شاہدؔکمال

اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام افراد کا اپنا ایک خاص عقیدہ اور مذہب ہے، ہر انسان اپنے عقائد کے اعتبار سے اور اپنے مذہبی و مسلکی رسومات کو اپنی سماجی اقدار کی بنیاد پر بڑے عزت واحترام کے ساتھ ادا کرتا ہے۔انسان کا سماجی و اخلاقی آئین کسی انسان کو بھی اپنے عقائد کے اظہار اور اپنے مذہبی رسوم کی ادائیگی پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے عالمی شعبہ کی طرف سے بنائے گئے آئین کے مطابق ہرانسان کو اظہار خیال کی آزادی کے ساتھ اپنے ذاتی زندگی کے دیگر امور کو انجام دینے کی کھلی ہوئی آزادی ہے۔کسی کے مذہب و مسلک میں مداخلت کی کسی کو قطعی اجازت نہیں ۔

لیکن اگرہم موجودہ عہد کی تازہ صورت حال کا عالمی پس منظر میں مطالعہ کرنے کی کوشش کریں تو ایک بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کے تحفظ و پاسداری اور اس کے اظہار خیال کی آزادی و مذہبی اور مسلکی رواداری کے لئے بنائے گئے سارے آئین سامراجی و استعماری طاقتوں کے سامنے اپنا دم توڑ رہے ہیں۔مذہبی تشدد اور بربریت کا جنون ایک عفریت کی صورت میں لوگوں کو نگل جانا چاہتا ہے۔انسانیت دم توڑ رہی ہے،آدمی مر چکا ہے،ہرطرف ایک نادیدہ اور ناشنیدہ طوفانوں کا شور ہے جس میں سسکتی ہوئی روحوں اور چیختی ہوئی آوازوں کا ایک ایسا بے ہنگم تلاطم خیز سیلاب ہے ،جو گرہ گوش شخص کو بھی صور اسرافیل سے کم نہیں لگتا۔یہ دنیا اپنے ہلاکت خیز انجام کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ہر انسان مذہبی بالادستی کی ہوڑ میں لگا ہوا ہے ،جس کی وجہ سے ہمارے سامنے یہ شدید ترین مشکلات اور نئے نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ہم کسی اور مذہب کی بات نہ کرتے ہوئے موجودہ عہد میں عالم اسلام پر گزرنے والی قیامت کا اندازہ لگائیں۔تو آپ یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ،کہ مذہب کے نام پر اپنی ذاتی رائے کو کسی کے اوپر مسلط کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے، سوائے خونریزی اور قتل و غارت گری کے ،وہ بھی اسلام جیسے سافٹ کارنر رکھنے والے مذہب کے نام پر جس میں بڑا واضح اعلان موجود ہے ۔ ۔۔۔’’لکم دینکم ولی دینـ‘‘ (تمہارا دین تمہارے ساتھ اور ہمارا دین ہمارے ساتھ)کسی کو جبریہ طور پر بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرے۔ایسا کرنا اسلام کے بنیادی اور اُس کے اساسی آئین کے خلاف ہے۔اس لئے قرآن کا صریحی حکم ہے کہ ’’لااکراہ فی الدین‘‘(دین میں کسی طرح کا جبر نہیں )تقریباً یہی حکم دینا کے ہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو دیا ہے ۔سوائے یہودیت کے ۔اس لئے کہ یہودیت کی اہم کتاب ’’تلمود‘‘ جسے موجودہ عہد میں ’’گولڈن بک‘‘ کہا جاتا ہے ،اس کے مطابق اس زمین پر یہودی ہی ایک ایسی قوم ہے جس کو خدا نے اس کائنات پر حکومت کرنے کا مجاز قرار دیا ہے۔لہذا حکومت کے حصول کے لئے ہر و ہ فعل انجام دیا جاسکتا ہے ،جو انسانی سماج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن مذہب اسلام میں انسانی اقدار کی بحالی اور آپسی رواداری اور جذبہ خیر سگالی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اس کے باوجودمسلمانوں میں مذہب کے نام پر ایک سخت گیر نظریہ رکھنے والوں نے اسلام کے نام کو پوری دنیا میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ان کے یہ نظریات صرف دوسرے مذاہب کے خلاف ہی نہیں بلکہ اسلام کو ماننے والے بہت سے مسلک کے خلاف ہیں ،جسے وہ کافر گردانتے ہوئے ان کے قتل و خون کا جائز سمجھتے ہیں۔یہاں تک وہ اسلام کے سب سے عظیم و بابرکت مہینہ جسے ’’سید الشہور‘‘ مہینوں کا سردار یعنی رمضان المبارک کہا جاتا ہے،یہ مہینہ اسلام میں بڑی اہمیت اور فضیلت رکھنے والا مہینہ ہے۔اسے خاص کر عبادات سے مختص کیا ہے ، اور ہر طرح کی برائیوں سے پرہیز کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے ، اور اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے اور اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے ۔اس مہینے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں اللہ شیطان کو مقید کردیتا ہے ۔لیکن جب میں مشرق اوسطیٰ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو وہاں شدت پسندی اور دہشت گردی کے بلند ہوتے ہوئے شعلوں میں جلتے ہوئے مکانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے سارے شیاطین کی موجودہ قیام گاہ یہی وہ جگہ ہے جہاں اپنی جان کے تحفظ کے لئے ادھر سے ادھر بھاگتے ہوئے لوگ،ماوؤں کی آغوش میں دم توڑتے ہوئے معصوم بچے ضعیف باپ کے سامنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے نوجوان بیٹے۔ایک عجیب قیامت خیز منظر ہے۔لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

