از! (مولانا )محمد عارف عمری

(ناظم شعبہ نشر و اشاعت ،جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی)

ماہ دسمبر جمعیۃ علماء ہند کی تاسیس کا مہینہ اور عجیب اتفاق ہے کہ دسمبر میں ہی جمعیۃ علماء ہند کے تین مرکزی ستون واصل بحق ہوئے، اگلے تین برس میں جمعیۃ علماء ہند ایک صدی پوری کر لے گی۔دسمبر کی 28-29تاریخ 1919کو امرتسر کی سر زمین پر اسلامیہ ہائی اسکول کے وسیع کمرے میں جمعیۃ علماء ہندکا پہلا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا،اور اس کے بانی صدر مفتی اعظم حضرت مولانا کفایت اللہ دہلوی ؒ اور بانی جنرل سکریٹری سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلویؒ نے اسی ماہ میں اس عالم فانی کو الوداع کہا ،نیز جمعیۃ علماء ہند کے صدر دوم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی وفات کا سانحہ بھی اسی ماہ کی 5تاریخ کو پیش آیا،گو یہ اتفاقات ہیں مگر جمعیۃ علماء ہند کے منتسبین کے لئے یہ مہینہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ کے تلامذہ اور منتسبین نے ۱۹۱۹ء ؁ میں حضرت شیخ الہند ؒ کے دورِ اسارت میں جب کہ وہ مالٹا میں مقید تھے ،اس جماعت کی داغ بیل ڈالی۔۲۸؍ دسمبر ۱۹۱۹ء ؁ کو اس کا باقاعدہ پہلا اجلاس امرتسر میں زیر صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی ؒ منعقد ہوا،اورمفتی اعظم مولانا محمد کفایت اللہ دہلویؒ اس کے پہلے صدراورسحبان الہندمولانا احمد سعیددہلویؒ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے ۔اس اجلاس میں ملک کے مشاہیر علماء نے شرکت کی جن میں مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب دہلویؒ ،مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ،مولانا عبدالصمد صاحب بدایونی ،مولاناسیدمحمد فاخر صاحب الٰہ آبادی (سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل ،آلٰہ آباد)مولانا مولوی محمد معین الدین صاحب اجمیری ،مولانا فضل الدین صاحب سیالکوٹی،مولانا نور احمد صاحب بمبئی ،مولانانور احمد صاحب امرتسری،مولاناعلی احمد صاحب لاہوری ،مولوی لقاء اللہ صاحب عثمانی ،مولانا علی احمدصاحب لاہوری (مفسر قرآن)،غازی محمود صاحب،حکیم ابو یوسف اصفہانی صاحب،مولاناحافظ احمد سعید صاحب دہلوی ،سید جالب صاحب ایڈیٹر اخبار ہمدم کے نام قابل ذکر ہیں ۔

جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا اجلاس۱۹۲۰ء ؁ میں اس کے فکری رہنما حضرت شیخ الہندؒ کی صدارت میں دہلی میں منعقد ہوا،جس میں ترکِ موالات کا وہ اہم فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق انگریزوں کے دیئے ہوئے تمام سرکاری خطابات،عہدے،کونسل کی ممبری،فوجی ملازمت ترک کرنا نیز انگلستان سے تجارتی تعلقات ختم کرنا ،سرکاری تعلیم اور عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے بائیکاٹ اور سرکاری امداد سے پر ہیزجیسے تاریخی نوعیت کے فیصلے کئے گئے،اور اس کے دوسرے سال نومبر ۱۹۲۱ء ؁ میں ترکِ موالات کا فتویٰ دوبارہ شائع کیا گیا جس میں ولایتی کپڑوں،سرکاری نوکریوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے برطانوی معاشیات پر گہری چوٹ پہونچائی گئی۔ اسی ترک موالات کے فتوے کے نتیجہ میں حضرت شیخ الاسلا م مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ (صدر دوم جمعیہ علماء ہند)سمیت آٹھ لوگوں پر وہ تاریخی مقدمہ چلا جو کراچی کے مقدمہ کے نام سے مشہور ہے۔

