محمد عارف نگرامی

’’ماہ ربیع الاول‘‘ اسلامی تاریخ میں انتہائی روشن و تابناک اور ضوفشاں مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں کائنات کی وہ عظیم ترین ہستی تشریف فرما ہوئی جس کے محاسن و فضائل خود مالک کائنات نے بیان فرمائے۔ نبوت اور رحمت کا تاج آپؐکے سر مبارک پر پہنایا گیا اور اس ہستی مقدس کی مدح سرائی اس سے زیادہ کوئی انسان کیا کر سکتا ہے کہ:۔

بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

یہ ماہ مقدس نبی رحمت، امام کائنات، فخر انسانیت، سید دو عالم ، امام الانبیائ، سید الاولین و الآخرین، احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ کی اس دنیا میں آمد کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ایک ایسے معاشرے اور ماحول میں ہوئی جہاں ظلم و یادتی فسق و فجور، قتل و غارت گری، کفر و غارت گری، کفر ضلالت اور گمراہی کے اندھیرے ہر سو پھیلے ہوئے تھے۔آپ ﷺ نور نبوت اور قرآن کی روشن دلیل لے کر انسانیت کے لیے نجات دہندہ بن کر آئے اور خالق و مخلوق کے درمیان حائل کفر و شرک کے تمام پردے ہٹا دیے، مخلوق کا خالق سے براہ راست تعلق استوار کرایا۔ بقول حالی۔

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا —اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

عرب جس پر قرنوں سے تھا جہل چھایا—پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا

ہر طرف ظلم و بر بریت کا دور دورہ تھا۔ جنگل کا قانون رائج تھا۔ طاقتور کمزور پر حاوی تھا۔ عورتوں اور غلاموں کی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ معمولی باتوں پر خوں ریزی عام تھی، سب سے بڑھ کر اللہ کے برگزیدہ پیغمبر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحب زادے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں عام باشندگان عرب اگرچہ دین ابراہمی کے پیر وکار تھے، مگر گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے درس توحید بھلا دیا اور بیت اللہ کو جسے خالصتا اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا، تین سو ساٹھ بتوں کی نجاست سے آلودہ کر دیا۔ اگرچہ ان ان میں کچھ اخلاقی قدریں بھی زندہ تھیں۔ جن میں مہمان نوازی اور شجاعت و بہادری وغیرہ جیسے اوصاف پائے جاتے تھے۔ ایک ایسا ماحول کہ جس میں بھائی بھائی کے خون کا پیاسا تھا، عورتوں کی عزت و ناموس بلکہ ان کا وجود ہی عاربن چکا تھا۔ غلاموں کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔ انسان ایک خالق و مالک کے بجائے سیکڑوں خدائوں کی پرستش میں مبتلا ہو چکا تھا۔ ہر سو تاریکی، سراسیمگی اور مایوسی کا دور دورہ تھا، یوں کہیے کہ انسانیت قعرمذلت میں گر چکی تھی۔ دین ابراہیمی کی صورت بگاڑ دی گئی تھی کہ رحمت الٰہی جوش میں آئی اور عرب کے ریگزاروں میں فاران کی چوٹیوں سے نورنبوت کا ماہ تمام رب العالمین کے پیغام رشد و ہدایت کے علم بردار، ساری انسانیت کے لیے چشمۂ فیض رساں اور بیماروں کے لیے شفائے جادوانی کا نسخہ کیمیالے کر عبدالمطلب کے خانوادے میں عبداللہ کے دریتیم، آمنہ کے لال ، خدیجہ الکبریٰ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سر کے تاج، سیدہ فاطمہؓ، رقیہ، ام کلثومؓ اور زینبؓ کے بابا، حسینؓ کریمین کے نانا اور کائنات ہست و بود کے لیے مژدۂ جاں فزا اور غلاموں کے لیے ابر رحمت، عورتوں کے لیے پیام عظمت درفعت، جن وانس کے مرشد اعظم، انبیاء ورسل کے امام، تاجدار انبیا، فخر کون و مکاں رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہﷺ دنیا میں تشریف لائے اور اللہ کا آخری پیغام یعنی قرآن مجید رہتی دنیا تدکے لیے باعث راہ نمائی، نجات آخروی اور عظمت دنیوی کا سرچشمۂ حیات لے کر آئے۔ آپ ﷺ کی آمد سے انسانیت نے شرف انسانی کا حقیقی اعزاز حاصل کیا،اور وہ گرب کہ جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھیوہ دوسروں کے محافظ بن گئے۔ عرتوں اور خلاموں کی تحقیر کے بجائے توقیر ہونے لگی۔

خالص عبادت کی خاطر قیامت تک کے لیے پاک کر دیا گیا ۔ بے سمت زندگی جادۂ مستقیم پرگامزن ہوئی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تصور عملی طور پر دکھائی دیا۔ رحمت کائنات ﷺ نے نسلی، لسانی، علاقائی تعصبات کا خاتمہ فرما کر عرب و عجم کے لات و منات کو توحید باری تعالیٰ اور اتباع رسول ﷺ کے ذریعے نیست و نابود فرمادیا۔ اورعلی الاعلان انسانی عدل کا حکم جاری ہوا کہ’’ کسی گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں، اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو تقویٰ کی ہے۔‘‘ کہ ازروئے قرآن پاک۔ بے شک اللہ کے نزدیک وہی صاحب تکریم ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے۔‘‘ سورۃ الحجرت میں ایک معیار مقرر کر دیا گیا کہ جاہلیت کے دور کے تفاخر نبی رحمت ﷺ نے مٹا دیے ہیں کہ اب کوئی چھوٹا بڑا نہیں، تمام امتیازات ختم کر دیے گئے۔

بعثت نبوی ﷺکے بعد تطہیروتزکیہ قلوب کے ساتھ ساتھ عقائد و اعمال میں اصلاح اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے آداب و اصول نظم وضبط باہمی خیر خواہی، امن وامان اور ہر فرد کے بنیادی حقوق کو تحفظ کرنا محسن انسانیتﷺ کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ بیرونی تعلقات کی استواری ، فتوحات کا اغاز اور بین الاقوامی سیاست و سیادت کے طریقہ ہائے حکمرانی کے بنیادی خدو خال اپنی حیات مبارکہ میں ہی فراہم فرما دیے کہ عرب و عجم کے فاصلے سمٹ کر ایک جسد واحد کی طرح امت مسلمہ کی صورت میں ظاہر ہوئے اور جب آپ ﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہو کر رفیق اعلیٰ سے جا ملنے کا وقت آیا تو صورت حال یہ تھی کہ بیت اللہ بتوں سے پاک کر دیا گیا تو حید کی دعوت دلوں میں راسخ ہو گئی، شرک کا قلع قمع ہو گیا، داخلی امن وامان مثالی حد تک پیدا ہو گیا۔ بکھری ہوئی قومیںاور قبائل ایک ہو گئے ، انسان بندوں کی بندگی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہو گیا۔ سب اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔اللہ نے ان سے جاہلیت کا غرور نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیا۔ آپ ﷺ نے ثابت کر دیا کہ عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کئوی فوقیت نہیں رہی، بلکہ برتری صرف تقویٰ کو حاصل ہے، تمام انسان آدمؐ کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔

غرض آپﷺ کی دعوت کے نتیجے میں اسلامی وحدت اور اجتماعی عدل و جود میں آگیا۔ بنی نوع انسان کو دنیوی مسائل اور اخروی معاملات میں سعادت کی راہ مل گئی۔ بہ الفاظ دیگر زمانے کی رفتار بدل گئی، روئے زمین متغیر ہو گیا تاریخ کا دھارا مڑ گیا، اور سوچنے کے انداز بدل گئے، یہ ایک ایسا عظیم اور تاریخ ساز انقلاب تھا جس نے دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آپ ﷺ کی عظمت ورفعت کا نقش آج بھی دنیا پر قائم ہے اور ہمیشہ قائم ودائم رہے گا۔