از:(مفتی)صفوان احمد جونپوری

انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کچھ ایام ایسے چاہتا ہے جس میں وہ اپنوں سے ملے،بچھڑوں کو گلے لگائے،روٹھوں کو منائے اور خوشی کے ترانے اور گیت گائے اور اپنے قول و فعل،رفتار وگفتار اور سکون و حرکت سے کوشی کا اظہار کرے۔اور دنیا کے ہر مذہب میں اس قسم کے جشن کے ایم آتے رہتے ہیں۔مذہب اسلام چونکہ مذہب فطرت ہے اور انسانی نفسیات و عادات ہی نہیں بلکہ حضرت انسان کو ہی عدم سے وجود بخشنے اور نیست سے ہست کرنے والی ذات ہی مذہب اسلام کے قوانین و احکام کو نازل کرنے والی ہے۔چنانچہ اس ذات نے انسان کے دلوں میں پنہاں اس جذبہ کی رعایت کی ہے اور مذہب اسلام کو دو بہترین عیدیں عطا فرمائیں تاکہ وہ اس میں اپنے ارمانوں کو اور دلی آرزوئوں کو پورا کریں اور جشن منائیں۔

عید کا آغاز:

جب نبی آخر الزماں،خلاصہۃ کائنات،شہنشاہ دو جہاں،بطحا کے مکیں کے قدم مبارک ہجرت کے بعد یثرب پر پڑے،جو بعد میں مدینہ الرسول سے مشہور ہو گیا اور لوگ اس کے پہلے نام کو بھولے ہی نہیں بلکہ یہ نام تقریباً نسیا! منسیا ہوگیا۔تو آپ نے دیکھا کہ وہاں کے باشندے دونوں کے اندر جشن منارہے ہیں اور مدینہ کے لوگ اس موقع پر بڑے شاداں اور فرحان ہیں اور مختلف طور طریقوں اور انداز سے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ جواب ملا کہ یہ وہ دو دن ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں ان ایام میں کھیلا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ نے اس کے بدلے دو اور دن عنایت فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ عید الاضحیٰ اور عید الفطر ہیں۔

اس طریقے سے مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دو عیدیں عطا کیں،پورے سال میں صرف یہ دو دن عید کے طور پر عطا ہوئے،اور یثرب کا نام بدل کر مدینۃ الرسول ہوگیا۔جو کہ مذہب اسلام کا دوسرا سب سے مقدس شہر ہے اور اسی میں مسجد نبوی بھی ہے جو دوسری مقدس ترین مسجد سمجھی جاتی ہے اور یہ سب کچھ فضیلت میرے آقا کے قدموں کی برکت ہے۔

قدم بوسی کی دولت مل گئی تھی چند ذروں کو

ابھی تک وہ چمکتے ہیں ستاروں کی جبیں ہو کر

قربانی کیا ہے؟

صحابہ کرام نے نبی آخر الزماں محمد عربی علیہ السلام سے پوچھا کہ قربانی کیا ہے؟یعنی قربانی کی حقیقت اور اس کی تاریخ کیا ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔اور اس عظیم واقعہ کی یادگار جو ایک جلیل القدر نبی اور ان کے لائق و فائق فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے درمیان ہوا تھا۔

ابراہیم کا امتحان:

قدرت کا قانون رہا ہے کہ ہر بڑی اور اہم چیزکے حصول کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے،پیشانی کو پسینوں سے شرا بور کرنا پڑتا ہے اور کچھ عزیز و لذیذ چیز سے محروم ہونا پڑتا ہے،یہی حال اللہ کی نگاہ میں بڑے ہونے کا بھی ہے،اور اس کے لئے مشکلات بھرے دور اور حالات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے تب کہیں جاکر بارگاہ ایزدی میں قربت حاصل ہوتی ہے۔اسی روش کے مطابق ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب بے مثال اور عدیم النظیر و فقید المثال قربانیاں پیش کیں تو اللہ نے محبوبیت و جالات شان عطا کیا اور نہ صرف یہ کہ انہیں اپنا دوست بنایا بلکہ ان کا لقب ہی خلیل اللہ ہو گیا۔

ابراہیم الیہ السلام نے جب آنکھیں کھولیں تو پوری قوم کو بت پرستی اور اصنام پرستی کے اتھاہ دلدل میں غرق پایا یہی نہیں نلکہ ان کے والد آزر بت پرست ہی نہیں بلکہ بت ساز اور بت فروش بھی تھے۔اور جلد ہی پوری قوم بشمول بادشاہ آپ کے خلاف ہوگئی اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے بتوں کو سر بسجود کردیا اور ان کو توڑ کر مٹی میں ملا دیا تو قوم نے اپنے معبودوں کی مدد کرنے کے لئے حضرت ابراہیم کو ایک زبردست دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا تو قادر مطلق رب نے اپنی قدرت سے آگ کو گل و گلزار بنا دیا اور وہ آگ ان کا بال بیکا نہ کر سکی۔

