عادل فراز

گئوماتا کے نام پر گئو بھگتی اور گئو بھگتی کے نام پر غنڈہ گردی کا بازار گرم ہے ۔گئو محافظ تنظیمیں جانور وںکے تقدس کے نام پر انسانوں کا بہیمانہ قتل کررہی ہیں اورجمہوری ملک کا قانون اپاہج کی بیساکھی سے بھی زیاد ہ کمزور نظر آرہاہے کہ نہ کسی کو سہارا دے سکتاہے اور نہ کسی کمزور کادفاع کرنے کی حیثیت میں ہے ۔حد یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون بنانے والے گئو رکشک وزیر بھی انسانوں کے بے دریغ قتل پر مختلف جواز پیش کررہے ہیں اور حزب مخالف اتنا کمزور نظرآرہاہے کہ جس کی چیخیں بھی صدابصحرا ثابت ہورہی ہیں ۔ظاہر ہے جس اپوزیشن کو ملک کی عوام نے دھتکار دیا ہو اسکی ایوان میں کیا حیثیت ہوگی ۔

مسلمان بھی گئو رکشکو ں کی غنڈہ گردی سے اس قدر سہمے ہوئے ہیں کہ عدالتوںمیں فریاد کرتے نظرآرہے ہیں یا اکثر فردیادیوں کو عدالتوں میں حزب مخالف کھڑاکررہاہے کہ کسی طرح مردہ سیکولر جماعتوں میں روح پھونکی جاسکے ۔مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی اپنا نظریہ پیش نہیں کرتے بلکہ آرایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیمیں جو ایک بار اسلامی تعلیمات کے نام پر انہیں رٹوادیتی ہیں وہی رٹو طوتے کی طرح دہراتے پھرتے ہیں ۔جیسے گئو رکشک تنظیموں نے پیغمبر اسلامؐ کی حدیث نکال کر مسلمان مولویں کے ہاتھ میں تھمادی کہ گائے کے دودھ میں شفا ہے اور اسکا گوشت صحت کے لئے مضرہے۔ہر نیوز چینل پر ڈبیٹ میں شامل ہونے والے نام نہاد دانشور حضرات اور اونچی اونچی ٹوپیاں لگاکر مسلمانوں کے نام نہاد ترجمان اسی حدیث کو دہرادہرا کر اپنی عزت بچاتے پھررہے ہیں ۔بیچارے کریں بھی تو کیا کریں کیونکہ اگر یہ شریعت اسلامی کا مطالعہ اخلاص کے ساتھ کرتے تو نیوز چینلوںکی ’’ پیڈ ڈبیٹس‘‘ میں شامل ہونے کے بجائے ایسے موضوعات پر کالم لکھتے ،عوام کے درمیان جاکر بیداری پیداکرتے اور نوجوان نسل کی ترقی کے لئے لٹریچر کی آمادگی کے ساتھ انکے لئے مضبوط لائحۂ عمل ترتیب دیتے مگر چونکہ انکی حیثیت ایسی نہیں ہوتی کہ پڑھی لکھی نوجوان ماڈرن نسل انہیںقبول کرسکے اس لئے ادھر اُدھر منہ مارتے گھومتے ہیں ۔حلال کو حرام ثابت کرنےپر تلے ہیں اور وقت پڑا تو حرام کو حلال بھی ثابت کردین گے ۔کیا مسلمانوں میں ایسے مسالک نہیں ہیں جنکے یہاں کتے کا گوشت کھانا جائزہے ۔فقہی مسائل میں کتے کے گوشت کے جواز پیش کئے گئے ہیں ۔کیا ایسے افراد ہندوستان میں کتے کے گوشت کے لئے الگ سے ذبیحہ خانوں کا مطالبہ کریں گے ؟یا جن ملکوں میں ایسا ہوتاہے انکے نام میڈیا کے سامنے پیش کرینگے ۔؟لہذا فضول کے مباحث میں الجھ کر دشمن طاقتوں کی سازشوں کاشکار نہ ہوں اور اپنی نسل کو تعلیم یافتہ بنائیں خالص گوشت خور یا گوشت تاجر نہیں ۔

اسلامی آئین کی روشنی میں بھی وقت اور حالت کے مختلف تقاضے ہوتے ہیں ۔گوشت خوری کا مسئلہ اصول دین میں نہیں ہے کہ اگر گوشت نہیں کھایا تو مسلمان دین سے خارج ہوجائے گا ۔دوسرے یہ کہ ہندوستان میں گئو کشی کی حرمت پر سعودی عربیہ ،ایران یا عراق سےفتویٰ منگاکر اپنی گئوپرستی اور آرایس ایس نوازی کا ثبوت دینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔شریعت کا واضح مسئلہ موجود ہے کہ ہر وہ چیز جو تمہاری عزت و آبرو کے لئے خطرناک ثابت ہو حرام ہے (مسائل شریعت میں زمان و مکان کے تقاضے بھی دیکھے جاتے ہیں اور کوئی حکم ایسا نہیں ہے جس میں تخصیص نہ ہو)۔دوسرے یہ کہ دوسروں کے مقدسات کی اہانت کرنا جائز نہیںہے چہ جائیکہ کسی ایسے جانور کا ذبیحہ کرنا جو دوسرے مذاہب میں محترم سمجھا جاتاہو ۔ان کلی احکامات کے بعد نا کسی فتوی کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور نہ فتووں کے راگ الاپنے کی ۔اس وقت ہندوستان میں گئو رکشک دلوں کی غنڈہ گردی اپنے عروج پر ہے ۔قانون اورپولس بھی انکے سامنے بے بس ہیں یا وہ بھی خواستہ و نخواستہ انہی کے حامی ہیں لہذا ایسے وقت میں جب گائے کا مسئلہ جان ،مال اور آبرو کے تحفظ کے لئے خطرناک بن گیاہے اس مسئلہ کی نوعیت اور کیفیت واضح ہے ۔دوسرے یہ کہ گائے کو ہندومذہب میں مقدس سمجھا جاتاہے اور برادران وطن اسے ’’ماں ‘‘ کا درجہ دیتے ہیں اس لئے مسلمانوں کے لئے یوں بھی گائے حرام ہوجاتی ہے ۔مگر مسلمان گائے کو ’’ ماں ‘‘ بناکر پوجنے لگیں یہ بھی ممکن نہیں ہے ۔

آرایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں کو غور کرنا ہوگا کہ ہندو برادری صرف ہندوستان میں ہی اکثریت یا اقتدار میں ہے ۔دوسرے اہل ہندود جن ملکوںمیں زندگی بسرکررہے ہیں وہاں گائے دھڑلے سے کٹ بھی رہی ہے اور اسکا گوشت بکتا بھی ہے ۔وہاں نہ گئو رکشک دلوں کی اتنی ہمت ہےکہ آواز بلند کرسکیں یا اسطرح غنڈہ گردی کرسکیں اور جن ملکوں سے گائے کی حرمت پر فتویٰ آرہے ہیں وہاں گائے کے گوشت پر کوئی پابندی نہیں ہے کیونکہ گائے انکے یہاں مذہبی تقدس کا درجہ نہیں رکھتی۔ہندوستان میں بھی ہر قوم اور ہر مذہب کے ماننے والے گائے پالتے ہیں۔راجستھان ،ہریانہ ،گجرات اور پنجاب جیسے علاقوں میں گائے ہر مذہب کے ماننےوالوں کے کھونٹے پر بندھی مل جائے گی ۔وہ گائے کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اسکا دودھ دُہتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں یا کاروبار کرتے ہیں۔گئورکشک دلوں کی غنڈہ گردی کے بعد گائے کے تحفظ کا مسئلہ تو دور لوگوں نے گائے پالنا بھی چھوڑ دیاہے ۔اگر ایساہی ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب شہروں اور دیہاتوں کی سڑکوں پر ہر طرف آوارہ گائیں گھومتی نظرآئینگی اور سڑکوں سے گوبر صاف کرنے کے لئے سرکاروں کوگوبر صفائی کے لئے بھی ’’صفائی ابھیان ‘‘ چلانا پڑیگا ۔

