم آرہی تھی۔ قریب ہی ایک پڑوسن بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جلدی سے اپنا سر ڈھک لیا۔ منی باجی مجھے گلے سے لگا کر رونے لگیں اور نکہت نے جلدی سے ٹی وی بند کر دیا۔ فرج میں سے کچھ نارنگیاں اور کیلے نکال کر میرے سامنے رکھ دئیے۔ پھر اس نے فرج میں سے ایک لمکا کی بوتل نکال کر کھولی اور بغیر کچھ پو چھے میرے سامنے میز پر رکھ دی اور ایک طرف بیٹھ کر گردن جھکا لی۔ جیسے سوچ رہی ہو کہ اس بار بھا ئی جان سے کیا شکایتیں کی جائیں۔

’’منی باجی یہ بتا ئیے، نانا کہاں سے آئے تھے؟‘‘

’’یہ مجھے نہیں معلوم۔ شاید پنجاب سے آئے تھے۔۔۔‘‘

’’یہ کیسے معلوم؟ اس محلّہ کو پنجابی ٹولہ کیوں کہتے ہیں؟‘‘

’’بھئی ایسی ویسی باتیں مت پوچھو! مجھے کیا معلوم!‘‘

انھیں اس قسم کی باتوں سے الجھن ہو رہی تھی۔ شاید وہ اپنی کچھ باتیں کرنا چاہتی تھیں۔ کچھ لوگوں کی شکایتیں۔ اپنے بیٹے کا گلا، جو اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ ممبئی میں رہتا ہے اور برسوں نہیں آتا ہے۔

پھر انہوں نے بندروں کا رونا شروع کر دیا۔ کمروں کے اندر تک گھس آتے ہیں۔ برتن توڑ دیتے ہیں۔
دیواروں میں سیلن بڑھ گئی ہے۔ چھت ٹپکنے لگی ہے۔ پانی کی قلّت ہو گئی ہے۔ گھر کے ایک حصّہ کی چھت بوسیدہ ہو گئی ہے۔ سامنے والے کمرے میں تمہارے کہنے سے جن رشتہ دار خاتون کو رکھ لیا تھا، وہ بھی کئی کئی ہفتوں کیلئے اپنے دوسرے گھر میں چلی جاتی ہیں۔ لوگ تاک میں ہیں کہ گھر خالی ملے تو قبضہ کر لیں۔ بعض کرائے دار کرایہ بڑھانے کیلئے تیار نہیں ہیںتم ان سے کچھ کہو۔ تمہاری بات مان لیں گے۔ ان کے سوتیلے بھائیوں کے آپسی جھگڑے بڑھ گئے تھے۔ مقدمہ بازیوںکی نوبت آگئی تھی۔ اور ٹیپ کا بند یہ کہ تم بے حِس ہو گئے ہو۔ کسی بات میں دلچسپی نہیں لیتے۔

اچانک ایک سفید کتّا گھر میں گھس آیا اور میری کرسی کے نیچے آ کر بیٹھ گیا۔کئی بلیاں اچھل کر منی باجی کی مسہری پر چڑھ گئیں۔ نکہت انھیں بھگانے لگی۔جیسے وہ کہیں باہر سے آگئی ہوں۔

’’یہ کتّا کہاں سے آ گیا؟‘‘

’’پتہ نہیں! باہر سے آ جاتا ہے۔ ‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔ حالانکہ وہ جانتی تھی کہ میں اس کی بات پر اعتبار نہیں کروں گا۔ دالان میں ایک ایک چھوٹے سے پنجڑے میں ایک طوطا ٹائیں ٹائیں کر رہا تھا۔
مجھے یاد آیا:اسی گھر میں جب میں چھوٹا تھا اور چھٹیاں گذارنے کیلئے آتا تھا، تو کبوتروں اورمرغیوں سے کھیلتا تھا۔ دن دن بھر کبوتروں کو اڑاتا رہتا اور دوسروں کے کبوتروں کو پکڑتا تھا۔ کبوتروں کے نیچے مرغی کے انڈے رکھ کران میں سے چوزے نکالتا تھا۔ آنگن میں لٹو نچاتا اور کنچے کھیلتا تھا۔ کوٹھے پر چڑھکر پتنگیں اڑاتا اور ڈوریں لوٹتا تھا۔ اگر کوئی نیولاکسی مرغی کو پکڑ لیتا تھا تو مرغی کو چھڑا کر اس کی زخمی ٹانگ پر ’کرولے ‘کے پتّے لگاتا تھا۔ اور جب جنگلی بلّیاں کبوتروں کو پکڑنے کیلئے آتی تھیں تو انہیں بلّی دان میں پھانس کراور بورے میں بند کرکے سٹی اسٹیشن پر کھڑی کسی ٹرین کے ڈبّے میں چھوڑ آیا کرتا تھا۔ اور جاڑوں کی برفیلی رات میں لحاف میں گھس کر مونگ پھلیاں کھاتے ہوئے نانا سے الف لیلیٰ کے قصّے سنتا تھا۔

میرے نانا سید حافظ عبدالسلام ایک لمبے تڑنگے خوش رو اور رعب دار انسان تھے۔ حافظ قران، نماز روزہ کے سخت پابند۔ گھر میں پردہ کی سخت پابندی تھی۔عورتیں برقہ اوڑھ کر اور ڈولی میں بیٹھ کر گھر سے باہر جاتی تھیں۔ اور جب گھر لوٹتی تھیںتو کہار دور سے آوازیں لگاتے تھے: ’’سواری آ رہی ہے۔ پردہ کر لو!‘‘ اور دو آدمی چادر تان کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ تاکہ کوئی نا محرم کسی خاتون کی جھلک نہ دیکھ لے۔ ان کی پہلی اہلیہ سے جو خواحہ ناظم الدین کی رشتہ دار تھیں اور نواب ڈھاکہ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، میری والدہ کے بیان کے مطابق، پندرہ اولادیں ہوئی تھیں:میری والدہ ، ان کے بڑے بھائی عبدالصمد (ببن) جو دماغی خلل کا شکار تھے اور جب کوئی کرائے دار کرایہ میں سے انکا ٹیکس نہیں دیتا تھا ، تو اینٹوں کی شکل میں جنات اس کے گھر میں بھیجتے تھے۔ نیز میری خالہ سلطان جہاں جو سب سے چھوٹی تھیں۔ میری والدہ اور خالہ کو انہوں نے انگریزی تعلیم اس لئے نہیں حاصل کرنے دی تھی، تاکہ انگریزی تعلیم انہیں خراب نہ کر دے۔ وہ کہتے تھے:

’’میری لڑکیوں کو ملازمت نہیں کرنا ہے۔ ‘‘ بعد میں انہوں نے ایک کشمیری خاتون سے شادی کر لی تھی، جو کافی ملنسار تھیں۔ ان سے تین لڑکے پیدا ہوئے جو تقریبا میرے ہم عمر تھے۔ نانا مجھے اور اپنے بیٹوں کو لیکر اکثر مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے۔ کبھی کبھی رمضان شریف میں جب تراویح بہت لمبی ہو جاتی تھی تو ہم وہاں سے چپکے سے کھسک آتے تھے۔

میرے نانا یا پرنانا پنجابی ٹولہ میں آکر کب بسے؟ کیسے بسے؟ کہاں سے آئے؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔ انکی شادی نواب ڈھاکہ کے خاندان میں کیسے ہوئی؟ یہ بھی مجھے کسی نے نہیں بتایا۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ میری والدہ خواجہ ناظم الدین کی اہلیہ کو بیگم خالہ کہتی تھیں اور اپنی والدہ کی کزن بتاتی تھیں۔ نیز یہ کہ میری والدہ کی سگی خالہ شاہجہاں بیگم، جن کے شوہرنیاز الدین (نیازو نانا) شیروں، ہاتھیوں اور دوسرے جانوروں کی سوداگری کرتے تھے اور اپنی ساری دولت شراب اور جوئے میں اُڑا بیٹھے تھے اور بعد میں دمے کا شکار ہوکر مادھوپور میں بس گئے تھے، وہ نورالدین صاحب کی بہن تھیں جو ڈھاکہ سے مارننگ نیوز نکالتے تھے۔ شاہجہاں نانی کی ساری جائداد پر اکیاب میں جاپانیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور وہ اس امید میں کہ کسی نہ کسی دن وہ انہیں واپس مل جائے گی دعا تعویض کیا کرتی تھیں۔

میری دادی اسی احاطہ میں ایک مکان میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہتی تھیں۔ میرے والد نہایت خوبرو، صحتمند، تعلیم یافتہ اور ملنسار انسان تھے۔میری والدہ بھی خاندان میں کافی خوبصورت مانی جاتی تھیں۔ میرے والد کی نظر ایک دن ان پر پڑ گئی اور وہ فریفتہ ہو گئے۔ میری دادی، جو نواب منصرم الدولہ کی دختر تھیں اور شاہانہ زندگی گذار چکی تھیں، اودھ کی تباہی کے بعد مٹیا برج سے لوٹ کر پریشان حالی میں بسر کر رہی تھیںجانتی تھیں کہ میرے نانا اس رشتہ کو قبول نہیں کرینگے۔ پھر بھی انہوں نے ایک دن پیغام دے ہی دیا۔ نانا کا پہلا جواب تھا: ’’آپ کے صاحبزادے تعلیم یافتہ ، نیک اور شریف ہیں۔ مگرآپ کے پاس ہے کیا؟ میری بیٹی کے لئے ایک سے ایک نوابوں اور رئیسوں
کے رشتے آرہے ہیں۔‘‘

بہرحال وہ اس شرط پر تیار ہو گئے کہ میرے چچا سید مصباح الدین نقوی اوران کے چھوٹے بھائی سید وہاج الدین نقوی اس بات کی تحریری ضمانت دیں کہ اگر میرے والد کبھی زوجہ کا خرچہ پورا نہ کر سکے تو وہ پورا کریں گے۔ اور اس طرح اسی احاطہ میں دھوم دھام سے یہ شادی ہوئی۔ جسمیں بھانڈوں کے تماشے اور رقص وسرود کا بندوبست کیا گیا۔ دور دور سے رشتہ داروں نے آکر اس میں شرکت کی۔ والدہ بتاتی تھیں، کہ بھانڈوں کو کہیں سے پتہ چل گیا کہ ان کے خالو کلکتّہ میں جانوروں کا ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نیازو نانا کی نقل اتارتے ہوئے انہیں چڑی مار نواب کا لقب عطا کیا اور اس وقت تک ان کا مذاق اڑاتے رہے جب تک انہوں نے لمبی رقم نہیں ادا کر دی۔ میرے بڑے بھائی معین الدین کی پیدائش اور وفات بھی اسی احاطہ میںہوئی۔ وہ میری پیدائش سے قبل دس مہینے کی عمر میں چیچک کا شکار ہو کر چل بسا۔ میری پیدائش بھی وہیں ہوئی۔ میری چھوٹی بہن نیلوفر بھی وہیں پیدا ہوئی۔ جو بعد میں پانچ برس کی عمر میں حیدراباد دکن میںپیر میں زہر پھیل جانے کی وجہہ سے فوت ہو گئی۔شاید اس وقت اسپتال میں ٹیٹانس انجکشن جیسی دوائیں نہیںتھیں ۔ جب مصباح چچا ( مصباح الدین نقوی) میو نسپلٹی میں چیف ایکزیکٹو افسر کے عہدہ پر فائز ہو گئے تو
پنجابی ٹولہ کو چھوڑکر چکبست روڈ میں رہنے لگے۔ میری دادی بھی ان کے ساتھ وہیں رہنے لگیں۔ ننھے چچا ( وہاج الدین نقوی) حیدراباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ہو گئے تھے۔ میرے والد بھی حیدرابا میں ایک فیزیکل ٹریننگ کالج میںپرنسپل کی حیثیت سے کام کرنے لگے ۔میں بھی اپنے والد اور والدہ کے ساتھ وہیں چلا گیا۔ نظام چچا (نظام الدین) اور کتو چچا (نورالدین) بھی چکبست روڈ میں مصباح چچا کے ساتھ رہنے لگے۔ پنجابی ٹولے کے جس گھر کو یہ لوگ چھوڑ کر گئے تھے اب وہاں میری دادی کی ایک بہن، جنہیں ہم چھوٹی دادی کہتے تھے، اپنے بیٹے، بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی، جنہیں ہم منشی دادا کہتے تھے، پنجابی ٹولہ میں ہی احاطہ عبدالسلام
کے باہر اپنے نجی مکان میں رہتے تھے اور فینس والی گلی کی مسجد میں نماز پڑھاتے تھے۔ ان کی قراء ت بہت اچھی تھی ۔ اذانیں ہر طرف پسند کی جاتی تھیں۔ مگر و ہ نصیحتیں بہت کرتے تھے۔ اسلئے بچیّ ان سے دور بھاگتے تھے اور ان کو دور سے دیکھ کر کہتے تھے ’ان کنتُم تعلمون‘ آرہے ہیں۔میری والدہ ان کا بہت احترام کرتی تھیں ۔ مگر چڑھتی بھی تھیں۔ کیونکہ جب میرے والدکو دل کا دورہ پڑا تھا اوراسپتال میں انکا آخری وقت تھا تو منشی دادا ان کی عیادت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:

’’ ہو گئیں غالب بلائیں سب تمام ایک مرگِ ناگہانی اور ہے‘‘

چھوٹی دادی کے ایک بیٹے نورالدین آگرہ میں سیلس ٹیکس افسر تھے۔ ان کی شادی ۶ اپریل ۱۹۴۷ کو سر ابراہیم جعفر کی دُختر مریم سے ہوئی تھی۔ جسکی تقریب میں محمد علی جناح، فاتمہ جناح، لیاقت علی خاںاور سردار عبدالرب نشتر نے شرکت کی تھی۔ چھوٹی دادی کی ایک دختر جنہیں ہم حجو پھوپھی کہتے تھے میری والدہ کی بہترین سہیلی تھیں۔ ان کی دوسری بہن جنہیں سب بی وی باجی کہتے تھے، ان کی اولادوں کو میں نے زیادہ قریب سے دیکھا ہے اوران میں سے کئی سے اب بھی رابطہ ہے۔عزیز، سعید، اقبال، خلیل،شکوہ، نفیسہ، سب خوبرو صحتمند اور زندہ دل تھے۔اور اپنی خوبصورتی
کے لئے خاندان میں مشہور تھے۔ ایک دوسرے رشتہ دار قاضی پھوپھا اور ان کی بیگم زاہدہ پھوپھی بھی پنجابی ٹولہ میں ہی رہتی تھیں۔ ان کا منجھلا بیٹا احسن (احسن مصطفی) میرے ساتھ سنٹینیل اسکول میں پڑھتا تھا۔اور ہر قسم کی شرارتوں میں شریک رہتا تھا۔

میرے نانا کو کبوتر اور مرغیاں پالنے کے ساتھ ساتھ پیڑ پودے لگانے کا بہت شوق تھا۔ نئی نئی قسموں کے پودے اور کیکٹس لا کر گملوں مین سجاتے تھے۔ انگور کی بیلیں دیواروں پر پھیلی تھیں۔ کیلے، پپیتے ، انار اور شریفے کے پیڑ احاطہ کی شان بڑھاتے تھے ۔ بیلے چمیلی کے پھول رات بھر مہکتے اور رات کی رانی کے پھول صبح دالان میں بکھرے رہتے تھے۔ ایک دن وہ دیر تک پودوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے۔ کسی کیڑے نے کاٹ لیا اور دائیں ہاتھ میں زہر پھیل گیا۔ میڈیکل کالج کے سب سے بڑے سرجن ڈاکٹر ماتھر نے آپریشن کا مشورہ دیا۔ اسپتال لے جانا پڑے گا۔ ہاتھ کاٹنا پڑیگا۔ سارے گھر میںکہرام مچ گیا۔ اسپتال جانے کے مطلب تھے کبھی واپس نہ لوٹنا اور ہاتھ کٹنے کے بعد اپاہجی کی زندگی۔ زندہ درگور ہوجانا۔آخر وہ اس شرط پر راضی ہوئے، کہ آپریشن گھر پر کیا جائے، چاہے جتنی رقم خرچ ہو۔ چنانچہ آپریشن کا سارا سامان گھر پر مہیاکیا گیا۔ نرسیں اور ڈاکٹر گھر پر پہونچے۔ ایک بڑے سے کمرہ کو صاف کرکے اسے آپریشن رُوم میں بدلا گیا۔ عورتوں و بچّوںکوزنانہ حصّے میں پردے کے پیچھے کر دیا گیا۔ سارے محلّے کے لوگ احاطہ عبدالسلام میں جمع ہو گئے۔ ڈاکٹر ماتھر کے ماتھے سے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ ان کے ماتحت ڈاکٹر اور نرسیں اشارہ کے منتظر تھے۔ اچانک میری والدہ پردہ کو چیر کر بدحواس باہر نکلیں اور تیزی سے دوڑتی ہوئی ڈاکٹر ماتھر کے پاس جا کر بولیں: ’’خدا کیلئے کچھ ایسا کیجئے کہ ہاتھ نہ کاٹنا پڑے۔ ‘‘ وہ پاگلوں کی طرح رو رہی تھیں۔

’’جائیے بہن جی، دعا کیجئے۔‘‘ ڈاکٹر ماتھر کا مختصر جواب تھا۔

ایک نرس میری والدہ کو زنانہ کمرہ میں پہونچا گئی۔ اس کے بعد آپریشن کیسے ہوا؟ کتنی دیر ہوا؟ یہ مجھے نہیں معلوم یا یاد نہیں۔ صرف اتنا یاد ہے کہ کچھ دنوں کے بعد شاہ مینا صاحب کے مزار پر چادر چڑھائی جا رہی تھی۔ میرے نانا کا آپریشن کامیاب ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی جب ڈاکٹر یا کمپونڈر آتے اور پٹی کھول کر ہاتھ صاف کرتے تو نانا کے دائیں ہاتھ کی تین انگلیاںاس طرح تراشی ہوئی نظر آتیں جیسے کسی مدرسے کے ماسٹر نے بانس کے قلم تراشے ہوں۔ ان میں ربر کی نلکیاں اس طرح پروئی ہوئی تھیں، جیسے سوئی سے کپڑے سیئے جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے وحشت ہونے لگتی تھی اور میں وہاں سے ہٹ جاتا تھا۔ صحتیاب ہو جانے کے بعد نانا جب بھی کہیں جاتے ایک بڑا سا لال رومال
ان کے داہنے ہاتھ پر ہوتا۔

کبھی کبھی جب وہ اپنے گائوں یکّے یا تانگے سے جاتے تھے تو میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ ایک بوسیدہ سی حویلی جوگائوں میں ہمیشہ سنسان پڑی رہتی تھی، اس دن صاف کرکے سجا دی جاتی تھی۔ اس کے ایک بڑے ہال میں موٹی سی دری اور اس پرسفید چادر بچھا دی جاتی تھی۔ نانا ایک طرف آرام کرسی پر بیٹھ جاتے تھے اور دوباڈی گارڈ بلّم لے کر ان کے دائیں بائیں کھڑے ہوجاتے تھے۔ایک منشی کھاتہ کھول کر فرش پر بیٹھ جاتا تھا اور کسان آ آکر لگان ادا کرتے اور جھڑکیاں سنتے رہتے تھے، کیونکہ کبھی کبھی فصل اچھی نہیں ہوئی ہوتی تھی اور لگان بقایا ہو جاتا تھا۔ اسوقت ان کسانوں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے۔ شاید ان کے بچّوں کو پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوا ہوتا تھا۔

میرا جی چاہتا کہ نانا سے کہوں کہ لگان واپس کردیں۔ مگر بچّوں کی آواز کی وہاں کوئی وقعت نہیں تھی۔ اس لئے وہاں سے ہٹ کر آم کے پیڑ پر چڑھ جاتا اور کچّے پکّے آم توڑنے لگتا یا جامن کے پیڑوں پر ایک ڈال سے دوسری ڈال اچھلنے لگتا۔

نانا کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے پاس دولت بہت ہے مگر وہ خرچ نہیں کرتے ہیں۔ چھپا کر رکھتے ہیں۔ طرح طرح کی باتیں ہوتی تھیں۔دادی کہتی تھیں کہ انہوں نے خود دیکھا تھا کہ وہ دیگوں میں سے نوٹ نکال کر انہیں سکھاتے اور پھرانہیں میں رکھ کر کہیں چھپا دیتے تھے۔ ایک بار کچھ ڈاکوئوں نے گلی سے سیند لگا کر گھر میں گھسنے کی کوشش کی تھی اور پکڑے گئے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ احاطہ کے بیچ والے مکان میں جس کے بیرونی حصّہ میں ان کا بیٹھکا تھا اور اندرونی حصّہ خالی پڑا رہتا تھا، اسی کے تہہ خانے میں دولت چھپی ہے۔ اور جنات اسکی حفاظت کرتے ہیں۔

اکثر جب میں پنجابی ٹولے جاتا تو اسی بیچ والے مکان میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا۔ اسوقت ہمیں وہاں پر نہ تو کوئی نوٹوں بھری دیگ نظر آتی اور نا ہی کوئی جنّات۔ وہاں چمگادڑ چھتوں پر لٹکے ہوئے ضرور نظر آتے۔ ہم میں سے ایک کی آنکھ پر پٹی باندھ دی جاتی۔ اور باقی سب لڑکے گھر کے ایک ایک کونے میں کوئلے سے نشان بناتے، بغیر یہ سوچے کہ دیوار کا کیا حشر ہورہا ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے گھر کے ایک ایک کونے اور ایک ایک طاق کو چھان مارتے۔ پھراس لڑکے کو آواز دی جاتی جسکی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی۔ اور وہ اپنی پٹی کو کھول کر لکیروں کو ڈھونڈھتا اور جو لکیریں وہ نہ ڈھونڈھ پاتا انہیں نوٹ کیا جاتا۔ پھر دوسرے لڑکے کی باری آتی۔ اسکی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی اور باقی لڑکے اپنے اپنے کوئلے لیکر کونوں کی طرف بھاگتے اور آ خرمیں فیصلہ ہوتا کہ کس کی سب سے زیادہ لکیریں نہیں پکڑی گئی ہیں۔ پنجابی ٹولہ کے اس احاطہ میں جتنے گھر تھے سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ عورتیں اکثر احاطہ میںقدم رکھے بغیر اندر ہی اندر ایک مکان سے دوسرے مکان میں رشتہ داروں سے ملنے کیلئے چلی جاتی تھیں۔ لڑکے ایک چھت سے دوسری چھت پر پھاند کر ڈوریں لو ٹتے اور پتنگیں اڑاتے تھے یا احاطہ میں دن بھر لٹو نچاتے
اور کنچے کھیلتے تھے۔میں بھی اپنے گھر والوں کی نظریں بچا کر احاطہ میں یا کبھی کبھی پارک میں محلّے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر ادھم مچاتا اور بعد میں گھرپر والدہ کی ڈانٹ کھاتا تھا۔ میرے والد جب بھی حیدرآباد سے لکھنو آتے مصباح چچا کے ساتھ چکبست روڈ کے بنگلے میں قیام کرتے۔ کبھی کبھی وہ میری والدہ اور مجھ کو لے کر نانا سے ملنے کیلئے پنجابی ٹولے میں بھی آتے۔ اور اس روز مجھے پوری آزادی ہوتی کہ جتنی دیر چاہوں محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلوں۔

عید کا دن تھا۔ ہملوگ نہادھو کر اور نئے کپڑے پہن کر تیار ہوئے۔اس دن میرے والد نے اپنے ہاتھ سے مجھے شیروانی پہنائی تھی اور سر پر پھنّے دار ترکی ٹوپی رکھی تھی اور بالوں میں کنگھی کی تھی۔ میرے والد خود بھی چوڑی دار پائجامہ، شیروانی اور پھنے دار ترکی ٹوپی میں ملبوس تھے۔ اور ہر شخص کی توجہ کا مرکز تھے ۔ کیونکہ وہ حیدرآباد سے آئے تھے۔ ہم لوگوں نے سوئیاں کھائیں اور مصباح چچا کی کار میں اس طرح سوار ہو گئے جیسے بھیڑ بکریاںکسی ٹرک میں کھچا کھچ بھر دی جاتی ہیں۔ گاڑی میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ بچّے ایک دوسرے کی گود پر سوار تھے۔ عید گاہ میں نماز پڑھنے کے بعد گھر لوٹ کر ہم نے کھانا کھایا ۔ پھر تانگہ میں بیٹھ کر عید ملنے کیلئے پنجابی ٹولہ چلے گئے۔ آسمان پتنگوں سے بھرا تھا۔ میرے ماموں اور دوسرے لڑکے کوٹھے پر جمع تھے اورشور مچا رہے تھے۔ میرے والد بھی کوٹھے پر جاکر پتنگیں لڑا نے لگے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد نیچے اتر کر بستر پر لیٹ گئے۔ انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔اسی رات کو انہیں شاہ مینا اسپتال (کنگ جارج میڈیکل کالج) میں داخل کر دیا گیا۔ اٹھارہ دن کے بعد چالیس برس کی عمر میں وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔میں مصباح چچا کے ساستھ چکبست روڈ کے بنگلہ نمبر ایک میں رہنے لگا اور پڑھائی کیلئے گھر کے قریب سنٹینیل اسکول میں بھرتی کر دیا گیا۔ والدہ بھی دادی کے اصرار پر اکثر وہیں رہ جاتی تھیں۔ میرے نانا نے بہت اصرار کیا کہ ہملوگ ان کے ساتھ پنجابی ٹولے میں رہیں۔ مگر دادی اور چچا کا کہنا تھا کہ پنجابی ٹولے کا ماحول میری تر بیت اور پڑھائی کیلئے مناسب نہیں ہے۔والدہ بھی اس خیال سے متفق تھیں۔

پھر ایک روز پنجابی ٹولہ سوگ میں ڈوب گیا۔ نانا کو کانور ہو گیا تھا۔ ہر طرح کی جھاڑ پھونک کی گئی۔ دوا علاج ہوا۔ اسپتال میں داخل کئے گئے۔ مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخری بار جب میں اپنی والدہ کے ساتھ انہیں دیکھنے کیلئے شاہ مینا اسپتال میں پہونچا تو ان کی زبان بند ہو چکی تھی۔ وہ بار بار کچھ کہنے کیلئے آنکھیں کھولتے تھے اور بند کر لیتے تھے۔آنسو نکل آتے تھے۔

نانا کے انتقال کے بعد کسی کو کچھ پتہ نہ چلا کہ انہوں نے اپنی دولت کہاں چھپاکر رکھی تھی۔ انہیں بنکوں پر اعتبارنہیں تھا۔ آئے دن بنک دیوالیہ ہورہے تھے۔ پھر ان کی دولت کہاں گئی؟ کس تہہ خانہ میںہے؟ کس طاق ، کس دیوارمیں چنی ہے؟ نانی کو چند طاق یاد آئے ان کے اندر سے کچھ رقم ملی مگر اس سے کسی کو تسلّی نہ ہوئی۔ شک و شبہات بڑھنے لگے۔ بعد میں جب ان کی وصیت کو کھولا گیا تو تقریبا ساری جائداد وقف تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بعد ان کی اولادیں جائداد کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور اسے فروخت کرکے کنگال ہو جائیں۔ وصیت کے مطابق ایک بڑا مکان نایاب منزل نانی (نانا کی دوسری زوجہ) کو مہر میں دے دیا گیا تھا۔ تین مکان بی وی بچوں کے رہنے کیلئے تھے۔ انہیں کرایہ پر نہیں اٹھایا جا سکتا تھا۔ پڑوس کے محلے داتا شاہ تکیہ کے کچھ مکانات اور چوک و نخاص کے کچھ مکانات و دُکانوں کو بیچنے کی اجازت تھی ۔کھجوا نامی علاقے میں جو خاندانی قبرستان تھا وہاں صرف رشتے دار دفن کئے جا سکتے تھے۔ چوک کے کچھ مکانات اور دکانیں اور پنجابی ٹولے کے سب مکانات کو صرف کرائے پر اٹھایا جا سکتا تھا۔ بیچنے کی اجازت نہیں تھی۔ان میںبی وی بچوں کے شرعی حقوق تھے اور انتظام ایک منشی کو سونپ دیا گیا تھا۔ ناکہ ہنڈولے پر نانا کی ایک بہت بڑی آراضی تھی۔ وہ وہاں پر ایک بڑی سرائے بنانا چاہتے تھے۔ جبکہ حکومت وہاں پر سڑک بنانا چاہتی تھی۔ نانا اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑ رہے تھے۔ کہتے تھے کہ میں اپنی زندگی میں کسی کواس زمین میں ہاتھ نہیں لگانے دوں گا۔ ان کے انتقال کے بعد حکومت نے صرف پینتالیس ہزار روپئے کا معاوضہ دے کر اس پر قبضہ کر لیا اور کوئی کچھ نہ کر سکا۔ پنجابی ٹولے میں جو خاندانی مسجد تھی اس کے بارے میں وصیت تھی کہ اس کا تمام خرچہ جائداد کی آمدنی سے پورا کیا جائے گا۔ گائوں غالباً ان کی وفات سے قبل ہی حکومت نے ضبط کر لیا تھا۔

میری والدہ ذہنی طور پر اس قدر متاثر ہوئیں کہ کلکتہ جا کر اپنی خالہ کے ساتھ رہنے لگیں۔ پھر جب وہ کئی مہینوں کے بعد واپس لوٹیں تو گھر اجڑا ہوا تھا۔ قیمتی جھاڑ فانوس جو چھتوں پر ٹنگے رہتے تھے، نایاب چینی برتنوں کے سیٹ جو الماریوں میں سجے تھے نیز دیگر قیمتی چیزیں نہیں رہی تھیں۔ کمروں میں چمگادڑ گھسنے لگے تھے۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا۔ ملک کی آزادی کے ساتھ زمینداری نظام بھی بظاہر ختم ہو گیا۔نانا کا گائوں بھی سرکار نے لے لیا۔ ناکا ہنڈولہ کی جس آراضی پر وہ سرائے بنانا چاہتے تھے وہاں سڑک بن گئی۔ اس کے عوض سرکار نے ۴۵ ہزار کا معاوضہ دے دیا، جو بنک میں جمع ہو گیا۔ کھجوا میں جو خاندانی قبرستان تھا وہاں کمہاروں کے جھونپڑے بننا شروع ہو گئے۔ نخاس کی کچھ دکانیں اور داتا شاہ اور چوک کے کچھ مکانات کوڑیوں کے مول بک گئے۔ پنجابی
ٹولے کی خاندانی مسجد بے پرسان و ویران ہو گئی۔ سگے رشتے دار ایک دوسرے کو کوسنے لگے اور مجھے اس نام نہاد جائداد سے وحشت ہونے لگی۔ اس کا کھوکھلا پن سامنے آنے لگا۔

ملک کی تقسیم کے بعد وحشت و درندگی کا جو بازار ہندو مسلم فسادات کی شکل میں گرم ہوا، جس میں رام اور رحیم کے نام پر عورتوں اور بچّوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، اس کے بعد میرے بہت سے رشتے دار بھی جو پنجابی ٹولے میں رہتے تھے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔ جو رہ گئے وہ بھی پر تول رہے تھے۔لیکن ایک دن کچھ مہاجن ا حاطہ عبدالسلام میں داخل ہوئے اور کہنے لگے:

’’ بہن جی اگر آپ لوگ بھی چلے گئے تو ہماری ناک کٹ جائے گی۔ ہمارے اور آپ کے بزرگوں کے
تعلقات بہت پرانے ہیں۔ آپ ہماری بہن ہیں۔ ہم آپ لوگوں کی حفاظت کے ذمے دار ہیں۔‘‘ بہرحال میری والدہ اور پنجابی ٹولے کے بہت سے لوگوں نے جن کے گھر مہاجنوں اور رستوگیوں کے گھروںسے گھرے تھے ، اس محلّے کو نہیں چھوڑا۔ میرا زیادہ تر وقت اب چکبست روڈ پر ہی گزرتا تھا۔ طالبعلمی کے زمانے میں ہی میں نے ادبی ، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اس لئے شاذو نادر ہی پنجابی ٹولے کی طرف جانا ہوتا تھا۔ میری والدہ البتّہ اپنے بڑے بھائی اور چھوٹی بہن کے ساتھ وہیں رہتی تھیں۔وہ نہایت ہی خوش مزاج، زندہ دل، ملنسار اور ہمدرد لیکن نہایت ہی جذباتی خاتون تھیں۔ اگر کسی پر مہربان ہوتیں تو دل و جان سے۔ محلّے والے ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن مجھ سے کہنے لگیں کہ ا حاطہ عبدالسلام کا بیچ والا گھر جو ہمیشہ خالی پڑا رہتا تھا اور جس کے بارے میںلوگوں کو شک تھا کہ وہاں جنّات رہتے ہیں، انھوں نے کسی کو کرایے پر دے دیا ہے۔ کہنے لگیں: ’’ کشور آئی تھی، کہتی تھی اس کے کوئی ملاقاتی کلکتّے سے آئے ہیں۔ انھیں مکان کی ضرورت ہے ۔ مل نہیں رہا ہے۔

میں انکار نہیں کر سکی۔ بیچ والا مکان کچھ عرصے کے لئے ان لوگوں کو دے دیا ہے۔ خالی پڑا ہوا تھا۔‘‘ کشور میری پھوپھی زاد بہن تھیں۔ بغل کے ایک گھر میں ان دنوں پولیس کا ایک داروغہ کرایہ دار کی حیثیت سے بسا ہوا تھا۔ اس لئے معاملہ نازک تھا۔ مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ پھر ایک دن شام کو میں احاطے میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ایک گورا چٹّا شخص ترچھی ٹوپی لگائے، سر جھکائے قریب سے گزر گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر زیڈ اے احمد تھے، کمیونسٹ پارٹی کے ایک بڑے لیڈر ،جو کسی زمانے میں جواہر لعل نہرو کے دستِ راست بھی رہ چکے تھے۔ وہ اسی بیچ والے مکان میں روپوش تھے۔ میری والدہ کو ان کے بارے میں صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔وہ کسی سے بات نہیں کرتے ہیں۔

(ڈاکٹر احمد نے اپنی سوانح حیات میں اپنی اس روپوشی کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ انھیں شاید یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ مکان میری والدہ کا تھا۔)

ایک دن کہنے لگیں:

’’ اب وہ لوگ تو چلے گئے ہیں مگر دوسرے لوگوں کو چھوڑ گئے ہیں۔ وہ کسی بنک میں کام کرتے ہیں۔ مگر دن میں کوئی نظر نہیں آتا۔ بس رات کو لوگ آتے جاتے ہیں۔ اکثر رات کو کھٹ کھٹ کی آوازیں آتی ہیں۔کہیں یہ لوگ نوٹ تو نہیں چھاپتے؟‘‘ دراصل وہ سائکلو اسٹائل مشین کو کرنسی چھاپنے والی مشین سمجھ رہی تھیں۔

پھر ایک دن کہنے لگیں: اب اس گھر میں کلکتّے کے کچھ مچھلی والے رہنے لگے ہیں۔ غالباً بخشی کے تالاب پر ان کا کاروبار ہے۔‘‘ پھر انہوں نے ان لوگوں کی تعریفیں شروع کر دیں۔ وہ ان سے بہت متاثر تھیں، کیونکہ وہ لوگ ان سے بہت اچھی طرح ملتے اور دیر دیر تک گفتگو کرتے تھے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ لوگ وزیر حسن عابدی اور ان کی بیگم تھے، جو کمیونسٹ پارٹی کے اہم اراکین تھے اور اپنی دلچسپ باتوں سے لوگوں کے دلوں کو جیتنا جانتے تھے۔ وہ ان دنوں وہاں پر روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے اور نہایت اطمینان سے میری والدہ کی زبان سے کمیونسٹ پارٹی کی شکایتیں سنتے تھے۔

یہ غالباً ۱۹۴۹ ء یا ۱۹۵۰ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں ہندوستانی کمیونسٹوں کے سر پر اشتراکی انقلاب کا سودا سوار تھا۔ ۱۹۴۸ء میں سی۔پی ۔آئی کی کلکتّہ کانگریس میں پی سی جوشی کو ، جو نرم دل کے مانے جاتے تھے، ہٹا کر بی۔ٹی۔رندیوے کو پارٹی کا جنرل سکریٹری بنا دیا گیا تھا اور ان کی رہنمائی میں اشتراکی انقلاب کا نعرہ بلند کر دیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں کمیونسٹوں کو جیلوں کی فولادی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا تھا اور بہت سے روپوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بہت سے انقلابی شاعروں اور ادیبوں نے ملک کی آزادی، نوآبادیاتی نظام کے خاتمے، جنگ و جدل اور فسطائی وحشت و بربریت کے خاتمے ، فرقہ وارانہ فسادات کی وحشتناکیوں کو روکنے کے لئے قلم اٹھائے تھے۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر امریکی بموں کے گرائے جانے سے ہوئی تباہکاریوں اور اپنے ملک میں سرمایہ داری کے خاتمے کے لئے زوردار قلم اٹھائے تھے امن و اشتراکیت کی آوازیں بن گئے تھے۔ جیسے مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، اسرارالحق مجاز، فیض احمد فیض وغیرہ۔ جن کی تحریروں سے بہت سے نوجوان متاثر ہو رہے تھے۔ مجھے خود بھی کمیونسٹوں اور ان ادیبوں کی یہ بات پسند تھی کہ وہ صدق دلی سے امنِ عالم، مساوات اور فرقہ وارانہ یکجہتی کے لئے آواز اٹھاتے ہیں، جس کا ابتدائی درس میں نے قران شریف میں پڑھا تھا اور بعد میں اقبال کی نظموں میں اس کی تفسیر دیکھی تھی۔ جب انہوں نے لکھا تھا:

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

ان انقلابی رہنمائوں اور ادیبوں کا ، جن کا میں بھی ایک ادنیٰ پیروکار تھا، طریقہء کار خود ان کے اور قوم کے لئے کتنا نقصان دہ تھا اس کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب ملک میں ، جہاں تک میرا خیال ہے، کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کی تعداد اسّی ہزار سے گھٹ کربیس ہزار رہ گئی۔ صرف بی۔ٹی۔رندیوے کے ایک فارمولیشن کی وجہ سے کہ اب ملک میں سرمایہ داری کے خلاف اشتراکی انقلاب کی ضرورت ہے۔ سن پچاس میںجب آنکھیں کھلیں اور غلطی کا احساس ہوا تو بی ٹی رندیوے کو جنرل سکریٹری کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان غلطیوں کے بارے میں لمبی بحث چھڑ گئی ۔ انجام کار اجے گھوش کو جنرل سکریٹری بنادیا گیا اور مزدور طبقہ کی رہنمائی میں اشتراکی انقلاب کے خواب کو ترک کر کے، جمہوری پرامن انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ تلنگانہ (حیدرآباد) میں مسلح تحریک کو چھوڑ کر سارے ملک میں انتخابات کا راستہ اختیار کیا گیا۔اور تب ہزاروں کمیونسٹ اور ان کے ہمدرد جو جیلوں میں بند تھے یا روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے منظرِ عام پر آنے لگے۔ ۱۹۵۲ء میں میرے ایک ملاقاتی بابو لال ورما لکھنئو میں ترقی پسندوں کی طرف سے اسمبلی کا الکشن لڑ رہے تھے۔ کانگریس سے ان کا مقابلہ تھا۔ جیتنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ بس چاہتے تھے کہ اس بہانے اپنا اور اپنی پارٹی کا کچھ پرچار کر لیں۔ میں پنجابی ٹولے کے پارک والے پولنگ اسٹیشن پر ان کا نمائندہ تھا۔ وزیر حسن عابدی اور ان کی بیگم بھی وہیں پر بابو لال ورما کے لئے کام کر رہے تھے۔ میری والدہ کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کمیونسٹوں کو وہ ویسے بھی لا دین سمجھتی تھیں۔ مگر جب میں نے انہیں سمجھایا کہ بابو لال ورما غریبوں کے نمائندہ ہیں اور نہایت ہی درد مند اور شریف انسان ہیں، تو وہ ؎ برقہ اوڑھ کر محلّے کے ہر مسلم گھرمیں پہنچ گئیں اور خواتین کو لا کر بابو لال ورما کے لئے ووٹ دلوا دئے۔ الکشن میں بابو لال ورما کی ضمانت ضبط ہو گئی ۔ مگر اس پولنگ بوتھ پر ان کے ووٹ سب سے زیادہ تھے۔ وہیں پر جب میری والدہ نے وزیر حسن عابدی اور ان کی بیگم کو دیکھا تو حیران رہ گئیں اور ووٹنگ کے بعد دیر تک شکایت کرتی رہیں: ’’ آپ نے خوب مجھے غلط فہمی میں رکھا۔‘‘ ۱۹۵۹ء کی گرمیوں میں میں اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد بننے بھائی (سجّاد ظہیر) کے ساتھ مل کر ہفتہ وار عوامی دور کو نکالنے کے لئے دلّی چلا گیا اور وہاں پر دو برس عوامی دور کا نائب مدیر اور پروگریسیو رائٹرس ایسوسی ایشن دہلی کا جنرل سکریٹری رہنے کے بعد جرمنی چلا آیا۔ یہاں آنے کے بعد جب بھی لکھنئو جانا ہوا، پنجابی ٹولہ ضرور گیا۔ بچپن کی یادیں تازہ
ہو جاتی تھیں۔ ۱۹۶۸ء میں جب میں اپنی اہلیہ انگرڈ اور ڈھائی سالہ بیٹی نرگ کو لے کر لکھنئو گیا اور چکبست روڈ پر اپنے چچا کے ساتھ قیام کیا، تو میری والدہ نے احاطہ عبدالسلام میں انگرڈ کو متعارف کرانے کے لئے کئی سو خواتین کی ایک بڑی تقریب کی اوراسے زبردستی قیمتی لباس اور زیورات سے لاد کر منہ دکھائی کی رسم ادا کی۔ اب بھی جب ہم لکھنئو جاتے ہیں اورپنجابی ٹولے میںقدم رکھتے ہیں تو میری اہلیہ اور بیٹی کو دیکھنے کے لئے احاطہ عبدالسلام سے ملے ہوئے گھروں اور کوٹھریوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ والدہ کی آرزو تھی کہ میں ان کی پسند کی لڑکی سے ہندوستان میں شادی کروں۔ مگر بعد میں میری اہلیہ کو، جو جرمن ہیں، جتنی گرمجوشی اور محبت سے انہوں نے قبول کیا، اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ مجھے یاد ہے۔ ایک بار چارباغ ریلوے اسٹیشن پر جب ہم رخصت ہو رہے تھے تو وہ انگرڈ کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔ یہاں تک کہ انگرڈ بھی بے تحاشہ رو پڑی تھی۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء میں جب میرا جرمن داماد عالمی کیرم چیمپین شپ میں حصّہ لینے کے لئے دہلی گیا اور اس کے بعد میری والدہ سے لکھنئو جا کر پنجابی ٹولے میںملا تو اس وقت بھی انہوں نے نہایت وارفتگی اورشفقت سے اسے گلے لگا کر دعائیں دیں۔ بعد میں صرف اتنی شکایت کی تھی کہ دونوں بس ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے رہے۔ نہ وہ کچھ کہہ پاتی تھیں نا ہی وہ ۔ دونوں ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔

میری والدہ نے اپنی زندگی کے آخری برس سخت اذیت میں گزارے۔ ایک بار رکشا سے گر کر زخمی ہو گئیں۔ کئی بار اپنے گھر کے دالان میں گر پڑیں۔ ان کے کولھے کی ہڈّی ٹوٹ گئی۔ اٹھنے بیٹھنے سے معزور ہو گئیں۔ کئی بار آپریشن کی نوعیت آگئی۔ ایک بار آپریشن اس لئے نہیں ہو سکا کہ ہڑتال چل رہی تھی۔ ایک باربازار میں خون مہیا نہیں تھا۔ ایک بارکافی دن اسپتال میں رہنے کے بعد بغیر آپریشن گھر واپس لوٹنا پڑا کیونکہ وہ آپریشن کے لئے بہت کمزور تھیں۔ آنکھوں کا آپریشن بھی کرانا پڑا مگر نظر پھر بھی کمزور رہی۔ میں چاہتا تھا کہ انہیں اپنے پاس جرمنی میں بلا لوں، مگر ڈرتا تھا کہ یہاں ان کی زندگی اور گھٹ جائے گی۔ وہ بغیر پان اور تمباکو کے نہیں رہ پائیں گی۔ لکھنئو میں دن بھر پڑوسنیں اور رشتے دار عورتیں انھیں دیکھنے آتی ہیں۔ وہ ان میں بہلی رہتی ہیں۔ میری خالہ ’منی باجی‘، خالہ زاد بہن نکہت، خالہ زاد بھائی جاوید اور اس کی بیوی اور بچّے ان کے پاس ہیں۔ یہاں میں دن بھر کام پر رہوں گا۔ میری اہلیہ بھی کام پر رہے گی۔ نرگس اسکول میں ہو گی۔ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ وہ گھٹ کر رہ جائیں گی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں۔ عجب کشمکش کی حالت تھی۔

چند برس قبل میں ان سے ملنے کے لئے لکھنئو گیا، یہ سوچ کر کہ شاید وہ جرمنی آنے کے لئے راضی ہو جائیں۔ مگر معلوم ہوا کہ ان کے سینے میں کینسر ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ اس عمر میں آپریشن کرانا مناسب نہیں ہوگا۔ ان کی عمر اس وقت اسّی برس سے اوپر تھی۔ میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے زیادہ عرصہ وہاں نہیں ٹھہرسکتا تھا۔اس لئے لوٹنا پڑا۔لیکن کسی پل چین نہیں تھا۔ان کا چہرہ، ان کی وارفتگی، آنسوئوں سے بھیگی آنکھیں اور دعائیں یاد آ جاتی تھیں۔

نکہت اکثر مجھے فون پر ان کی حالت سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔مگر وہ روتی زیادہ اور بتاتی کم تھی۔اور یہ بات میرے لئےاور زیادہ ذہنی تکلیف کا باعث ہوتی تھی۔ جب بھی اس کا فون آتا مجھے الجھن ہونے لگتی۔ برلن میں میں نے اپنے ایک قریبی دوست ڈاکٹر قادری اور چند دیگر ڈاکٹروں سے مشورہ کیا۔ ان کو والدہ کی میڈیکل رپورٹ دکھائی۔ مگر سب کی رائے یہی تھی کہ اس حالت میں ان کو یہاں لانا ان کے لئے اور زیادہ مضر ہوگا۔

ایک دن میری چچا زاد بہن صبیحہ نے فون پر بتایا کہ ان کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے۔ کوئی امید نہیں رہی ہے۔ برلن میں میرے بعض دوستوں اور اہلیہ نے زور دیا کہ میں سب کام چھوڑ کر فوراً والدہ کو دیکھنے چلا جائوں۔ سمجھ میں نہیں ّتا تھا کہ کس طرح ان سے ملوںگا، کیا کہوں گا، کیسے تسلّی دوں گا؟ جب ہوائی جہاز ہمالیہ کے اوپر پرواز کر رہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کہہ رہی ہیں:

بیٹے تیری راہ میں اب تو آنکھیں میری سوکھ گئی ہیں

ہونٹ پہ پپڑی، جسم میں پھوڑے

سینے میں اک آگ لگی ہے

دور کہیں سے گہرے سائے

جسم کو ڈسنے آئے ہیں

آشا کا اِک دیپ جلا دو

ننہا سا اِک بول سنا دو

بیٹے تیری راہ میں اب تو آنکھیں میری سوکھ گئی ہیں

میں جب پنجابی ٹولے میں پہنچا تو والدہ ایک تخت پر لیٹی کرّاہ رہی تھیں۔ ڈاکٹر نے انہیں نرم بستر پر
لیٹنے سے منع کیا تھا۔ گلوکوز کی بوتل لگی تھی۔ کئی عورتیں ان کے ارد گرد جمع تھیں۔ انہوں نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور رونے لگیں۔ پھر دعائیں دینے لگیں، مجھے، میری اہلیہ اور بیٹی کو اور نواسی کو۔ اٹکتی ہوئی آواز میں کہنے لگیں: ’’میرے بعد منی اور نکہت کا خیال رکھنا۔ قران خوانی کروا دینا۔‘‘ کبھی ایک جملہ کہتیں اور پھر آنکھیں بند کر لیتیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد کچھ اور کہنے کی کوشش کرتیں۔ کبھی ہاتھ دباکر پوچھتیں: ’’ کروگے؟‘‘ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کس بات کا وعدہ
لے رہی ہیں۔ مگر میں ہاں ہاںکرتا رہتا۔ حالانکہ آج بھی نہیں جانتا ہوں کہ کن کن باتوں کے وعدے کئے تھے۔

کاش کہ ذہن کچھ اور ساتھ دے۔

انہیں سٹی اسٹیشن کے قریب ایک اسپتال میں پرائیویٹ کمرہ لے کر داخل کر دیا گیا۔ یہ کینسر کے مریضوں کے لئے خاص اسپتال تھا۔ روز بازار سے منگوا کر انہیں خون چڑھوایا جانے لگا۔ کبھی کبھی بازار میں بھی خون آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا تھا۔ میں صبیحہ کے گھر پر علی گنج میں ہی رہتا تھا اور دن میں والدہ کے پاس اسپتال میں رہتا تھا۔ ایک دن جب میں اسپتال پہنچا تو والدہ وہاں نہیں تھیں۔ معلوم ہوا کہ انہیں گھر بھیج دیا گیا ہے۔ بغیر مجھے بتائے۔ میری حیرت اور غصّے کی انتہا نہ تھی۔ میں نے اپنے ایک پرانے دوست وکرم رائو کو جو آل انڈیا ورکنگ جرنلسٹ فیڈریشن کے صدر تھے فون کیا۔ ان کی بیگم خود ڈاکٹر تھیں۔ وہ بھاگی ہوئی آئیں اور اسپتال کے ڈاکٹرکو بہت جھاڑا۔ چنانچہ
میری والدہ کو پھر سے اسپتال میں بھرتی کر لیا گیا۔ وکرم رائو اور ان کی بیگم کے خلوص و ہمدردی کو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔

ایک دن صبیحہ بولی: ’’ بھائی جان، آج رات آپ دولھن چچی کے پاس اسپتال میں ہی رہئے۔‘‘ وہ رات قیامت کی رات تھی۔والدہ درد سے تڑپ رہی تھیں۔ ’’ الجھن ہو رہی ہے۔ سر اونچا کرو۔ اوپر
اُٹھائو۔‘‘ وہ مجھ سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھیں۔ بہت سی نصیحتیں۔ بہت سے وعدے، اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے۔

میں صرف ہاں ہاں کرتا جا رہا تھا۔ ان کے الفاظ سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ ایک موٹی تگڑی ادھیڑ خاتون، جو پنجابی ٹولے میں ہم لوگوں کی کرائے دار تھیں، والدہ کے قریب بیٹھی قران شریف پڑھ رہی تھیں اور بار بار ان کا سر اونچا کرتی رہتی تھیں۔اچانک زور کا دھماکا ہوا۔ وہ خاتون فرش پر پڑی تھیں۔ان کی کرسی الٹ گئی تھی۔ اس سے قبل کہ میں انہیں سہارا دوں وہ خود ہی اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ اپنا سر پھر سے ڈھانپ لیا اور تلاوت پھر شروع کر دی۔ حالانکہ وہ نیند سے چور تھیں۔ بے لوث خدمت کی یہ بہترین مثال تھی۔ صبح ہوتے ہی سلمہ، صبیحہ، منی باجی اور پنجابی ٹولے کی بہت سی خواتین والدہ کے پلنگ کے اردگرد جمع تھیں اور یاسین شریف پڑھ رہی تھیں۔ نکہت، جس نے ان کی سب سے زیادہ خدمت کی تھی، پچھاڑیں کھا رہی تھی۔ جاوید، جو بچپن سے پنجابی ٹولے میں ان کے ساتھ رہا تھا زاروقطار رو رہا تھا۔ نرسیں اور ڈاکٹر بار بار آکر انہیں دیکھتے اور چلے جاتے۔ دس بجے کے قریب بڑا ڈاکٹر آیا۔ نبض دیکھی۔ آلہ لگا کر غور سے دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر دیں۔ اس وقت ان کی عمر ۸۷ برس کی تھی۔ عورتوں کی سسکیاں اور چیخیں بلند ہو گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر کہا:

’’ آپ اپنی گاڑی سے لاش کو لے جا سکتے ہیں۔ اسپتال کی گاڑی خالی نہیں ہے۔‘‘

میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا تھا:

’’آپ لوگ انسان ہیں یا قسائی؟ ڈاکٹر یا لٹیرے؟ آپ کو بندو بست کرنا ہوگا۔‘‘ میں برس پڑا۔ سب لوگ
پریشان تھے کہ کیسے لیجایا جائے۔ طرح طرح کے مشورے دئے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر میرے پاس آیا:

’’ گاڑی کا بندوبست کر دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ ہماری ذمے داری نہیں ہے۔‘‘

معاشرہ کا اصلی چہرہ میرے سامنے آگیا۔

اسی دن تیسرے پہر کو جب میں اور جاوید انہیں عیش باغ کے قبرستان میں قبر میں اتار رہے
تھے، تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہیں۔ان کی وفات کے بعد محلّے کے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ وہ ان کی مدد کرتی تھیں۔ جس کا انہوں نے مجھ سے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ بہر حال احاطہ عبدالسلام اس روز سوگواروں سے بھرا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ جائداد کے سلسلہ میں خاندان میں جو اختلافات پیدا ہو گئے ہیںوہ کسی طرح سے ختم ہو جائیں اور احاطے میں سکون قائم ہو جائے۔ چنانچہ میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے ماموئوں اور اپنی خالہ سے کیا۔ سب نے اسے پسند کیا اور کہا کہ میں اقبال احمد وکیل سے(جو میری چچازاد بہن فریدہ مرحومہ کے شوہر ہیں) مشورہ کروں۔ چنانچہ
سب کی مرضی سے اقبال صاحب کو ثالث بنا کر ایک معاہدہ اتفاق رائے سے تیار کیا گیا، جس پر سب نے دستخط کر دئے۔ معاہدے کی رو سے جائداد تو مشترکہ رہے گی، کیونکہ وصیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن انتظامی طور پر اس کے حصّے کردئے گئے تھے اور ہر حصّہ دار اپنے حصّے کے انتظام اور آمدنی کا مختارہے۔ کون کس گھر میں رہے گا، اس کا بھی فیصلہ ہو گیا تھا۔ غرضیکہ اب تنازعہ کا کوئی جواز نہیں رہ گیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد میری اہلیہ اپنی سات سالہ نواسی یاسمین کو لے کر لکھنئو پہنچ گئی اور میری چچازاد بہن سلمہ کے گھر پر علی گنج میں قیام کیا۔ وہ جب بھی پنجابی ٹولے میں میری خالہ سے ملنے جاتی، سب گھروں کے بچّے احاطہ عبدالسلام میں اکٹھا ہو جاتے اور یاسمین کے ساتھ مل کر کھیلنے اور شور مچانے لگتے۔ یاسمین بھی ان میں اس قدر گھل مل گئی تھی اور اتنی آزادی محسوس کر رہی تھی کہ اسے لکھنئو میں اور کہیں اتنا اچھا نہیں لگتا تھا۔
دو برس بعد جب میں لکھنئو پہنچا تو معلوم ہوا کہ خاندانی جھگڑے پھر ابھر آئے ہیں۔ سگے بھائیوں میں مقدمہ بازی کی نوبت آگئی ہے۔ جس سے ملنے جاتا دوسرے کی برائی کرتا۔ احاطہ کی حالت دگرگوں ہوتی جا رہی تھی۔ پنجابی ٹولے کی خاندانی مسجد جس کے لئے وقف نامہ میں لکھا تھا کہ اس کا خرچہ جائداد کی آمدنی سے پورا کیا جائے گا، بے پرسان و بے حال پڑی تھی۔ اور اس بار جب میں وہاں پہنچا تو احاطہ عبدالسلام کی حالت اور زیادہ افسوسناک نظر آئی۔اس میں حدبندیاں کر دی گئی ہیں۔