پھر ابراہیم نے ہجرت کی اور اس کے بعد بڑھاپے کی معر میں جب ابراہیم ۸۰؍ سال سے متجاوز تھے اللہ نے انہیں حضرت ہاجرہ کے بطن سے ایک للڑکا اسماعیل کی شکل میں عطا کیا۔ظاہر ہے کہ پہلا بچہ وہ بھی اس عمر میں جبکہ انسان ۸۰؍ سال سے زیادہ ہوگیا ہو اس کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔اور باپ کے دل میں اس بچے کی محبت کا بس ایک اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے قلم اس کو مکمل طور سے بیان کرنے سے عاجز ہے۔
ابھی اسماعیل بالکل چھوٹے تھے کہ اللہ نے حکم دیا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ ایک بے آب و گیاہ سر زمین میں چھوڑ دو،ابراہیم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی اوراپنی بیوی اور ننھے اسماعیل کو ایک بے آب و گیاہ سر زمین میں جہاں نہ آدم نہ آدم زاد،چھوڑ دیا اور وہاں سے رخت سفر باندھ لیا اور جب بیوی بچے نگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو رقت آمیز دعا فرمائی جس کا نقشہ حفیظ جالندھری نے کچھ یوں کھینچا ہے

سحر کے وقت ابراہیم نے اٹھ کے دعا مانگی

سکون قلب مانگا خوئے تسلیم ورضا مانگی

کہ اے مالک عمل کو تابع ارشاد کرتا ہوں

میں بیوی اور بچوں کو یہاں آباد کرتا ہوں

اسی سنسان وادی میں انہیں روزی کا ساماں دے

اسی بے برگ و سامانی کو شان صد بہاراں دے

الٰہی نسل اسماعیل بڑھ کر قوم ہوجائے

یہ قوم اک روز پابند صلٰوۃ و صوم ہوجائے

پھر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام ۱۳؍ سال کے ہوئے تو خواب میں حکم آیا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کردو۔یہ حکم حضرت جبرئیل کے واسطے سے نہیں بلکہ خواب میں آیا تھا،ذبح بھی ایسے بیٹے کو کرنا تھا جو بڑھاپے کی حالت میں ہوا تھا اور جو بہت دعائوں،تمنائوں اور آرزوئوں کی دین تھا۔لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر لبیک کہا اور بیٹے سے پوچھا کہ تمہاری اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟تو فرماں بردار بیٹے نے کہا کہ جو آکپ کو حکم ہوا ہے اس کو کر گزرئے،آپ مجھے انشاء اللہ صبر کرنے والوں میںسے پائیں گے۔

وہ فیضان بنوت یاکہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائی کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

الغرض ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل کو زمین پر لٹا دیا اور چھری ان کی گردن پر پھیر دیا مگر اللہ کو یہ ذبح منظور نہیں تھا اور اسماعیل کو بچا لیا۔لیکن ایسا واقعہ چشم فلک نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

زمیں سہمی پڑی تھی آسماں ساکن تھا بیچارہ

نہ اس سے پیشتر دیکھا تھا یہ حیرت کا نظارہ

یہ قربانی جو آج کے دن ہم کرتے ہیں یہ اسی عظمی قربانی کی یادگار ہے۔اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قیامت تک کے صاحب استطاعت مسلمانوں پر اس دن قربانی کو واجب قرار دیا۔

فضیلت قربانی:

ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے رایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:ذی الحجہ کی ۱۰؍ تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں،سینگوں اور کھروں کو لے کر آئیگا۔نیز یہ فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے۔لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔صحابہ کرام نے سوال کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ قربانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے۔صحابہ نے پوچھا کہ ہمیں اس میں کیا ملیگا؟ تو آپ نے کہا کہ ہربال کے بدلہ ایک نیکی۔ایک روایت میں ہے کہ مدینہ منورہ کے دس سال کی زندگی میں آُ نے ہر سال قربانی کی۔

قربانی نہ کرنے پر وعید:

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:کہ جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ نہ کرے تو ایسا شخص ہماری عیدگاہ میں حٓض رنہ ہو۔ظاہر ہے کہ یہ وعید بہت سخت ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ:

دور حاضر میں مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اور عقل کو ہر چیذ کی کسوٹی سمجھنے والے بعض حضرات کا یہ خیال ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کرنے سے بہت گندگی ہوتی ہے اور اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں بلکہ اس سے بہتر ہے کہ اس رقم کو غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیا جائے اس سے لوگوں کی زندگی بہتر ہوگی،غربت کا خاتمہ ہوگا اور فقیروں کا بھال ہوجائے گا۔مگر ان حضرات کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت میں عقل کا دخل نہیں۔جہاں سے عقل کا دائرہ ختم ہوجاتا ہے وہیں سے وحی کا دائرہ شروع ہوتا ہے۔حضرت علی کا ارشاد ہے کہ اگر دین کا مدار عقل پر ہوتا تو موزے پر مسح اوپر کے بجائے نیچے ہوتا۔علماہ اقبال شاعر مشرق نے فرمایا اور بجا فرمایا ہے:

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور(خریدنے) کے لئے پیسے خرچ کرنا اللہ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے افضل ہے۔مزید برآں قربانی کا مقصد خون بہانا ہے اور یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی۔نبی آخر الزماں کے دور میں صحابہ کی غربت دور حٓضر سے کہیں زیادہ مگر ایک بھی روایت میں سند سے ہو یا بلا سند یہ بات نہیں ملتی کہ آپ نے ذبح کے بجائے غریبوں میں پیسے تقسیم کئے ہوں۔

قربانی کا سبق:

اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے لخت جگر کی قربانی کر کے رب ذوالجلال کے حکم کی تعمیل کی،اسی طرح ہم یہ اقرار کرلیں کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کی عطا کردہ ہے،ہم اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی پیروی کریں اور نہ ہی کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں،نیز ہم احکام خدا وندی کو بے چوں و چرا اور بغیر کسی شک و ارتیاب کے قبول کر لیں اور انسان کی یہ حٰثیت ہے بھی نہیں کہ وہ احکام خدا وندی پر کوئی سوال اٹھائے یا عقل کی کسوٹی پر اسے پر کھنے کی کوشش کرے۔

رضٓئے حق پہ راضٰ رہ،یہ حرف آرزو کیا

خدا خالق خدا مالک،یہ حرف آرزو کیا

ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کی کو بھی قربان کریں تاکہ اختلاف و انتشار،بغض و حسد،کبر و غرور،عناد و دشمنی،مکر و چالبازی،حق تلفی و جاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ عظمت و بلندی اور تقرب الہٰی کا جو معیار اور کسوٹی رب ذوالجلال نے عطا کیا اسے ہم اپنی زندگی اور اپنی رگ و پے میں بسا لیں،ذات پات،رنگ و نسل،دولت و غربت،عربی و عجمی، ملکی و غیر ملکی جیسے سارے امتیازات مٹا کر اخوت ومساوات،پیار و محبت،امن و سلامتی،عفو در گزر اور ایک خدائے وحدہ لا شریک لہ کی عبادت و بندگی کی فضا قائم کریں۔

اس عید کے منانے کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہونا چاہئے کہ ہمارے اندر قربانی کی وہی روح،اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان ہیدا ہوجائے جس کا مظاہرہ سیدنا ابراہیم نے اپنی پوری حیات طیبہ میں کیا تھا۔

یاد رہے کہ اللہ کے یہاں قربانی کے جانور کا نہ گوشت پہونچتا ہے نہ خون بلکہ اس کے پاس تقویٰ پہونچتا ہے۔وہاں یہ مطلوب ہے کہ جو انسان کلمہ طیبہ پر ایمان لائے تو وہ مکمل طور پر بندہ حق بن کر رہے،ذاتی دلچسپی،ذاتی مفاد،لالچ،خوف،نقصان غرضیکہ کسی قسم کی اندرونی کمزوری یا باہری طاقت اس کو حق سے نہ ہٹاسکے۔وہ خدا کی بندگی کے بعد کسی کی بندگی نہ کرے۔اس کے لئے خدا کے علاوہ ہر تعلق کو قربان کر دینا آسان ہو۔

اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد پھر زندگی کے ایام پلٹیں گے مشکلات آسنیوں میں تبدیل ہوں گی،پزمردگی دور ہوگی اور ایک نئی صبح روشن ہوگی جو خوفناک اور مہیب تاریکی کا پردہ چاک کرے گی اور اپنے اجالے اور تابناکی سے پوری دنیا کو منور کردے گی۔

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا