(عالمی خبروں کا تجزیہ)

شاہدؔکمال

میں نے جس عنوان کا انتخاب کیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے ۔لیکن اس عنوان کے لئے منتخب کیا جانے والا جملہ بڑا سطحی قسم کا ہے۔ اس کا تعلق اردوزبان کی تہذیب و تمدن کے منافی ہے اور اہل زبان کے نزدیک یہ ایک سوقیانہ جملہ ہے۔لیکن یہ جملہ اپنے مقتضائے حال کے مطابق(بسنتی ناچے گی) معنوی اعتبار سے بڑا بلیغ ہے۔ چونکہ اسے یہاں ایک تلمیحی استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔جنھوں نے بوالی ووڈ کی میگا اسٹار فلم ’’شعلے‘‘ دیکھی ہے یا اُس کے بارے میں پڑھا ہے، وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں،کہ اس فلم کا ایک مرکزی کردار ’’بستنی ‘‘ بھی ہے،اور اس پوری ڈرمائی فلم میں ایک ایسے ڈاکو کے ظلم و جور اور قتل و غارت گری کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جو انتہائی ظالم اور سفاک ہے ۔جو لوگوں کے دلوں میں اپنے ظلم و بربریت سے ایک خوف بھر دینا چاہتا ہے تاکہ کوئی اس کے خلاف آواز نہ بلند کرسکے ،اور اگر کوئی اس کے خلاف بولنے کی جرات کرے تو اس کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کردی جائے۔اس ڈاکو کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا یہی خوف ہے جس کے ذریعہ وہ لوگوں کے حقوق کا استحصال کرتا ہے۔ باس فلم میں اس ڈاکو کاناـ’’گبر سنگھ ‘‘ ہے ۔جس کی دہشت کا چرچا چاروں طرف ہے ۔لیکن اس کے باوجود اس کا مقابلہ دوسر پھرے نوجوانوں سے ہوجاتا ہے ۔جو اپنی ہمت و جوانمردی سے اس کے ظلم کے خلاف مزاحم ہوجاتے ہیں۔جس کی وجہ سے اس کے اس خوف و ہراس کے کاروبار میں بڑی رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔لہذا وہ ان نوجوانوں کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اسے کامیابی نہیں ملتی۔آخر کا عاجز آکر وہ اپنی حیلہ جوئیوں کے ذریعہ اس ڈرامے کی ایک اہم کردار ’’بسنتی‘‘ کو یرغمال بنا لیتا ہے۔پھر جس کے ذریعہ ان نوجوں میں سے ایک نوجوان کو ’’گبرسنگھ‘‘ کو پکڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔پھر اس نوجوان کو ذلیل کرنے کے لئے ’’بسنتی‘‘ کو ناچنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ بسنتی اپنے یار کی جان کے زیاں کے خوف سے ان ظالم اور درندوں کے سامنے ناچتی ہے۔چونکہ وہ یہ کام اس لئے کرتی ہے تاکہ اُس کے چاہنے والے کی جان بچ جائے۔

یہ ایک ڈرمائی کہانی ہے ۔جس کے بارے میں آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس افسانے کا کسی حقیقت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے،اگر آپ اس پوری ڈرمائی فلم کے تمام پلاٹ کو زمینی حقائق پر متحرک دیکھنا چاہتے ہیں ۔تو آپ مشرق اوسطی کی موجودہ صورت حال پر ایک منطقی نظرڈالیں اور وہاں پر مسلسل وقوع پذیر ہونی والی فسطائیت و سامراجیت نواز طاقتوں کے سازشانہ اقدام کا منطقی تجزیہ کریں، تو آپ پر یہ بات واشگاف ہوجائے گی ۔کہ مشرق اوسطیٰ میں برپا کی جانے والی قیامت کی اصل حقیت کیا ہے۔سعودیہ کی بادشاہت جو محض خادم الحرمین کے ایک جھوٹے دعویٰ کے ساتھ پورے عرب پر اپنی مسلم الثبوت قیادت کی خواہاں ہے ۔اصل میں وہ ایک ایسا فتنہ ہے جس نے امت مسلمہ کو ایسے خلفشار سے دوچار کر رکھا ہے۔فی الحال جس کے حل کی کوئی امکانی صورت نہیں دکھادے رہی ہے،اور رہی سعودیہ حکومت کے قیام کی بات تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔کہ یہ عرب کے ایک نجدی لٹیروں کا بدوی قبیلہ ہے ۔جس نے برطانیہ حکومت کی ساز باز سے سرزمین نزول وحی و قرآن پر اپنی خیانت کاریوں سے مسلط ہوگیا اوران نجدی لٹیروں کے سیاہ کارنامے اسی وقت لوگوں پرآشکار ہونے لگے تھے۔ جب یہ برسر اقتدار آئے۔انھوں نے اسلامی شعائر اور مقدسات اسلام کی بے دریغ حرمت کا ارتکاب کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا میں ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی۔جب فرزندان توحید کا احتجاج اس کی نئی حکومت کے لئے خطرہ بننے لگا تو اس نے اپنے سارے فتنوں کو ایک مدت تک کے لئے ملتوی کردیا۔معاصر عہد میں وہی نجدی ڈاکووں کے فتنے نے ایک نئی صورت کے ساتھ ظہور کیا ہے ۔ جس نے پورے مشرق اوسطیٰ میں کشت وخون قتل و غارت گری اور جنگ وجدال کے بازار کو گرم کر رکھا ہے۔جس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے عراق و سیریا ،یمن و بحرین کی سرزمین کو سرخ کردیا گیا ،اور ہنستے مسکراتے ہوئے لوگوں کے گھروں کو بھی ویران قبرستانوں میں تبدیل کردیا۔ ان بے رحم اور سفاک گروہوں نے شہروں کے گلی کوچوں ،چوک و چوراہوں پر موت کا ایک ایسا تانڈو مچایا جسے دیکھ کر آج ساری دنیا سکتے میں ہے،یہ ایک ایسا ناگفتہ بہ کارنامہ ہے جسے صدیاں نہیں بھلا سکتیں۔

