عادل فراز

سعودی اتحا کا دعویٰ:

سعودی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ منصور ہادی اور عبداللہ صالح کو حوثیوں نے اقتدار سے الگ کیا ہے اس لئے وہ یمن پر مسلسل حملے کررہے ہیں تاکہ ہادی کو دوبارہ اقتدار میں واپس لایا جائے ۔سعودی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ حوثی غاصب ہیں اور ہم انکی کمر توڑ کر یمن پر دوبارہ تسلط قائم کرینگے ۔سوال یہ ہے کہ اگر انصاراللہ غاصب ہیں اور یمنی عوام کی مرضی کے بغیر ہادی کو اقتدار سے الگ کیاگیاہے تو پھر انصاراللہ کی حمایت میں ہونے والی ریلیوں میں لاکھوں کی بھیڑ کہاں سے امڈآتی ہے ؟۔سوال یہ ہے کہ اگر حوثی بغاوت کررہے ہیں تو پھر انکے زیر تسلط علاقوں میں کیوں عوامی یورش نہیں ہے ؟سوال یہ بھی ہے کہ سعودی اتحاد کو یہ حق کس نے دیاہے کہ وہ یمن پر تباہ کن بمباری کرے اور ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کیاجائے ۔تازہ رپوٹ کے مطابق سعودی اتحاد کی بمباری میں دس ہزار سے زائد بے گناہ شہری مارے جاچکے ہیں اور چالیس ہزار سے زائد شہری اپاہج ہوچکےہیں۔پورا ملک شدید غذائ قلت کا شکار ہے اور اقتصادی پابندیان جھیل رہاہے ۔۲۰۱۶ میں یونیسیف کی رپوٹ کے مطابق یمن میں ۳ لاکھ ۷۰ ہزارفاقوں کا سامان کرہے ہیں ۔۳۰ لاکھ سے زائد شہری بمباری کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں۔جبکہ یمن کی کل آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے یعنی نصف آبادی قحط سے دوچارہے ۔اقوام متحدہ کی تازہ رپوٹ کے مطابق یمن کی کل آبادی قحط کا شکارہے اور بچے ہیضے کی بیماری کی وجہ سے مررہے ہیں۔یعنی ایک سال کی مدت میں یمن کی پوری آبادی قحط اور بیماریوں کا شکار ہوگئی ہے۔

سعودی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کررہاہے اس لئے انکی سرکوبی واجب ہے ۔مگر آج تک سعودی اتحاد یمن میں ایران کی کسی بھی طرح کی موجودگی کو ثابت نہیں کرسکاہے ۔آج تک یمن سے کوئ ایسی خبر یا رپوٹ نہیں آئ ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ فلاں علاقہ یا عمارت پر ایرانیوں نےحملہ کیا ہے۔واضح رہے کہ یمن کی سرحدیں دو طرف سمند ر سے ملی ہوئ ہیں۔ایک سرا عمان اور زیادہ تر زمینی علاقہ سعودی عرب سے ملا ہوا ہے ۔لہذایہ کہنا کہ ایران حوثیوں کو ہتھیار سپلائی کررہاہے یا ایران کی فضائیہ یمن میں حملہ کررہی ہے دنیا کو گمراہ کرنے والا دعویٰ ہے ۔ایران فقط حوثیوں کے نظریات کی تائید کررہاہے اور بس!کیونکہ حوثیوں کی تحریک ملک کے تحفظ کے لئے شروع ہوئی تھی جبکہ سعودی عرب منصور ہادی کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے کوشاں ہے ۔اگر یمنی عوام ہادی کو اقتدار کی کرسی پر نہیں دیکھنا چاہتی ہے تو پھر سعودی اتحاد کو یہ حق کس نے دیاہے کہ وہ ہادی کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے یمنی عوام پر کیمیائی حملے کرے ۔

یمن کی سیاسی صورتحال کیا تھی :

یمنی صدر علی عبداللہ صالح یمن کی موجودہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہے تو انہوںنے یمنی عوام کو بھروسہ دلایا کہ وہ آئندہ صدر کے عہدہ کے لئے امیدوار نہیں ہونگے ۔مگر اس اعلان کے بعد حکومت کی ناکامی کے خلاف یمن میں بغاوت ہوتی رہی اور احتجاجات کا سلسلہ جاری رہا۔عبداللہ صالح کی فوج کے اعلیٰ عہدیدار بھی عوامی احتجاجات میں انکا ساتھ دیتے رہے ۔مخالفت کا دور شروع ہوتے ہی عبداللہ صالح ملک چھوڑ کر سعودی عرب فرار کرگیا ۔علی عبداللہ صالح کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں حوثی فرقہ کے ساتھ شافعی اھل سنت والجماعت نے بھی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا ۔علی عبداللہ صالح کے خلاف ہونےوالے تمام مظاہرے پر امن رہے ۔مظاہرین کا مطالبہ تھاکہ بدعنوان حکومت کا خاتمہ ہو اور علی عبداللہ صالح کی جگہ کسی دوسرے ایماندار فرد کو معین کیا جائے ۔چونکہ یمنی عوام مہنگائ اور بدعنوانی کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی لہذا مذہب و مسالک کی قید کے بغیر حکومت کے خلاف مظاہرین مسلسل سڑکوں پر نکلتے رہے ۔علی عبداللہ صالح کے ۲۰۱۳ ؁ٗ میں سعودی عرب فرار ہونے کے بعد آل سعود نے دہری پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے اثرورسوخ کا بھر پور استعمال کیا اور علی عبداللہ صالح کے نائب منصور ہادی کو عبوری صدر بنادیا گیا ۔چونکہ منصور ہادی سعودی عربیہ کا آلہ ٔ کار تھا لہذا اس نے بھی عبداللہ صالح کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یمنی عوام کے مطالبات پر کوئ توجہ نہیں کی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ یمنی عوام ایک بار احتجاجی تحریک شروع کرنے پر مجبور ہوئے۔۲۰۱۴؁ کے آخرمیں تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نے یمنی عوام کی کمر توڑدی اور عوام میں حکومت کے بغاوت کے عناصر وجود پانے لگے۔

دوسری طرف یمن میں دہشت گرد تنظیموں کا اثر و رسوخ برھنے لگا تھا ۔القاعدہ جیسی تنظیم جو مغربی یمن میں پہلے کئ سالوں سے موجود تھی نے اپنی دہشت گردانہ فعالیت میں اضافہ کردیا،حکومت القاعدہ کی دہش گردی اور بربریت پر قابو پانے میں ناکام تھی کیونکہ ہادی نے یمنی فوج کو القاعدہ کے خلاف مزاحمت کی اجازت نہیں دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ القاعدہ یمن پر قابض ہونے کے قریب پہونچ گیا ۔۲۰۰۲؁ میں پہلی بار القاعدہ کے بہانہ امریکہ نے یمن پر درون حملہ کیا تھا ۔لیکن کسی نے امریکہ سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ کیا دنیا کے امن کے ٹھیکدار آپ ہی ہیں۔یمن پر ڈرون حملہ کے بعد القاعدہ نے یمن پر قبضہ کی کوششوں کو تیز کردیا مگر امریکہ نے اسکے بعد القاعدہ کی پیش رفت روکنے کے لئے کوئ قابل ذکر حملہ نہیں کیا جس سے واضح ہوتاہے کہ ڈرون حملہ القاعدہ کو اکسانے کے لئے کیا گیا تھا تاکہ جنگ کا آغاز ہوسکے۔مغربی یمن سے القاعدہ کی پیش قدمی کے ساتھ حوثی تنظیم انصاراللہ نے اپنی علاقائ سرحدوں کے تحفظ کے لئے کمرکسی اور القاعدہ کو شکست دیکر واپس مغربی علاقہ میں دھکیل دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ القاعدہ مغربی یمن میں روپوش ہوگئے ۔القاعدہ پر حوثیوں کی معمولی تنظیم انصاراللہ کی فتح کے بعد یمنی عوام میں مزاحمت کا جذبہ بیدار ہوا ۔انہیںمحسوس ہوا کہ اگر ایک چھوٹی سی تنطیم انصاراللہ القاعدہ جیسی دہشت گردتنظیم کو شکست دے سکتی ہے تو پھروہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف تحریک چلاکر کیوں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

یمن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش:

منصور ہادی نے یمن کے اقتصادی و معاشی بحران کوحل کرنے میں خود کو ناکام پایا لہذا وہ استعفیٰ دیکر صنعا سے عدن چلا گیا ۔مگر اسکی اس چالاکی کابھید اس وقت کھلا جب اس نے عدن سے اپنی حکومت کی تشکیل نو کا اعلان کیا اور اپنا استعفیٰ خود واپس لے لیا ۔یہ کھیل امریکہ و سعودی عرب کی ایماء پر کھلیا جارہا تھا تاکہ یمن دو حصوں میں تقسیم ہوجائے۔ہادی کے اس احمقانہ فیصلے کی مخالفت ہر محاز پر ہوئی اور عوام ہادی کی سعودی نوازی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئ ۔یمن کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے کچھ عربی و مغربی ملکوں نے اپنے سفارتخانہ فوری طوپر صنعاء سے عدن منتقل کرنا شروع کردیے تاکہ یمن دو پایۂ تخت میں تقسیم ہوکر خانہ جنگی کا شکار ہوجائے ۔ان ملکوں میں سعودی عرب ،قطر اور متحدہ امارات پیش پیش تھے ۔مگر انصاراللہ نے یمنی فوج کی مدد، مقامی افراد اور گروہوں کی کمک سے اس امریکی و سعودی سازش کو ناکام بنانے کے لئے جی توڑ کوشش کی ۔کئ محاذ پر ہادی کے ہم نوائوں سے محاذ آرائ بھی ہوئی مگر انصاراللہ کا عدن پر تسلط ہونے کے بعد یمن کی تقسیم کامنصوبہ ناکام ہوگیا ۔عدن پر یمنی فوج اور انصاراللہ کے قبضہ کے بعد منصور ہادی بھی اپنے پیش رو علی عبداللہ صالح کی پیروی کرتے ہوئے سعودی عرب فرار کرگیا ۔ہادی کے فرار کے بعد یمن کا بحران مزید گہرایا اور عوام اقتصادی و معاشی زبوں حالی کا شکار ہوگئے۔کیونکہ منصور کے فرار کے بعد خلیج فارس تعاون کونسل اور دیگر علاقائ ملکوں نے یمن کی ترقی کا بہانہ بناکر نیا منصوبہ پیش کیا ااور منصور ہادی کی کھلی حمایت کا اعلان کردیا ۔منصوبے کے نکات میں اہم نکتہ یہ تھا کہ منصو ہادی کو دوبارہ یمن کا حاکم قبول کیا جائے اور سعودی عرب کے تمام مخالفین غیر مسلح ہوں۔ظاہر ہے یمنی عوام اور خاص کر انصاراللہ و یمنی فوج اس منصوبہ کے نکات کو کبھی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتے کیونکہ جس بحران کے وہ شکار تھے ان نکات کو قبول کرنے کے نتیجہ میں وہ بحران کبھی ختم نہیں ہوتا ۔اس لئے کہ منصور ہادی کا یمن پر دوبارہ مسلط ہونا گویا اپنے ملک کی زمام سعودی عرب کو سونپنے کے برابر تھا یا یوں کہاجائے کہ منصورہادی کی حاکمیت کا قبول کرنا یمنی عوام ،فوج اور انصاراللہ کی بڑی شکست اورسعودی عرب کی فتح کا کھلا اعلان ہوتا۔مغربی طاقتیں جو یمن کی تقسیم کے حق میں تھیں اور منصورہادی کی حامی تھیں ان تمام طاقتوں نے برطانیہ و امریکہ کی سرپرستی میں آپسی صلاح و مشورہ کے بعد خلیج فارس تعاون کونسل کی طرز پر یمن کے لئے سلامتی کونسل کی نئ قرارداد پاس کی مگر اس قرارداد کے تمام اہم نکات خلیج فارس تعاون کونسل مسودہ کی نقل ہی تھے جس میں منصور ہادی کو دوبارہ یمن پر مسلط کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔اس طرح اس قرارداد میں یمنی عوام کے تمام اختیارات سلب کرلئے گئے تھے ۔تعجب خیز امر یہ ہے کہ اب تک کسی بھی قرارداد یا پیشکش میںیہ نہیں کہا گیا کہ یمن میں عوام اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرنے کے لئے جمہوری طریق کار کا استعمال کریں۔منصورہادی بھی الکشن میں امیدوار ہوتے اور یمنی عوام کا نمائندہ بھی الکشن میں کھڑا ہوتا تاکہ یمنی عوام الکشن میں فیصلہ کن کردار اداکرتے ہوئے اپنے بحران کو ختم کردیتے ۔مگر سعودی اتحاد اور سامراجی طاقتیں جنگ چاہتی ہیں اس لئے آج تک کسی بھی قرارداد یا پیشکش میں یمنی عوام کو کوئ اختیار نہیں دیا گیا ۔

سعودی اتحاد نے جنگ شروع کی :

بھگوڑے صدر کی درخواست اور یمن میں موجود بدامنی و تفرقہ پھیلانے والے گروہوں کو بنایا گیا ۔گویا یہ جنگ یمنی فوج ،عوام اور انصاراللہ کے خلاف شروع کی گئی تھی ۔سعودی عرب کی اس جنایت کاری میں نوعرب ممالک اور مغربی طاقتوں کا پورا تعاون شامل تھا۔سعودی عرب کے یمن پر حملے کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندہ نے سرکاری طورپر یہ اعلان کیا کہ سعودی عرب نے یمن پر ٹھیک اس وقت حملہ کیا جب یمن کے سیاسی گروہ اپنے بحران کا حل تلاش کرنے کے آخری مرحلے میں تھے اور تمام سیاسی جماعتیں آپسی صلاح و مشورہ سے معاہدہ کے مسودہ کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھیں۔مگر سعودی عرب کے حملے نے انکی تمام تر کوششوں پر پانی پھیردیا۔یمن کی تباہی و بحران کے جائزہ کے لئے بان کی مون کی سربراہی میں جنیوا میں منعقد ہونے والی کانفرنس بھی سعودی پروپیگنڈہ کی بھینٹ چڑھ گئ۔سعودی عرب نے مذاکرات کے لئے جارہے یمنی وفد اور انصاراللہ کی پرواز کو جیبوتی میں روکے رکھا ۔سعودی عرب نے اقوام متحدہ پرعالمی طاقتوں کے ذریعہ دبائو ڈالا کہ جینوا مذاکرات میں یمن کےسلسلے میں اسکی خواہشات کو محور بنایاجائے ۔اس طرح سعودی پروپیگنڈہ نےیمن کے سیاسی بحران کے حل اور مذاکرات کی کوششوں کو ناکام بنادیا ۔

تیر طلائ منصوبہ کی ناکامی :

عدن کی آزادی کے لئے تیر طلائ منصوبہ تیا ر کیا گیا تھا جو تا حال ناکامی کا شکار ہے ۔سعودی عرب کے اتحاد ی ممالک کے بقول تیر طلائ منصوبہ کا مقصد منصور ہادی کی حمایت یافتہ فوجوں اور جنگجو افراد کو یمن میںمستقر کرنا تھاتاکہ وہ یمن کے پورے علاقہ پر قبضہ کی راہ ہموار کریں۔اب جبکہ عرب ممالک کی اکثریت نے تیر طلائ منصوبہ کے نفاذ سے قدم پیچھے کھینچ لیے ہیں مگر متحدہ عرب امارات آج بھی سعودی عربیہ کے ساتھ ہے اور تیر طلائ منصوبہ کی تکمیل پر مصر ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امارات عدن کی بندرگاہوں اور تجارتی شاہراہوں کو تباہ کرکے دبئ کی ڈوبتی ہوئ اقتصادی کشتی کو پار لگانے کی فکر میں ہے ۔امارات سعودی عرب کے منصوبوں کی تکمیل کا حصہ بن کر اپنی قطر دشمنی نکال رہا ہے تاکہ وہ قطر سے بڑی طاقت بن کر ابھر سکے ۔

یمن کی تباہی پر عالم اسلام خاموش:

حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے بعد اچانک مسلم ممالک کا قطر کے بائیکاٹ کا اعلان کرنا اور سفری پابندیاں عائد کرنا تیر طلائ منصوبہ کے نفاذ کی ادھوری کوشش ہے ۔مغربی طاقتیں اب تک جن منصوبوں کی تکمیل میں ناکام رہی ہیں ان پر ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے بعد دوبارہ کوشش شروع ہوچکی ہے ۔سعودی عرب نے امریکہ سے۱۵۰ ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی خرید کا معاہدہ بھی کیاہے ۔ان ہتھیاروں کو سعودی کسی مغربی ملک کے خلاف استعمال نہیں کریگا بلکہ یمن،شام ،عراق اور بحرین کے خلاف ہی استعمال کرے گا تاکہ اپنے آقائوں کے منصوبوں کو پوراکرکے انکا منظور نظر رہے۔حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ایک نام نہاد اسلامی ملک ہے جو ہمیشہ اسلام دشمن طاقتون کے ہاتھوں کا کھلونا رہاہے لہذا عالم اسلام کو سعودی حکمرانوں سے کسی طرح کی توقع کرنا غلط ہے ۔سعودی عرب بنام اسلام وہی کرے گا جو امریکہ چاہتاہے ۔لہذا مسلم ممالک کو سعودی عرب کے تعاون کے بغیر ہی اپنی فلاح کا راستہ تلاش کرنا ہوگا ورنہ غلام کبھی آزادی کی تدبیریں نہیں سجھاتے۔مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ عظیم اتحاد کے لئے سعودی عرب میں تقریبا ۵ ۵ مسلم ممالک ٹرمپ کی سرپرستی میںجمع ہوئے مگر کسی ایک ملک کے سربراہ نے عالم اسلام کو درپیش بحران کا مسئلہ نہیں اٹھایا ۔اگر یہ عظیم اتحاد عالم اسلام کی فلاح و بہبود کے لئے ہورہاہے تو پھر یمن،شام،لبنان اور عراق جیسے ممالک کی موجودہ صورتحال پر بات چیت کیوں نہیں ہوئی یا یہ عظیم اتحاد یمن کی تباہی کا جشن منانے اور ایران کو عالمی سطح پر علاحدہ کرنے کی کوشش تھی۔

اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائ:

یمن کی تشویشناک صورتحال پر عالمی برادری کی خاموشی اور سعودی عرب کی دہشت گردی پر اقوام متحدہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہاہے ۔اگر ایسے عالمی ادارے ہی عالمی دہشت گردی پر اپنے مؤقف کی وضاحت نہیں کریںگے تو دہشت گردی کا خاتمہ نا ممکن ہے ۔یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے بھی سوشل میڈیا پر اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی کا مضحکہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’ یمن پر اقوام متحدہ اور دنیا کے تمام ملکوں کے سامنے جارحانہ حملہ کیا گیا اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے نے سعودی عرب کی جارحیت کے مقابلے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس لئے یمن پر سعودی عرب کے جنگی جرائم میں اقوام متحدہ بھی شریک سمجھی جاتی ہے‘‘۔عبداللہ صالح کا یہ بیان عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا مگر عالمی میڈیا جو سامراجی طاقتوں کا آلہ ٔکار بنا ہواہے نے اس بیان پر کوئ قابل ذکر توجہ نہیںکی۔
اقوام متحدہ نے ۲۰۱۵ میں جنگ بندی کی اپیل جاری کی جس پر انصاراللہ کے کمانڈر نے جرآت مندانہ بیان دیتے ہوئے کہاتھاکہ ہم جنگ بندی کی پیشکش کا خیرم مقدم کرتے ہیںمگر اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ صرف جنگ بندی کی پیشکش پر اکتفانہ کرے بلکہ جنگ بندی کے لئے عملی اقدامات بھی کرے ‘‘۔انصاراللہ کا یہ بیان واضح کرتاہے کہ اقوام متحدہ نے یمن میں جنگ بندی اور تباہی پر قابو کے لئے کوئ عملی اقدام نہیں کیا ۔انصار اللہ نے کہا تھاکہ ’’اقوام متحدہ نے سعودی عرب کی دہشت گردی کو روکنے کے لئے اپنی پوری توانائ کا استعمال نہیں کیا ۔۲۰۱۵ میں انصاراللہ نے اقوام متحدہ کو انتباہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ یمن پر امریکہ اور سعودی عرب نے اقتصادی جنگ مسلط کردی ہے جسکی بنیاد پر یمن شید قحط سالی اور غذائ قلت کا شکار ہونے والا ہے ۔ انصار اللہ کی اس رپورٹ پر اقوام متحدہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی لیکن ۲۰۱۷ کی تازہ رپوٹ میں اقوام متحدہ نے تسلیم کیاہے کہ یمن پوری طرح تباہ ہوچکاہے اور ملکی سطح پر غذائ قلت کا شکارہے ۔اس قحط سالی کا عذاب یمن کی عوام جھیل رہی ہے مگر دنیا خاموش ہے ۔کیا اس رپوٹ کے بعد اور انصار اللہ کے انتباہ کے بعد بھی اقوام متحدہ کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ یمن کی تباہی کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی ہے ۔یمن میں ممنوعہ کیمیائ ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ،عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا جاتا رہا اور جینوا کانفرنس کو ناکام بنانے کے لئے یمن پر مسلسل حملے کئے جاتے رہے مگر عالمی برادری کی زبان پر تالے پڑے رہے ۔آج یمن کی تباہ حالی اور عوام میں دن بہ دن بڑھتی ہوئ بھکمری کی ذمہ داری عالمی برادری پرعائد ہوتی ہے ۔سعودی عرب اور امریکہ انسانیت کا مجرم ہے مگر اس جرم کو فروغ دینے میں عالمی برادریوں کی بھی حصہ داری ہے ۔