  • ۱۹۲۸ء ؁ میں کانگریس کی رہنمائی میںآل پارٹیز کی طرف سے تیار کی گئی نہرو رپورٹ پرجمعیۃ علماء ہند مسلمانوں کی وہ واحد جماعت تھی جس نے ملکی اور اسلامی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ایک تنقیدی رپورٹ تیار کی جمعیۃ علماء ہند کی تائید اور کوشش سے صوبۂ بہار و اڑیسہ میں امارتِ شرعیہ کا نظام شروع ہوا،نیزجمعیۃ علماء ہند نے کل ہندامارتِ شرعیہ قائم کیجمعیۃ علماء ہند نے سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان کی مکمل آزادی نہایت ضروری اور لازم ہے ،اور اس کی آزادی کی جد وجہد ایک اہم ملکی اور مذہبی فریضہ ہے۔ جمعیۃ علماء کے اس فیصلہ کے برسوں بعد کانگریس اور دیگر ملکی اور اسلامی انجمنوں نے بھی اس نصب العین کا اعلان کیا شرعی حدود کے مطابق غیر مسلم برادرانِ وطن کے ساتھ ہمدردی و اتفاق کے تعلقات کا قیامتقسیمِ ہند کی پوری قوت کے ساتھ مخالفتملک کے مختلف مقامات سے مسلم آبادی کے نقلِ مکانی کی وجہ سے ویران ہوگئے مدارس ،معابد ،ماٰثراور ملی اداروں کو از سر نو زندہ کیاجمہوریۂ ہند کے آئین کی ترتیب تدوین میں نمایاں کارکردگیتقسیمِ ہند کے موقع پر محکمۂ کسٹوڈین کے مظالم کے مقابلہ اور مسلمانوں کی جائیدادوں کوان کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لئے مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ؒ کی قیادت میں ایک قانونی کمیٹی بنائی گئی ،اور قانونی لڑائی کے ذریعہ مسلمانوں کی ۷۰ سے ۸۰ فیصد جائیدادوں کو غیروں کے قبضے سے آزاد کرایا گیا اسلامی اوقاف کے متعلق ایک مسودۂ قانون کی تیاری ،جس کو ۱۲؍ اپریل ۱۹۵۱ء ؁ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا مسلمان طلبہ و طالبات میں دینی تعلیم کے فروغ کے لئے دینی تعلیمی بورڈ کا قیام مسلم پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل اور آل انڈیا مسلم کنونشن کے ذریعہ ہندوستان کے مسلمانوں کوحوصلہ دینے کی کوششمسلم پرسنل لاء کے تحفظ کا مطالبہیکساں سول کوڈکی مخالفت اور مسلمانوں کو دستور کی دفعہ (۴۴)سے مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہاردو یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہجامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی بحالی میں نمایاں کردارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسلسل مطالبہٹاڈا ،پوٹا جیسے ظالمانہ قوانین پر صدائے احتجاجفرقہ وارانہ یکجہتی کے فروغ کی کوشش اور ملک گیر کانفرنسوں کا اہتمام مسلمانوں میں معاشی استحکام پیدا کرنے کی غرض سے مسلم فنڈ کی تحریک مسلمانوں کے لئے پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہفساد متاثرین اور قدرتی آفات کے شکار لوگوں کی باز آبادکاری عصری علوم کے ہونہار طلبہ و طالبات کی تعلیمی امدادسلاخوں کے پیچھے مقید بے قصور دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ نوجوانوں کی قانونی پیروی *آسام و بنگال میں حق شہریت سے محروم کئے گئے خاندانوں کے لئے قانونی چارہ جوئی وغیرہ جمعیۃ علماء ہند کے نمایاں نقوش ہیں۔
    واضح رہے کہ جمعیۃ علماء کے قیام کے وقت ملک کے سیاسی افق پر ’’خلافت تحریک ‘‘کی گونج تھی،اور ترک موالات کی تحریک خلافت کے بینر تلے ہی اٹھ