اصل میںریاض حکومت کے یہ سارے منصوبے محض اپنے تخت واقتدار کے تحفظ کے لئے ہیں ناکہ انسانیت کی بقا اور اسلامی اقدار کی پاسداری کے لئے۔ان کا تعلق کسی بھی طرح سے اسلامی نہیںہے،انھوں نے صہیونیت اور عیسائیت کے بنائے ہوئے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ملت اسلامیہ کے شیرارزے کو منتشر و پراگندہ کر کے رکھ دیا۔سیریا ، عراق ، یمن اور بحرین پرلشکری کشی اور دہشت گردی کا صرف ایک ہی مقصد ہے ۔کہ وہ یہودیوں کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کریں جسے گریٹیر اسرائیل کا نام دیا گیا ہے۔لیکن امریکہ اور اسرئیل کا یہ ایک ایسا خوفناک خواب ہے جس کی تعبیرممکن نہیں اس لئے کہ اس خواب کا مقدر وحشت زدہ رات کی سیاہیوں سے عبارت ہے جس کے مقسوم صرف اور صرف شکست ہے۔اس خواب کے نہ پورا ہونے کی سب سے بڑی وجہ وہ جنگ زدہ ممالک ہیں ،جنھوں نے اپنے عزم و استقلال سے ان کے نتھونوں کو ریگستان کی چٹانی پہاڑیوں پر رکھ کر ایسے رگڑ دیا ہے کہاب ان کی حالات ایک بے مہار وحشی اونٹ کی طرح ہوگئی ہے ،کہ جو خود اپنے قابو نہیں ۔سیریا ،عراق ،یمن و بحرین پرمسلط کی جانے والی دہشت گردی کی آگ نے اب خود ان نجدی ڈاکووں کو اپنے زد میں لے لیا ہے۔دہشت گردی کی یہ مصیبت اب ان کے گلے آن پڑی ہے۔اب انھیں اس سے راہ فرار کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک بہت بڑے سیاسی ہتھکنڈے کا استعمال اسلامی ممالک کے آپسی اتحاد کے نام پرایک عسکری طاقت کو اجتماعی شکل دینے کے لئے ضرور کی تھی لیکن اس میں بھی وہ ناکام رہے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس عسکری اتحاد گھنٹی جنرل راحیل شریف کی گردن میں پنہائی گئی تھی،لیکن انھوں نے وقت رہتے ہی اپنے گردن سے اس گھنٹی کو اتار پھینگی ورنہ کسی اقدام کی صورت میں پاکستان مزید نئی دشواریوں سے میں گرفتار ہونے والا تھا۔

سعودیہ حکومت کے تمام الائنس اب اس بات کو دھیرے دھیرے سمجھ چکے ہیں کہ سعودیہ حکومت کا یہ جابرانہ اقدام قطعی اسلامی نہیں ہے۔ بلکہ یہ سارے کام امریکہ اور اسرئیل کی خوشنودی کے لئے انجام دئے جارہے ہیں۔حال ہی میں امیر قطر نے ریاض حکومت سے اپنے تمام مراسم ختم کردئے ہیں،یہاں تک کہ قطر میں موجود سعودیہ کے سفارت خانہ کو بھی وہاں کے عوام نے توڑ کر زمیں دوز کردیا ۔قطری عوام نے یہ عمل انجام دے کر سعودیہ حکومت کو یہ کھلا ہوا پیغام دیدیا ہے کہ سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن ہم اب تمہارے جرائم میں شریک نہیں ہوسکتے۔حالانکہ قطر ایک ایسا ملک ہے جس نے سیریا ، عراق اور یمن میں لڑنے والی دہشت گرد تنظیموں کی سعودیہ حکومت کی سرپرستی میں کافی مالی امداد کی تھی، بالکل اسی طرح سے جیسے اخوان المسلمون جیسی آزادی عرب کی بڑی تحریک کو ختم کرنے کے لئے مصر کی کھل کر مالی امداد کی تھی۔

لیکن آج قطر کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ سعودیہ حکومت کا ساتھ دینے کا مطلب اپنی حکومت پر فاتحہ پڑھنے کے مترادف ہے۔اس لئے قطر نے اپنا راستہ الگ کر لیا ،اور اس بات کا کھل کر اعلان کردیا کہ ہم ایران اور اس کے حلیف ملکوں کے ساتھ ہیں ۔اس کا انجام چاہے جو ہو،قطر کے اس اعلان کے بعد سعودیہ حکومت کے ایوان میں ایک ہچل مچ گئی اور ریاض حکومت نے فوری طور پر قطر کے سوشل بایکاٹ کا اعلان کردیا ،یہاں تک اس اجتماعی بائکاٹ میں سعودیہ سے برآمد کی جانے والی تمام اشیائے خوردنی پر بھی پابندی عائد کردی گئی ۔ریاض حکومت کے اس اقدام سے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ میں تشویش کاماحول ضرور پیدا ہوگیاہے۔ لیکن اس کے برعکس جیسے ہی ریاض حکومت نے یہ فیصلہ لیا۔ ادھرایران نے غذائی قلت اور دیگر اشیائے خوردنی کے بحران سے جوجھ رہے قطر کے لئے اسلامی اور انسانی اخلاقی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک سے اس قلت کے تدراک کے لئے اپنے بحری اور ہوائی راستوں کے ذریعہ قطری عوام کے لئے زندگی کی تمام ضرورتوں کو پوراکرنے والے ضروری سامان بھیجنے شروع کردیے۔ایران کے اس عمل سے ایک بار پھر سعودیہ عربیہ اور اس کے حلیف ممالک کو ایک بڑی شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔

ریاض حکومت کے اس اقدام پر دنیا کے بڑے مبصرین اور دانشوروں نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیااور سعودیہ عربیہ کی اس غیر انسانی حرکت پر مذمت بھی کی۔یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سابق جنرل سکریٹری کوفی عنان نے یہ بات صاف لفظوں میں کہی۔’’سعودیہ ڈالروں کی مدد سے خلیجی ممالک پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کی وجہ سے وہ عنقریب اکیلا ہوجائے گا،سعودیہ ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اس کے خواب بہت بڑے ہیںوہ کبھی بھی مسلم ممالک پر حکمرانی نہیں کرسکتا ۔‘‘یہاں تک کہ ترکی کے صدر طیب رجب اردگان نے بھی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس با ت کا اعتراف کیا کہ سعودیہ نے قطر محاصرہ کرکے انسانی حقوق اور اسلامی آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔اُسے ایسا قطعی نہیں کرنا چاہئے تھا۔

ایک اور عالمی تجزیہ نگار ابو الوفا ہندی نے یہ تحریر کیا ۔’’سعودی عرب و دیگر ملکوں کے اس اقدام کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ’’آل سعود‘‘ آج کے منفاقین و ملحدین کے سرغنہ ہیں،اللہ انھیں کیفر کردار تک پہونچائے گا۔میں اس بات سے اتفاق رکھتا ہوں کہ ظالم چاہے جتنے حربے استعمال کر لئے اور چاہئے جتنے پینترے بدلے لیکن اس کا انجام عبرت ناک ہی ہوتا ہے۔آج سعودیہ کی حالت اسی شعلے کی ’’بسنتی‘‘ کی طرح ہے جو اپنے یار (اسرائیل اور امریکہ ) کو بچانے کے لئے خود ان ڈاکووں کے سامنے رقص کررہی ہے جو خود ان کی عزت لوٹنے کے لئے آمادہ ہیں۔ اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو اس دن کو یاد کریں جب امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ریاض پہونچے تھے، تو ان کے استقبال میں نجد کی ایک کمر خمیدہ بوڑھیا (شاہ سلمان) اپنے ہاتھوں میں تلوار لے کر رقص کررہی تھی۔تاکہ اس کے یار ،ان سے خوش ہوکر ان کی جان بخشی کریں۔شاید یہ بھول گئے کہ وہ جن ہاتھوں میں تلوار لے کر رقص کررہے تھے وہی تلوار اب ان کی شہ رگ پر رکھ دی گئی ہے جس کی سفاک دھار ایک ہلکی سے جنبش کے ساتھ ان کا کام خود تمام کرسکتی ہے ۔اور اس عبرتناک انجام کا قصاص خود ان کی ہی گردن پر ہوگا۔لیکن کیا کیا جائے اب تو مجبوری ہے ،بستنی ان ڈاکووں کے جال میں پھنس چکی ہے اب اسے اپنے یار کی جان بچانے کے لئے ناچنا تو پڑے گا ہی۔