ممبئی : صدر جمعیۃ علماء اترپر دیش مولانا سید اشہد رشیدی کی ایماء پر آفس سکریٹری مولانا محمد غفران صاحب قاسمیؔ اور جمعیۃ علماء شہر کانپور کے صدر وریاستی سکریٹری جناب حافظ عبدالقدوس صاحب ہادیؔ کی سربراہی میں برادران وطن کے ہمراہ یوپی جمعیۃ کے ایک مؤقر وفد نے کاس گنج کا دورہ کیا، موٹر سائیکلوں کے ذریعہ سے وفد کے ارکان گنجان آبادی والے شہر کے گلی، کوچے میں پہنچے اور معززین شہر ودیگر متأثرین سے ملاقاتیں کرکے صحیح صورت حال معلوم کی، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کاس گنج کا فساد منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو نشانہ بنا کر انجام دیا گیا ہے، شرپسند عناصر عبدالحمید چوک پر جو مسلم محلہ میں واقع ہے 15 اگست اور 26 جنوری کے حوالے سے مسلم نوجوانوں کو کسی طرح کی تقریب گذشتہ تین سالوں سے منعقد نہیں کرنے دینا چاہتے تھے، مگر مسلمان عزم وہمت اور صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے وطن سے محبت کا اظہار کرنے میں ہرگز پیچھے نہیں رہے، گذشتہ 26 جنوری 2018 کو بھی یہی ہوا۔ بھگوا دہشت گردوں نے عبدالحمید چوک پر لگے ترنگے کو اٹھا کر بھگوا جھنڈا لگا دیا اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے، جس سے فساد بھڑک اٹھا، اس فساد کی ذمہ داری جتنی شرپسند عناصر کی ہے اتنی ہی ذمہ دارضلع انتظامیہ بھی ہے، جس نے فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دے کر ماحول کو خراب کرنے میں گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی پولیس متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے، چنانچہ پولیس نے ۲۶؍ افراد کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے اور وہ سب کے سب مسلمان ہیں، شرپسندوں میں سے جو بھی گرفتار ہوئے ہیں ان کے خلاف صرف دفعہ: 151 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی 24 گھنٹے کے اندر ضمانت ہوگئی اور مسلمانوں پر چونکہ دفعہ: 302 لگائی ہے ، اس لئے وہ ابھی تک جیلوں میں بند ہیں۔

سروے رپورٹ میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ چندن گپتا کو گولی اس کے ہی کسی ساتھی نے ماری ہے، محمد سلیم نے اس پر گولی نہیں چلائی ہے؛ کیونکہ پولیس کی رپورٹ کے مطابق اس پر گولی 60 میٹر کی دوری سے چلائی گئی ہے اور پولیس نے محمد سلیم کے خلاف جس اسلحہ کے پاس ہونے کا تذکرہ کیا ہے اس کی مار کل 20 میٹر ہے، اسی وجہ سے سابق آئی جی لکھنؤ، آر ایس دارا پوری کی رپورٹ میں بھی یہی بات کہی گئی ہے، گویا سلیم اور اس کے بھائیوں پر چندن گپتا کے قتل کا جھوٹا الزام لگا کر پولیس اصل قاتلوں کو بچانا چاہتی ہے۔

سروے رپورٹ سے اس بات کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ شرپسندوں نے پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کی دوکانوں کو چن چن کر نذر آتش کیا اور پولیس کھڑی تماشائی بنی رہی؛ اس لئے جمعیۃ علماء اترپردیش یہ مطالبہ کرتی ہے کہ:(۱) کاس گنج فساد کی جلد از جلد غیر جانبدارانہ جانچ کرائی جائے۔(۲) شرپسندوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔(۳) محض مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی نہ کی جائے۔(۴) نقصان اٹھانے والوں کو بھر پور معاوضہ دیا جائے۔

جمعیۃ علماء یہ سمجھتی ہے کہ کاس گنج کا فساد در حقیقت ملک کی جمہوریت پر ایک حملہ تھا اور شر پسندوں کی طرف سے یہ اظہار تھا کہ ملک پر صرف ہمارا ہی حق ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت پر تحفظ فراہم کرے اور ملک کے سیکولر کردار کو پروان چڑھائے۔

جمعیۃ علماء اترپردیش کاس گنج کے فساد زدہ لوگوں کو مالی تعاون کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر مفت قانونی امداد بھی فراہم کرے گی۔ وفد کے شرکاء کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:جناب سردار سنجیت جی کانپور، جناب دھنی راؤ پنتھر جی کانپور، جناب پادری انل گلورڈ، مفتی ریاض صاحب کانپور، مولانا ثناء الدین فرخ آباد، مفتی محمد سلیم فرخ آباد وغیرہ ۔