سرحدی علاقوں میں اھل ہندود بذات خود گائے پکڑ پکڑ کر مسلمانوں یا دوسری ذات کے افرد کے حوالے کرتے ہیں ۔آوارہ گائیں انکی کھیتیاں تباہ کردیتی ہیں اور فصلوں کا بھاری نقصان اٹھانا پڑتاہے ۔اس لئے گائے پکڑکر وہ خود نہ تو بیچ سکتے ہیں اور نہ پال سکتے ہیں کیونکہ انکے گھروں میں پہلے سے ہی گائے بندھی ہوتی ہے لہذا گائےپوجنےوالے لوگ ہی اسے منڈیوں میں فروخت کرنے کے لئے مفت دیدیتے ہیں یا پھر معمولی قیمت پر نیلام کردیتے ہیں ،بعض علاقوں میں جہاں گائے کٹتی تھی وہاں اہل ہندود جانتے ہوئے بھی معمولی قیمت پرگائے قصائیوں کو فروخت کردیتے تھے تاکہ فصلوں کے نقصان سے بچا جاسکے ۔اس خریدوفروخت میں پولس والے بھی شامل ہوتے ہیں اور وہ بھی جانتے ہیں گائے کس کے یہاں دودھ کے لئے بندھی ہوتی ہے اور کسکے کھونٹے پر کٹنے کے لیے بندھی ہے ۔سو پچاس روپوں کے عوض گئو پوجا کرنے والے پولس والے ہی گائے کو کٹنے کے لئے چھوڑدیتے ہیں اور قصائیوں یا گائے بیچنے والے ہندئوں کے کھونٹے سےگائے کی رسی کھول کر پولس تھانوں میں لاکر نہیں باندھتے کیونکہ دودھ کے لالچ کے چکر میں وہ بھی جانتے ہیں کتنا گوبر صاف کرنا پڑیگا ۔یہ کام جانور پالنے والے کسان ہی کرسکتے ہیں۔یا پھر سرکاریں اور گئو رکشک دل گایوں کے تحفظ کے لئے ہر علاقے اور ہر دیہات و قصبوں میں ’’گئو شالائیں‘‘ بنائیں تاکہ وہاں انکی حفاظت ہوسکے ۔مگر اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ کہ ان گئو شالائوں کے اخراجات اورانکی دیکھ ریکھ کا بجٹ ملک کےاقتصادی بجٹ سے بھی اضافی ہوگا۔

ایسے پرآشوب حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ باالکل گوشت کی خریدوفروخت بندکردیں ۔یقینا ایساکرنا انکی معیشت کے لئے خطرناک ثابت ہوگا ۔مگر گئو رکشکوں اور حکومتوں کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ جانوروں کے پریم میں پھنس کر ملک کی معیشت کس قدر بحران کا شکار ہوسکتی ہے ۔مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہاتھ پھیلانے اور غلامی و خوف کے ماحول میں جینے کی عادت انہیں کسی بھی طرح کی بغاوت پر آمادہ نہیں کرے گی ورنہ حکومتیں سلاٹر ہائوس بھی کھول کر دینگی اور جانوروں کو پکڑ کر انکے ذبیحہ خانوں میں پہونچائیں گی بھی ۔مگر مسلمان گوشت کی آسان تجارت کا عادی ہوچکاہے اور گوشت کی تجارت سے جڑے ہوئے تمام افراد دوسرا کاروبار کرنے میں تساہل سے کام لے رہے ہیں ۔یا اس تجارت کے علاوہ دوسری تجارتوں کا انہیں تجربہ نہیں ہے ۔گھر بیٹھے گوشت کی تجارت کرکے سیاست کا شکار ہونا اور ایک ہی تجارت کے دم پر اپنے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ۔

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ۔