رضوان احمد فاروقی

ساری زندگی ہم ایسا ادب تخلیق کرتے ہیں جو عوام کی پسند کی کسوٹی پر پورا اُترے، خواص کا قرب نصیب ہو، اکیڈمیوں سے انعام و اکرام کی بارش ہو اور بینک بیلنس میں اضافہ ہو۔۔۔۔۔مستقل کو خوش گوار بنانے کی اس کوشش میںہمیں خیال ہی نہیں رہتا کہ بالآخر وہ لمحہ آہی جائے گا کہ جب نیرِنگی حیات کے سارے سلسلے منقطع ہو جائیں گے۔ خاکی جسم کو خاک کے حوالے کر کے اعزۂ و اقارب اپنی اپنی راہ لیں گے۔ ایسے میں اسٹیج کی چکا چوند، خواص کا قرب اور عوامی مقبولیت ، کچھ بھی کام نہ آئے گا۔ کام وہی کچھ آئے گا جو ہم اپنے مالک کی رضا اور خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ پھر یہ لب ورخسار کے قصے، یہ ہجر و وصال کی باتیں۔ یہ خوشنما کہانیاں ہر گز کام نہ آئیں گی۔ تبھی احساس ہوگا کہ کاش ہم نے آخرت کی فکر کی ہوتی، سیرت سرکارؐ اور کردار صحابہؓ کے مطابق زندگی بسر کی ہوتی۔ گل و بلبل اور لب و رخسار کی باتوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے وہ شاعری کی ہوتی جو حسان بن ثابتؓ، عبدا للہ بن رواحہؓ، کب بن مالکؓ اور زہیر بن ابی سلمیؓ نے کی اور سر خرو ہوئے۔

مقام فرحت وانبساط ہے کہ محترم انور جلال پوری نے منصبی امورکی انجام دہی، اسٹیج کی ضرورتوں کی تکمیل، شخصی مضامین اور دیگر مصروفیات کے ساتھ خاموشی مگر سنجیدگی و دلجمعی سے وہ شاعری بھی کی جس سے آخرت سنورتی ہے، خدا کی رضا اور اُس کے محبوب کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ انورؔ صاحب نے نہ صرف حمد ونعت ومنقبت کہہ کر مقدر سنوارنے کی کوشش میں اپنے قلم کو رواں دواں رکھا۔ سیرتِ سرورِ عالمؐ پر ایک طویل نظم تحریر کی بلکہ ان کے مقرب ترین اصحابؓ پر باقاعدہ منظوم تاثرات رقم کئے۔

کہا اور لکھا جا سکتا ہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر کام تو پہلے بھی ہوا ہے۔ مومن خان مومنؔ سے لے کر حفیظؔ جالندھری، اقبال سہیلؔ، اثر ؔزبیری، ضیائؔ لکھنوی اور رشیدؔ قمر لکھنوی تک ایک طویل فہرست ہے۔ مگر جس باقاعدگی ، تسلسل اور نظم و ضبط کی ضرورت تھی اُس کا فقدان رہا۔ نتیجتاً جس معیار کا اور جتنا کام ہونا چاہئے تھا نہ ہو سکا۔

لکھنؤ میں مجدد دِوقت مولانا عبد الشکور فاروقیؓ کی قیادت میں تحریک مدح صحابہؓ نے زور پکڑا تو نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ ہر شاعر نے جز وِ نعت کے طور پر ۴؍مصرعے عظمتِ صحابہؓ میں ضرور کہے۔ آس پاس کے اضلاع میں بھی اس تبدیلی کے اثرات نمودار ہوئے۔ وہاں بھی سیرت النبیؐ کے اجلاس میں علماء کے ہمراہ شعراء نے شرکت کی اور نعت میں مدحِ صحابہؓ کو لازم جانا گیا۔ مگر باقاعدگی اور منصوبہ بندی سے خلفائے راشدین کی حیاتِ مبارکہ، ان کے مثالی فیصلوں اور کارہائے نمایاں کواُجاگر نہ کیا گیا۔ رثائی ادب پہ جس باقاعدگی اور منصوبہ بندی سے کام کیا گیا، خلفائے راشدینؓ پر اس اہتمام اور فراخدلی سے کام نہ کیا جا سکا۔ کربلائی استعارات غزل میں مستعمل ہوکر ادب کا حصہ بن گئے لیکن خلفائے راشدینؓ کی عظمت و رفعت ، اولوالعزمی،جو دوسخا اور جاں نثاری کو غزل یا ادب کا حصہ نہ بنایا جا سکا۔

تساہلی اور غفلت کے اس دھوئیں کو آسمانِ ادب سے ہٹانے کے لئے خدانے انورؔ جلالپوری صاحب کو توفیق سعید بخشی کہ وہ خلفائے راشدینؓ پر از سر نو کام کا آغاز کریں۔’’راہ رو سے رہنما تک‘‘ (سیرت خلفائے راشدینؓ) ان کی برسوں کی خاموش کوششوں کا نتیجہ ہے، جو کسی کارنامے سے کم نہیں ہے۔ اس بامقصد کتاب میں خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکرصدیقؓ پہ ۶۳ بند، خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ پر ۸۵ بند، خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ پر ۳۶ اور خلیفۂ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہ پر ۵۰؍بند ہیں۔ہر نظم بلکہ بند خوب سے خوب تر ہے۔ اشعار بقدر ضرورت ہی کہے گئے ہیں۔ اس لئے شاعر محترم پہ طوالت یا اختصار کا الزام آسانی سے عائد نہ کیا جاسکے گا۔

شاعر کی اس مستحسن کاوش کے بعد دوسرے شعراء کے لئے کام کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اب وہ بھی خلفائے راشدینؓ پر بقدر ظرف و استعداد کام کر سکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو اس کارِ مستحسن کے لئے انور جلالپوری صاحب کو ہر قدم پر مبارکباد کے پھول اور محبت و عقیدت کے نذرانے ملیں گے۔ جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ نیز خلفائے راشدینؓ پہ کام کا سلسلہ جس قدر دراز ہوگا شاعر کے مدارج و مناصب بھی اُسی قدر بلند ہوں گے اور دین و دنیا کی سعادتیں نصیب ہوں گی۔ایک مومن کو اور چاہئے بھی کیا۔؟

حضرت صدیق اکبرؓ افضل الصحابہؓ ہیں اور نہایت محترم و منظم بھی، شاعر نے اس کی معقول وجہ یوں بیان کی ہے:

ہو موقع کوئی بھی ثابت قدم صدیق اکبرؓ تھے

مصیبت میں بھی بے رنج والم صدیق اکبرؓ تھے

نبیؐ کے ساتھ با سیف و قلم صدیق اکبرؓ تھے

اسی باعث توسب سے محترم صدیق اکبرؓ تھے

جو مکّی زندگی میں کوئی بھی مشکل مقام آیا

تو اصحابِ نبیؐ کے ہونٹ پر ان کا ہی نام آیا

دیگر اوصاف وکمالات کے ساتھ حضرت صدیق اکبرؓ کا شاعر ہونا بھی نظم کے اس بند سے مترشح ہے:

