طلاق ثلاثہ کی حمایت میں جمعیۃ علماء نے دلائل پیش کیئے

ممبئی: طلاق ثلاثہ اور حلالہ پر سپریم کورٹ میں جاری بحث میںآج جمعیۃ علما ہندء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجو رام چندرن نے بحث کی اور پانچ رکنی بینچ کو بتایا کہ ہندوستان میں حنفی مسلک کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور حنفی مسلک کے مطابق ایک بار میں دیا گیا تین طلاق قابل عمل ہے اور اسے طلاق مان لیا جاتا ہے حالانکہ اسے علماء نے معیوب قراردیا ہے اور علماء اور دانشور ہمیشہ اس عمل سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔نیز یہ ایک قانونی پالیسی ہے جسے عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر تسلیم کیا جانا چاہئے ،کیونکہ اس سے قبل کئی عدالتیں اس پر نظر ثانی کر چکی ہیں اورمسلم پرسنل لاء آئین ہند سے مختلف ہے ۔

ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کو قرآن کریم ، کئی مستند احادیث اور متعدد فقہی جزئیات کا حوالہ دیتے ہوئے طلاق ثلاثہ کو جائز قرار دیا اور کہا کہ یہ کہنا درست ہیکہ قرآن شریف میں طلاق ثلاثہ کے مطابق کچھ لکھا نہیں ہے لیکن مستند احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ طلاق ثلاثہ کا وجود ہے اور احادیث اسلام کا ایک حصہ ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ایڈوکیٹ راجو رام چندر نے چیف جسٹس آف انڈیا جگدیش سنگھ کہر کی سربراہی والی پانچ رکنی بینچ جس میں جسٹس کورین جوزف، جسٹس روہنتن فالی نریمان، جسٹس ادئے امیش للت اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو بتایا کہ مسلم پرسنل لاء کوقانونی حیثیت حاصل ہے نیز ’’ریفارم‘‘ کے نام پر شریعت میں ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے نیز انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ طلاق ثلاثہ کی مخالفت کرنے والے گروپ نے عدالت میں ایسا کوئی بھی جواز پیش نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے بلکہ انہوں نے بس مسلم خواتین پر ظلم ہورہا ہے کا ہوا کھڑا کیا ہے ۔

ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کو بتایا کہ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہیں کہ ۱۴؍ سو سالوں سے زائد عرصہ جاری اس پریکٹس کو یوں ہی ختم نہیں کیا جاسکتا نیز آج حکومت کو مسلمانوں کو درپیش دیگر مسائل دیکھائی نہیں دیتے بس انہیں طلاق ثلاثہ ہی ستائے جارہا ہے ۔

ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے کہا کہ عدالت کا کام صرف یہ دیکھنا ہے کہ مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی جارہی نا کہ کسی مخصوص مذہبی عقائید پر پابندی عائد کرنا ، اگر عدالت ایسا کرنے لگی تو ہندوستان میں بسنے والی دیگر قوموں کی ایسی مذہبی رسومات کو ختم کرنا ہوگا جس سے کسی نہ کسی کی دل آزاری ہوتی ہو ۔

دوران بحث ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے ہائی کورٹ کے مختلف حکمناموں کے ساتھ پڑوسی ملک پاکستان سپریم کورٹ کے طلاق ثلاثہ پر دیئے گئے فیصلوں کی نقول کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے رائٹروں کے آرٹیکلس بھی پیش کیئے جس میں انہوں نے طلاق ثلاثہ کو جائز قرار دیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ انٹرنیشنل کونویشن میں ہندوستان نے اس بات کو تسلیم کیاہیکہ کسی بھی کمیونٹی کی مرضی کی بجائے خواتین اود دیگر لوگوں کے حق میں فیصلہ نہیں کیا جائے لہذا اس معاملے میں ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں حنفی مسلک کے ماننے والوں کا یہ یقین ہیکہ ایک مرتبہ میں کہا گیا تین طلاق طلاق ہوجاتا ہے اور اس میں کوئی گنجائش نہیں بچتی ۔

معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ سال ۰۱۵ ۲ میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس معاملے میں از خود ’’سو موٹو‘‘ پٹیشن کی سماعت کرنے کے احکاما ت جاری کیئے تھے جس کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر مولانا مستقیم احسن اعظمی نے طلاق ثلاثہ ،حلالہ اور تعدد ازدواج کی حمایت میں سب سے پہلے فروری ۲۰۱۶ میں عدالت عظمی سے رجوع کیا تھا جس کے بعد دیگر مسلم تنظیمیں بشمول مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر نام نہاد مسلم خواتین کے حقوق کا دعوی کرنے والی تنظیمیں بھی آگے آئیں تھیں ۔