آج دنیا کے مختلف اسلامک ممالک کے تمام مسلمان مارہ رمضان کی آمد کا استقبال کررہے ہیں ۔لیکن مشرق اوسطیٰ کے بعض ممالک خاص کر فلسطین ،بحرین، شام، عراق ایک قیامت انگیز حالات سے نبرد آزما ہیں ان کے چاروں طرف جنگ ، قتل عام ، افلاس ، غربت ، بھک مری، مہاجرت آوارہ وطنی جیسی شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔مشرق اوسطیٰ میں اس بار بھی ماہ صیام کا استقبال خاک اور خون کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔ان مسلمانوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔عالمی طاقتیں مزید ان کے زخموں کو کریدنے پر لگی ہوئی ہیں۔ایسی صورت حال میں ان علاقوں میں لوگ کیسے روزہ رکھتے ہوں گے اور سحر وافطار کا انتظام کہاں سے ہوتا ہوگا۔یہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے۔

ایک طرف اس سال رمضان کے اس مقدس مہینے میں اٹھارہ لاکھ سے زائد مسلمان غزہ پٹی میں صہیونی بربریت کے محاصرے میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لیکن یہ صہیونی طاقتیں اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے انسانی جانوں کے زیاں کا بھی خیال نہیں رکھتے دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں کی درخواست پر توجہ نہیں دے رہے۔ہیومن رائٹس واچ کمیشن کی اپیل کہ رمضان المبارک میں غزہ کے باشندوں پر حملے نہ کئے جائیں لیکن غاصب صیہونی حکومت اپنے غیر انسانی اقدام کو جاری رکھنے پر بضد ہے کیوںکہ اسکی حقیقی ماہیت ہی انسانیت دشمنی پر استوار ہے۔ غزہ کے مظلوم عوام کی اس حالت زار کو بیان کرنا ناممکن ہے۔

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مشرق اوسطیٰ میں جنگ زدہ علاقوں میں غذائی اشیا اور پانی کی قلت کو پورا کرنا وہاں کے باشندوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔دوسری طرف وہ مہاجر جو یورپین کنٹری میں مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ان کے لئے روزہ رکھنا اور رمضان کے دیگر عبادات کے فرائض کو انجام دینا بڑا مشکل امر ہے۔فلسطین ،شام، عراق سے کہیں زیادہ خطرناک موجودہ صور حال یمن اور بحرین کی ہے۔اس لئے کہ سعودیہ عربیہ اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے ان پر مسلط کی جانے والے جنگ اورہر روز ہونے والی ہوئی بمباری سے یمن بری طرح سے تباہ ہوچکا ہے ، وہاں کے ہاسپٹل ، اسکول ، کالج، یہاں تک مساجد کو بھی بمبوں سے تباہ کردیا گیا ہے۔اب اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی کی مسجد میں نماز پڑھ رہے روزہ دار وں پر بھی بم گرانے سے سعودیہ حکومت کو گریز نہیں ۔یہاں تک کہ یمنی عوام اپنی زندگی کی بنیادی ضرورت خوراک، لباس اور محفوظ چھت ان کے لئے ایسا خواب ہے جو صرف ایک حسرت بن کر رہ گیا ہے۔ ہوائی حملوں میں بجلی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اور یمن کے کم از کم 14 ملین شہری جنگ کی وجہ سے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

دوسری طرف بحرین اسوقت شدید بحران سے گزررہا ہے چونکہ سعودیہ حکومت کے زیر کفالت آل خلیفہ کی حکومت بحرینی مسلمانوں میں پر مسلسل تشدد کئے جارہی ہے ۔یہاں پر خاص کر ایک قبیلے اور مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، جس کا مقصد ان کی نسل کشی کرنا ہے۔ریاض حکومت اپنے اقتدار اور تخت و تاج کے نشہ میں یہ بھول گئی ہے کہ اس کے بندوں اور خاص کر رمضان المبارک جیسے پاک مہینے میں اللہ کے مہمانوں کے ساتھ اس طرح کا وحشیانہ اور ظلم و جور سے بھرا ہوا قدام اور حالت روزہ میں اللہ کے مہمانوں کا قتل سعویہ حکومت کے لئے ایک عبرناک انجام ثابت ہونے والا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے۔’’ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں ، عنقریب ظالموں کو زیر و زبر کردیا جائیگا۔‘‘