وہ مکے میں بہت پہلے سے اک مشہور تاجر تھے

تجارت ان کا پیشہ تھا وہ اس پیشہ کے ماہر تھے

عرب والوں کے اوپر اُن کے سب اوصاف ظاہر تھے

بڑی شیریں تھی ان کی گفتگو وہ خود بھی شاعر تھے

فصاحت اُن پہ قرباں اور بلاغت ناز کرتی تھی

خطیب اُن پر تھے عاشق اور خطابت ناز کرتی تھی

کشتیٔ عزم میں سوار ہو کر مخالفت کے ہر طوفان کے رخ کو موڑنے کا جو حوصلہ حضرت صدیق اکبرؓ میں تھا وہ کسی اور کو کہاں میسر ؟سیرتِ صدیق اکبرؓ کے آگے بادشاہوں کا جلال شرمندہ، امراء کا سرِ غرور خم اور اپنے وقت کے سورما بھی پسینہ پوچھتے نظر آئے۔شاعر مزید کہتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس لوہے کا جگر اور موم کا دل ہے۔انھیں جانشینی کا بیشک حق ہے۔عظمتِ صدیق اکبرؓ کے لئے یہ بات بھی کافی ہے کہ آقائے نامدارؐ نے اپنی موجودگی میں انھیں منصبِ امامت سونپا اور آنکھ والوں کو پیغام دیا کہ میرے بعد صدیق اکبرؓ کا جو مرتبہ اور منصب ہے وہ کسی اور کاہرگز نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نظم کرنے میں شاعر کے قلم کی روانی از خود بڑھ جاتی ہے:

امامت دے کے آقاؐ نے زمانے کو یہ بتلایا

اسے انصاف کہتے ہیں کہ حق حقدار نے پایا

امامت دے کے پیچیدہ مسائل کو بھی سلجھایا

نبیؐ نے اس طرح لوگو کو پنہاں راز سمجھایا

اسی دن یہ سمجھ لیجئے کہ اعلانِ خلافت تھا

امامت وہ نہیں تھی بلکہ عنوانِ خلافت تھا

حضرت عمرؓکے دائرۂ اسلام میں آتے ہی آتش کدوں، بت کدوں اور گرجا گھروں میں خوف و ہراس کی بدلیاں چھا گئیں۔ کبر ونحوست کے بت ریزہ ریزہ ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھے۔ فضائے عدل و انصاف سے مساوات کی کھیتی سر سبز و شاداب ہوکر لہلہا اٹھی۔ آج دنیا مساوات کی دھنورچی بنی ہوئی ہے۔ مگر حضرت عمرؓ نے اپنے غلام کو اونٹ پر بٹھا کر جو نظیر قائم کی دنیا میں اس کی دوسری مثال کہیں نظر نہیں آتی۔ دنیا غور کرے حضرت عمرؓ نے جس شان ، اصول پسندی اور وقار سے عنانِ حکومت سنبھالی، خلیفۂ وقت رہے۔ کیا ویسی کوئی دوسری مثال بھی تاریخ میں محفوظ ہے:

ابن خطاب جب پڑھ کے کلمہ چلے

بڑھ گئے اہلِ اسلام کے ولولے

لات و عزا کے نخوت کے سورج ڈھلے

ٹوٹ کر رہ گئے کفر کے حوصلے

ایک لمحے میں وہ انقلاب آگیا

شرک والوں کو یومِ حساب آگیا

دس برس کی حکومت کا کیا ہو بیاں

اَن گنت کارناموں کی اِک داستاں

اب بھی حیراں ہیں دنیا کے سب حکمراں

پھر نہ دیکھا کسی دور نے یہ سماں

پاس میں چند کرتے تھے تہبند تھے

پھول جن میں نہیں بلکہ پیوند تھے

حضرت عثمان غنیؓ عزم کی چٹان اور صبر واستقلال کے کوہِ گراں تھے۔ حیا، بردباری، سخاوت ان کے نمایاں اوصاف ہیں:

وہ عدل کے خوگر تھے وہ انصاف کے پیکر

تائیدِ الٰہی تھی ہمیشہ انھیں حاصل

اِک پل بھی نہ ہوتے وہ عبادات سے غافل

سرکارؐ کی صحبت سے بنے مومنِ کامل

وہ کوہِ وفا، بحرِ حیا، شانِ عمل تھے

عاشق تھے، پیمبر کے ارادوں میں اٹل تھے

چالیس دنوں پاس میں دانہ تھا نہ پانی

یہ ایک حقیقت ہے نہ قصہ نہ کہانی

قرآن کے پاروں پہ لہو کی وہ روانی

لائے کوئی کیا ڈھونڈ کے اس شخص کا ثانی

وہ صبر کے احساس کا اِک کوہِ گراں تھا

وہ شخص بڑھاپے میں بھی حد درجہ جواں تھا

شاعر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر، مینارۂ حق، فاتحِ خیبر اور ستونِ آگہی جیسی اعلیٰ صفات کا پیکر لکھ کر قلم کا حق ادا کرتا ہے۔ بلا مبالغہ ضبط، تحمل، دور بینی، شرافت، نجابت، علم و انکسار جیسی اعلیٰ صفات اُن کی ذات کا حصہ ہیں۔ شاعر ان کے ظاہری خدو خال کا نقشہ یوں کھینچتا ہے۔

میانہ قد، بڑی آنکھیں تھیں، چہرہ خوبصورت تھا

جو سینہ تھا وہ چوڑا، بال والا تھا، پُر عظمت تھا

بدن کافی گٹھا تھا، سر عروجِ آدمیّت تھا

گھنی داڑھی سے چہرا بھی، مثالِ علم و حکمت تھا

حقیقت میں علیؓ کی شخصیت ہی مقناطیسی تھی

وجودِ مرتضیٰؓ پر عرش سے رحمت برستی تھی

مقام ذکر ہے کہ محترم انور جلال پوری صاحب کو ’’سیرت خلفائے راشدینؓ ‘‘ لکھتے وقت ہر قدم بلکہ ہر لمحہ یہ احساس رہا کہ انھوں نے جن عظیم المرتبت شخصیات پر قلم اٹھایا ہے اُن کا حق ادا کرنا دشوار ہی کیا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لئے اس حقیقت کے اعتراف کو لازم جانا:

یہ کام مِرے واسطے آسان نہیں ہے

یہ میرا قلم خامۂ حسانؓ نہیں ہے

انعام کا، اکرام کا ، امکان نہیں ہے

دل میں مِرے ایسا کوئی ارمان نہیں ہے

اس کام میں شامل مِرا ایمان سمجھئے

اللہ کے محبوب کا فیضان سمجھئے

لکھنؤ جہاں عروسِ لفظ کا مسکن ہے وہیں تحریکِ مدحِ صحابہؓ کا مرکز بھی ہے۔ مگر محترم انور جلال پوری اپنے کام سے لکھنؤ والوں پر سبقت لے گئے۔ جو عظیم کام اہا لیانِ لکھنؤ بالخصوص ساکنانِ پاٹا نالہ نہ کر سکے وہ کام جلالپور جیسی جگہ میں پیدا ہونے والے محترم انور جلال پوری نے کر دکھایا۔ جس کے لئے ان کی جس قدر اور جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

مدحِ صحابہؓ کی انجمنوں کے لئے یہ کتاب دلچسپی کا باعث ہے۔ شعراء اس سمت میں کام کریںتو انھیں اس کتاب سے بڑی مدد ملے گی۔ نیز کوشش کی ہونا چاہئے کہ یہ نصاب میں شامل ہو۔ ہر گھر اور کتب خانے کی زینت بنائی جائے۔بچے ، بوڑھے، جوان، سبھی اس کتاب کا مطالعہ کریں۔

درس و تدریس میں انہماک، نظامت، شاعری اور نثر کے مختلف میدان سر کرکے، سرکاری وغیر سرکاری مناصب سے وابستہ رہ کر، بالآخر ۷۰؍برس کی کامیاب زندگی گذار کر فالج کے حملہ اور برین ہیمرج کے سبب قریب ۵؍روز موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہ کر ۲؍جنوری کو صبح ۱۰؍بجے اپنے مالک سے جا ملے۔ زندگی کے آخری چند روز KGMCمیں گذرے۔ ۳؍جنوری کو سیکڑوںمداحوں اور پرستاروں کی موجودگی میں جلال پور کے سپوت کو جلال پور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا