نئی دہلی: راجستھان کے راج سمند میں لوجہاد کے نام پر محمد افروزل کوزندہ جلا کر مار ڈالنے کے بھیانک منظر کی ویڈیوگرافی اور اس غیرانسانی فعل پر اظہارشرمندگی کے بجائے فخرکا اظہارکرناہمارے معاشرہ کے انتہائی پستی میں چلے جانے کی علامت ہے اور اس بات کا واضح اشارہ کہ ہندوستان میں سیکولراکثریت فرقہ پرستی سے خوف زدہ ہے۔افسو س کی بات تو یہ ہے کہ مذہب سے اوپراٹھتے ہوئے متعدد تنظیموں نے اس غیر انسانی فعل کے خلاف اپنے شدید غم و غصہ کا ااظہار کیا ہے کہ لیکن ارباب اقتدار کی زبانیں گنگ ہیں اور سیاسی نفع و نقصان کے پیش نظر بیان تک جاری کرنے سے گریز کیا گیا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ملک کی سیاست اس ملک کو کس جانب لے جاناچاہتی ہے۔ یہ بات آج جمعیۃ علما ہند کے صدر مولاناسیدارشدمدنی نے اپنے بنگلہ دیش دورے سے واپسی پر میڈیا سے بات چیت کے دوران کہی۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہم پہلے سے کہتے آ رہے ہیں کہ نفرت کی سیاست کرنے والے ملک میں بد امنی پیدا کرناچاہتے ہیں ۔یہ سلسلہ اخلاق سے شروع ہواتھا اور اور اب افروزل تک اس طرح کے تقریبا50-60واقعات پیش آ چکے ہیں جب مسلمانوں کا کھلے عام قتل کیا جا چکا ہے۔افسوس کی بات تویہ ہے کہ ایسے تمام واقعات ان ہی ریاستوں میں پیش آئے ہیں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کی بھی انہیں خاموش حمایت حاصل ہے۔راجستھان کے واقعہ نے ایک بار پھر انسایت کو شرمسار کیا ہے اور پوری دنیا میں اس کی مذمت کی جا رہی ہے اور ان حالات پر قابو پانے کے لئے اس طبقہ کے خلاف سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے لیکن سیاستداں ہی خود اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس کی مذمت تک کرنے کو تیارنہیں ہیں ۔اگر حالات یونہی برقرار رہے تواس کا بھیانک انجام برآمد ہوگا۔کسی کوبھی قانون ہاتھ میں لینے کی کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی ۔ ا س طرح تو گھر بھی نہیں چل سکتا ملک تو دور کی بات ہے ؟

افروزل معاملے میں ہندومسلم تنظیموں کے زبردست احتجاج سے متعلق سوال پر مولانا مدنی نے کہا کہ مذہب سے اوپر اٹھ کرکام کر رہی یہ تنظیمیں اندھیرے میں روشنی کی کرن کی مانند ہیں ۔ایک طرف جہاں انسانی حقوق سے متعلق کچھ تنظیمیں اور چند افراد کافی سرگرم ہیں وہی ملک کے باقی تمام لوگ خاص طور سے سیاستداں تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، قومی میڈیا خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا جو مسلمانوں سے متعلق چھوٹے موٹے معاملات پر ایک ہنگامہ برپا کئے رکھ تا ہے اس نے راجستھان کے اتنے اہم اشو کو اپنی خبروں میں جگہ دینا بھی مناسب نہیں سمجھا یہ نام نہاد میڈیا کی منفی سوچ کا مظہر ہے ۔ مولانامدنی نے کہا کہ اس معاملے میں سڑکوں پر اتر کر غصہ کا اظہار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔مختلف تنظیموں نے مختلف طریقوں سے احتجاج کیا ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ آج جو حالات ہیں اس کی سب سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی اکثریت جو فرقہ پرست نہیں وہ فرقہ پرستی سے خوف زدہ ہے ۔

آسام میں شہریت تنازع کے تعلق سے سپریم کورٹ کے دوانتہائی اہم فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے مولانامدنی نے کہا کہ ان فیصلوں سے عدالت کا وقار دوبالا ہوا ہے انصاف کا پرچم بلند ہوا ہے ۔ آسام میں پنچایت سرٹیفکیٹ کو منسوخ کئے جانے کا معاملہ ہو یا اصل مقیم فارمولہ یہ سب فرقہ پرست اور متعصب ذہنوں کی سیاست کا نتیجہ تھا۔ بے قصورف مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے اور گھر سے بے گھر کر دینے کی ساِز ش تھی لیکن اللہ نے بڑا کرم کیا کہ عدالت عالیہ نے نہ صرف آسام بلکہ مرکزی حکومت کے بھی تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے حقائق کی بنیاد پر فیصلہ دیا اور امن و انصاف کے پرچم کوبلند رکھا ۔آسام کے عوام آج انتہائی مطمئن ہیں اور مستقبل کے لئے خیر کے دروازے کھلے ہیں ۔