نئی دہلی : جو لوگ منافرت پھیلاتے اور مذہب کے نام پر نفرت کی سوداگری کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے بھی وفادارنہیں ہوسکتے اس لئے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت اور مذہب کی بنیادپر کئے جانے والے تشددکی اجازت نہیں دیتا ، ہرمذہب میں امن ،آتشی، یکجہتی اور محبت کا پیغام موجودہے ، جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے رام لیلامیدان میں جمعیۃاہل حدیث کی جانب سے منعقدچوتینسویں کل ہند کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران یہ باتیں کہیں ، انہوں نے پرعزم لہجہ میں کہ بھی کہا کہ ملک کو ہندوراشٹربنانے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ،اس کی دلیل کے طورپر مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے مذہب کے نام پر لوگوں کے ذہنوں میں منافرت اور مذہبی جنون پیداکرنے کی ہر سطح پر سازشیں ہورہی ہیں مگر میں پورے دعویٰ کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے اور وہ امن ، محبت اور خیر سگالی کے جذبے کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اکثریت نے کئی موقع پر یہ ثابت بھی کیا ہے ، انہوں نے مثال دی جب اخلاق کا بے رحمانہ قتل ہوا تو احتجاج میں ملک بھرکے سیکڑوں دانشووروں اور ادیبوں نے حکومت کو اپنا ایوارڈ واپس کردیا ان ایوارڈ واپس کرنے والوں کا تعلق اکثریت سے تھا ،انہوں نے ایک بار پھر زوردیکرکہا کہ مختلف مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی علامتوں اور تشخص کے ساتھ دستورکے تحت ہی زندہ رہ سکتے ہیں ، اس لئے ملک کے دستور اور سیکولرزم کے تحفظ کے لئے ہم اپنی آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ مولانامدنی نے کہا کہ آج ملک بھر میں ایک کرب ، گھٹن اور خوف وہراس کا ماحول ہے ، ملک میں فرقہ پرستی کا ایسا ننگا ناچ پہلے کبھی نہیں ہوا ، حالات اس وقت جس قدرتشویشناک ہیں ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ، ملک پوری طرح فسطائیت کی گرفت میں چلاگیا ہے ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں سکولرزم اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی سیاسی ، سماجی ،تنظیمیں اور دیگر ادارے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف متحدہوکر ان کے ناپاک عزائم کوناکام کردیں کیونکہ اگرملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور عدل وانصاف سے کام نہیں لیا جائے گا ، تو ملک کا شیرازہ منتشرہوجائے گا جو اکثریت واقلیت کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کے لئے بھی تباہ کن ہوگا ،مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے ملک کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کے جو حسین خواب دیکھے تھے آج فرقہ پرست لوگوں نے اپنی کم نظری اور متعصبانہ سوچ اور عمل کے ذریعہ چکنا چور کرنا شروع کردیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ اوربالخصوس مسلمان ، عیسائی اور دیگر اقلیتیں نیز دلت طبقات ترقی کے ثمرات سے بڑی حدتک محروم ہیں ۔

خطاب کے بعد کانفرنس میں موجوداخباری نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ آج پورا ملک عدم رواداری کے ماحول سے لرزرہا ہے اس کے خلاف اہل علم اور دیگر طبقات صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں لیکن ارباب اقتدارکے کانوں پر جون تک نہیں رینگ رہی ہے مسجدوں اور گرجاگھروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تحریک آزادی میں ہم کرداراداکرنے والے مدارس کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے ، گؤکشی کے جھوٹے الزامات کے تحت مسلمانوں اور دلتوں کو گرفتاراور پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جارہا ہے ، اقتدارپر فائز لوگ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں دیے رہے ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان مٹھی بھر فرقہ پرستوں نے خلیج پیداکردی ہے ، برسراقتدارپارٹی سے تعلق رکھنے والے لیڈراور منتخب نمائندے اور وزراتک ایسی زبان استعمال کررہے ہیں کہ ملک میں نفرت کا ماحول بڑھتا ہی جارہا ہے ایک طرح سے مسلمانوں ، عیسائیوں ، اور دیگر اقلیتوں نیز دلتوں کے صبروضبط کا امتحان لیا جارہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

ایک صحافی کے ذریعہ پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا مقصدکسی بھی پارٹی کو ٹارگیٹ کرنا نہیں ہے فرقہ پرستی کسی سیاسی جماعت میں ہو یا کسی بھی مذہب کے ماننے والوں میں ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور ایسی سیاست کو قطعی قبول نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ ہم یہ بات مسلسل کہتے آئے ہیں کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ فرقہ پرستی سے نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا واضح موقف ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور آئین نے تمام مذاہب کے لوگوں کواپنے مذہب کے طورطریقہ کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی دی ہے ایسے میں سب کے لئے یکساں قانون یعنی یکساں سول کوڈ کا کیا جواز ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آزادی سے قبل جو حکمت عملی مسلم لیگ کی تھی وہی حکمت عملی آج فرقہ پرست طاقتوں کی بھی ہے ، یہ بھی مذہب کے نام پر ہندووں کو ورغلاکر اپنی سیاسی عزائم پورے کرناچاہتی ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند ملک کے ہر باشندوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے جھوٹے اور گمراہ کن پروپگنڈوں کے دام میں نہ آئیں اور ملک کے ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا اپنا کردار اداکریں ، نیز اپنے آباء اجداد کی قدیم روایت کو نہ چھوڑیں ، جمیۃعلماء ہند اس موقع پر ان تمام سیاسی جماعتوں سماجی تنظیموں اور اداروں سے بھی پرزوراپیل کرتی ہے کہ جو ملک میں قانون اور سیکولرزم پر یقین رکھتے ہیں، وہ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے خلاف متحد ہوجائیں اور فرقہ پرست طاقتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام کردیں ۔

فرقہ پرستی اور موجودہ حالات کے تناظر میں پوچھے جانے والے ایک سوال پر مولانا رشدمدنی نے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد فوراً بعد ایک طاقت ابھری تھی جو ملک کو ہندوراشٹربناناچاہتی تھی لیکن جمعیۃعلماء ہند کے اکابرسامنے آگئے اور اس وقت کی کانگریس قیادت سے کہا کہ ہم سے سیکولردستورکے جو وعدے کئے گئے تھے ان کو پوراکرو، اگرملک کی تقسیم ہوئی ہے تواس پر تم لوگوں نے دستخط کئے ہیں ہم نے نہیں ، ہم کل بھی تقسیم کے مخالف تھے اور آج بھی ہیں ، ہماری بات میں اتنا وزن تھا جس کے سامنے کانگریس کی قیادت جھکی اور ملک کو سیکولر دستورمیسرہوا ، جو ہراقلیت کے لئے خداکی رحمت ہے ۔