میری خالہ کہہ رہی تھیں:

’’بندر اب کمروں کے اندر آنے لگے ہیں۔‘‘

’’ تو آپ نے کتا کس لئے پالا ہے؟‘‘ میں نے تفریح لی۔

’’ ارے وہ کتّے کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چیزیں اٹھا لے جاتے ہیں۔ برتن توڑ دیتے ہیں۔‘‘ اور نکہت کہہ رہی تھی:

بھائی جان وکیل صاحب سے کہہ کر جائداد بکوا دیجئے۔ جان چھوٹے۔ ڈرتی ہوں کسی دن چھت نہ گر پڑے۔

میں نے اقبال صاحب (وکیل) سے رائے لی: ’’مجھے اس جائداد میں سے کچھ نہیں چاہئیے۔ کیا اسے فروخت نہیں کرسکتے؟ آپسی جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔‘‘ ’’جائداد وقف ہے۔‘‘ ان کا جواب دو ٹوک تھا۔ ’’ہاں اگر سب حصّہ دار رضامند ہو جائیں تومل کر درخواست دی جا سکتی ہے۔‘‘

مگروہاں لوگ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار تھے۔ مل کر درخواست دینے کا سوال ہی کیا۔

پنجابی ٹولہ اور احاطہ عبدالسلام کی حالت اور زیادہ دگر گوں ہو گئی ہے۔ مکانات کھنڈھروں میں تبدیل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بہت سے کرایہ داروں نے کرایے بند کر دئے ہیں۔ احاطہ کی ڈیوڑھی میں پڑی چارپائی ہر بیٹھی عورتوں اور بچّوں کی تعداد اور بڑھ گئی ہے۔ اپنے گھر تک پہنچنے کے لئے بھی ان کی چارپائیوں سے کترا کر گزرنا پڑتا ہے۔ کھجوا نامی مقام پر جو خاندانی قبرستان تھا وہاں اب کمہاروں کے گھر بن گئے ہیں پنجابی ٹولے کی گلیوں میں غلاظت اور ملبے کے ڈھیر بڑھ گئے ہیں۔ آس پاس کے محلّوں رستوگی ٹولہ اور راجہ بازار میں جہاں پتلی پتلی گلیوں کے دونوں طرف
رستوگیوں اور مہاجنوں کی کوٹھیاں ہیں، ان کے سروں پر لوہے کے پھاٹک کھڑے کر دئے گئے ہیں۔ داتاشاہ کا تکیہ ، فینس والی گلی۔ آغامیر کی ڈیوڑھی اور سٹی اسٹیشن کے پاس غلاظت بڑھتی جا رہی ہے۔ فٹ پاتھ پر چلنے کی جگہ نہیں رہی ہے۔ ہاں سٹی اسٹیشن کے پُل کے نیچے اب کوڑھی فقیر نظر نہیں آتے اور تاڑی کی بدبو بھی وہاں محسوس نہیں ہوتی۔ البتّہ رکاب گنج کی منڈی میں سبزیوں کی سڑاند اور لال سوکھی مرچوں کی دھانس بڑھ گئی ہے۔پنجابی ٹولے کی گلی سے فینس والی گلی میں ہوتے ہوئے جب ہم رام مندر کے پاس سڑک پر نکلتے ہیں تو وہاں بے شمار رکشے انتظار کر رہے
ہوتے ہیں۔ ان تک پہنچنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ فٹ پاتھ پر آسانی سے اس لئے نہیں چل سکتے کہ وہ دُکانوں سے بھری ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ملک اتنا ترقی کر چکا ہے۔ قومی برتری کے نشے سے سرشار ہماری ناک لمبی ہوتی جارہی ہے۔ ہم لکھنئو کی تہذیب کے گن گاتے ہیں ، مگر اس کے جسم میں پھیلتے ہوئے ناسوروں کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ شایدغلاظت،بدحالی ، غربت و افلاس کو دیکھتے دیکھتے ہم عادی ہوتے جارہے ہیںہمارے ضمیر مردہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی لئے تو پرانے لکھنئو میں اگر کسی خاندان کا کوئی لڑکا پڑھ لکھ کر ڈگری حاصل کر لیتا ہے یا اس کا باپ تجارت سے دولت کما لیتا ہے، تو وہ اندرا نگر ، گومتی نگر یا شہر کے اور کسی نئے علاقے میں اپنی کوٹھی تعمیر کروا کر وہیںبس جاتا ہے۔ اپنے آبائی محلّے اور گھر کو بھول کر۔ سیاسی لیڈر بھی ووٹ مانگنے کے لئے گھر گھر جاتے ہیں۔ طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں۔ سبز باغ دکھاتے ہیں۔ مگر محّلے کی حالت کو سدھارنے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ گندی نالیاں اور ملبے کے ڈھیر بھی انہیں نظر نہیں آتے۔

میں اس روز پنجابی ٹولے میں زیادہ دیر نہ ٹھہرا۔ احاطہ سے باہر نکل کر مسجد پر نظر ڈالی ، جہاں بچپن میں نانا کے ساتھ نماز پڑھنے جایا کرتا تھا اور کبھی کبھی اس کے گنبد پر چڑھ کر پتنگیں اور ڈوریں لوٹتا تھا۔ وہ اب محلّے والوں کے چندوں سے چل رہی تھی۔ پھر پارک میں جا کر شیر علی شاہ کے مزار پر فاتحہ پڑھی اور آس پاس کے مکانوں کو حسرت سے دیکھتا ہوا اور احاطہ حافظ عبدالسلام کے پھاٹک کے سامنے سے ایک بار پھر گزرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ جس وقت میں اس گلی میں پہنچا جو ایک طرف راجہ بازار اور دوسری طرف فینس والی گلی کو لے جاتی تھی، تو مجھے وہ دُبلا پتلا ناٹا سا بنیا پھر نظر آیا، جو اپنی دُکان سے ایک پیر نیچے لٹکائے ہوئے بیٹھا تھا اور اس کے نیچے نالی میں گندا پانی بہہ رہا تھا۔ سامنے گلی کے دوسرے کنارے پر اپنی دُ کان میں بیٹھی ہوئی ملائی والی کہہ رہی تھی :

’’ پھر آنا۔ ابکی بہو اور بچّوں کو لے کر آنا۔۔۔‘‘

اور پھر اس نے ایک سکوری میں ملائی نکال کر میرے سامنے بڑھادی :

’’ بٹاوا کے لئے لیتے جائو!‘‘

(عارف نقوی کی کتاب یادوں کے چراغ سے)

عارف نقوی

لکھنئو ستمبر ۲۰۰۲ء

Rudolf-Seiffert-Str. 58

10369 Berlin

Phone: 0049-30-9725036

Mobile: 0049-17639423087