محمد خالد

یہ بھارتی مسلمانوں کا اعلانیہ متحدہ پلیٹ فارم ہے اور ملت اسلامیہ کے تمام معاملات میں اس کو سند کا درجہ حاصل ہے. ہمارے نزدیک سب سے پہلے اس کے نام کی اصلاح ہونا چاہئے، کیونکہ اسلام خالقِ کائنات کا دیا ہوا طریقہ زندگی ہے اور یہ پوری انسانیت کے لئے ہے، چاہے کوئی اس کو قبول کرے یا انکار کرے. اسی بنیاد پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ، اللہ نے ہر انسان کو اپنے دین پر پیدا کیا ہے، ہم اس کو مختلف حیثیت سے پکارتے ہیں، لہٰذا مسلم پرسنل لاء کی جگہ اس کا نام "مسلم یونیورسل لاء بورڈ "ہونا چاہئے. واضح رہے کہ اسلام کے شدید دشمن عیسائیوں نے اپنے دور حکومت میں "محمڈن لاء" کے نام سے اس کا آغاز کیا تھا، ہم نے محمڈن کو مسلم کردیا. ظاہری طور پر یہ ملت کی متحدہ تنظیم ہے اور اس میں سبھی مسالک کی نمائندگی کا اہتمام کیا گیا ہے مگر اس بات پر کوئی غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ جب کسی بھی مسئلے میں ایک سے زائد طریقے کو اختیار کیا جائے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی مسئلے میں ایک متحدہ و متفقہ راستہ طے کیا جا سکے، اس کی بہت واضح کیفیت ہمارے سامنے موجود ہے کہ دسیوں سال سے بورڈ کے ذریعے ایک "ماڈل نکاح نامہ" کا فارم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر آج تک یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے،جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسا فارم بن پانا کیسے ممکن ہے جو سبھی مسلک کے لوگوں کے لئے قابل قبول ہو. اللہ رحمان و رحیم نے زندگی کے تمام معاملات کی ادائیگی کے لئے ہم کو اپنی ہدایت سے نوازا ہوا ہے لہٰذا اللہ کی ہدایت کے مطابق ہی ہم کوئی ایسا طریقہ کار بنا سکتے ہیں جو کہ ہر ہوش مند اور اللہ پر ایمان رکھنے والے افراد کے لئے قابل عمل ہو اور اس پر عمل کرکے اس کو نہ صرف اپنے مسائل کا حل ملے بلکہ اس کے ذہن کو سکون بھی حاصل ہو. اللہ کی دوسری بڑی نعمت یہ ہے کہ اللہ نے حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم کی شکل میں ایسا اسوہ عطاء فرمایا ہے کہ جس میں زندگی کے مسائل کی عملی تصویر موجود ہے. خطبہ حج الوداع میں آپ صل اللہ علیہ و سلم نے بہت واضح طور پر بتایا تھا کہ ہم تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہے ہیں، جب تک ان کو تھامے رہوگے، راہ راست پر رہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے آخری رسول و پیغمبر صل اللہ علیہ و سلم کی سنت. ہم اگر خود کو نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کا امتی سمجھتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے عمل سے اس کا ثبوت دیں، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس زندگی میں تو ہم ذلت کا شکار ہیں ہی، آخرت میں بھی رسوائی ہی ہاتھ لگے گی. اللہ ہم سب کو اپنی ہدایت اور اپنے نبی صل اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین.

(نوٹ: ہماری تحریر کا قطعاً مطلب کسی بھی امام کا انکار نہیں ہے، لیکن ساتھ ہی امام حضرات کی اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اگر ہماری کوئی بات نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی سنت کے خلاف ہو تو اس کو دیوار پر مار دیا جائے، لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم فقہ کو اتنی ہی اہمیت دیں جتنی دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے ضروری ہو) اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو