عادل فراز لکھنؤ

نام نہاد مسلم اسکالر طارق فتح نے ”آپ کی عدالت“ میں رجت شرما کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھاکہ آخر مسلمان اپنے بچوں کے نام عربی ناموں پر کیوں رکھتے ہیں۔یعنی محمد شمس،آفتاب،قاسم،طارق،عثمان وغیرہ۔ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کی زبان کے نام رکھنے میں کیا برائی ہے۔یعنی بچوں کا نام محمد سورج،چندر احمد وغیرہ بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ظاہر ہے یہ باتیں طارق فتح جیسے نام نہاد مسلمانوں کے لئے بہت اہم نہیں ہیں مگر چونکہ یہ باتیں ان سے کہلوائی جاتی ہیں لہذا اہم ہوجاتی ہیں۔اگر ایک مسلمان ایسے سوالات قائم کرتا ہے تو دوسروں کو یہ سوال پوچھنے کا پورا حق ہے کیونکہ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہم بھی ایسی غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں جو دوسروں کو سوال اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔آخر مسلمان بادشاہوں کے کردار کی بنیاد پر اسلام کو فائدہ پہونچا ہے یا نقصان اسکا احتساب ضروری ہے۔آج اگر کوئی یہ کہتاہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے تو وہ صرف مسلم بادشاہوں کی تاریخ کے مطالعہ کی بنیاد پر کہتاہے اور غلط نہیں کہتاہے۔ایسے کرداروں کو اپنا نمونہئ عمل بنالینا کہاں کی عقل مندی ہے؟

کچھ نام ایسے ہیں جو تاریخ اسلام میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔مگر عصر حاضر کے تناظر میں ان ناموں کو رکھنا اپنے بچوں کی سلامتی کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔یہ خطرہ صرف ہندوستان میں نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں بناہوا ہے۔اگرامریکی ہوائی اڈے پر شاہ رخ خان،اعظم خان اور دیگر معروف مسلم چہروں کو روک کر گھنٹوں سوالات کئے جاسکتے ہیں تو غیر معروف افراد کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا جاتا ہوگا اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان ناموں کو بھی مسلکی عصبیت کی بنیاد پر اپنا آئیڈیل بنالیا ہے جو دہشت گردوں کے لئے آئیڈیل ہیں۔ہاں یہ حقیقت ہے کہ جو نام کچھ سالوں میں دہشت گردی کے تناظر میں ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ نام معروف قابل احترام صحابہ ئ رسول کے ناموں پر ہیں۔مگر کیا ان ناموں کو رکھنا ہماری مجبوری ہے؟۔اگر رسول اسلام ؐ ایسی مسجد کو منہدام کراسکتے ہیں جہاں منافق اسلام کے خلاف منصوبہ بندیاں کرتے تھے تو پھر ایسے ناموں کو رکھنے سے پرہیز کیا جاسکتاہے جو آج عالمی سطح پر مشکوک اور بدنام ہوئے ہیں۔مسلمانوں کو نام رکھنے سے پہلے یہ ضرور سوچناچاہئے کہ وہ جس تاریخی شخصیت کے نام پر اپنے بچہ کا نام رکھ رہے ہیں اسکا کردار کیسا تھا؟ کیونکہ رسول اسلامؐ کے قول کے مطابق بچوں پر نام کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بچوں کانام چنگیز خان،ہلاکو خان،اورنگ زیب یا معتصم و جہاں گیر رکھنے سے پہلے کیا ان ناموں کی تاریخ کو پڑھ کر سمجھنا ضروری نہیں۔مسلکی تعصب سے ہٹ کر دیکھنا ضروری ہے کہ کہیں ہم شخصیت پرستی کے شکار ہوکر قرآن او ر سنت پیغمبرؐ کی مخالفت تو نہیں کررہے ہیں؟ایک فرقہ دوسرے فرقہ کی ضد میں ایسے نام کیوں رکھے جو تاریخی اوراق میں اپنے ظلم و ستم کی بنیادپر مشہور ہیں۔اور اگر ایسے نام رکھنے کی ضد ہے تو پھر سوال بھی ضرور کھڑے ہونگے۔یہ بات صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر دھرم اور ہر ذات کے لوگ دھیان رکھیں کہ برے کرداروں پر نام رکھنا برائی کی پرستش کرنے جیساہے۔

سوال یہ ہے کہ کسی بھی بچہ کا نام رکھنا ماں باپ کے اختیار میں ہے یا معاشرہ مل کر طے کرے گا کہ اس بچہ کا نام کیا رکھاجائے۔بچہ کا نام تیمور رکھنے پر ہنگامہ برپا کرنا کس خطرناک سوچ کا نتیجہ ہے؟کیا ہم اتنے ”راشٹروادی“ ہوگئے ہیں کہ معصوم بچے کے نام میں بھی ”راشٹریتا“تلاش کرلیتے ہیں۔کیا یہ ایک سیکولر ملک میں رہنے والے لوگوں کی ذہنیت ہے۔قطعی نہیں۔اگر ہماری ذہنیت اتنی بیمار ہوگئی ہے تو پھر ہم سیکولر نہیں ہیں۔سیکولر ریاست ان سوالوں کی اجازت نہیں دیتی۔ہر انسان اپنے عقیدہ اور نظریہ کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے۔اسی ہندوستان میں ایسے غیر مسلم افراد بھی رہتے ہیں جو بھگوان رام کے کردار کی عظمت کے قائل نہیں ہیں۔مگر ان کے خلاف کبھی ہنگامہ نہیں کیا گیا۔رجنیش اوشو اسی سیکولر ملک کا باشندہ تھا جو بھگوان رام کا سخت مخالف تھا اور راون کے کردار کو عظیم تصور کرتا تھا۔اوشو کے علاوہ آج بھی کتنے ایسے ہندواسکالر ہیں جو بھگوان رام کے وجود پر ہی سوالیہ نشان قائم کرتے رہتے ہیں۔مگر آج تک کسی ایسے اسکالر نے یہ نہیں کہا کہ اپنے بچوں کا نام بھگوان رام کے نام پر مت رکھو یا تمام ہندو راون کی پوجا کرنے لگیں۔کیونکہ تاریخی حقائق کی روشنی میں اپنے نظریات کو درست کرنا عوام کے بس میں نہیں ہوتا۔یہ کام ایک مخصوص طبقہ سے متعلق ہوتاہے اور وہی ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔یہی حال مسلمان بادشاہوں کا ہے۔مسلمانوں کے جتنے مکتب فکر ہیں اتنے ہی مسلم بادشاہوں کے متعلق انکے نظریات ہیں۔امیر تیمور،بابر،ہمایوں،اورنگ زیب،محمد بن قاسم،جہاں گیر یا پھر صلاح الدین ایوبی،اموی بادشاہ،عباسی حکمران،تغلق خاندان اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے متعلق ہر مکتب فکر اور ہر مسلم اسکالر کے نظریات الگ الگ ہیں۔لہذا یہ کہنا کہ مسلمان انہیں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں یہ سوچنا غلط ہے۔مسلمان کسی بھی ظالم کا طرفدار نہیں ہوسکتا اور جو ظالموں کی وکالت کرتا ہے وہ صرف نام کا مسلمان ہوسکتاہے۔قابل تحقیق یہ ہے کہ ایسے ظالم اور بدکردار افراد ہر مذہب اور ہر ذات میں ہوئے ہیں مگر شخصیت پرستانہ ذہنیت انہیں براکہنے سے ڈرتی ہے۔

اب تیمور لنگ کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔تیمور ایک بڑا جنگجو اور عظیم فاتح تھا۔تیمور کا شمار دنیا کے بڑے فاتحین میں ہوتاہے۔تیمور کی رگوں میں چنگیزی لہو بھی تھا لہذا چنگیز خان کے صفات بھی اسکی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہے تھے۔تیمور نے سلطنت کی زما م سنبھالنے کے بعد چالیس سے زیادہ ملکوں کو فتح کیا۔تیمور نے فقط ہندوستان پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ ایران،شام،قندھار،سیستان،آذر بائیجان،کلات،تکریت گرجستان،عراق،ماسکو اور روس کو بھی فتح کیا تھا۔وہ چین پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا مگر اسکی عمر نے وفا نہیں کی۔تیمور نے جن ملکوں کو فتح کیا ان علاقوں کی اکثر حکومتیں مسلمان تھیں۔اگر
تیمور اسلامی سلطنت کی وسعت کے لئے جنگ کررہا ہوتا تو پھر ایسے ملکوں پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جہاں پہلے سے ہی مسلمان حکومتیں قائم تھیں؟۔ظاہر ہے دوسرے بادشاہوں کی طرح تیمور بھی اپنی حکومت کی سرحدوں کی توسیع میں مصروف تھا۔اس کا مقصد عیسائیوں،ہندوؤں اور مسلمانوں پر حکومت کرنا تھا ناکہ وہ اسلامی تبلیغ کا جھنڈا لیکر نکلا تھا۔ہر باد شاہ کو اسی تناظر میں دیکھناچاہئے۔کیونکہ تیمور نے جس وقت ہندوستان پر حملہ کیا اس وقت ہندوستان میں صرف ہندو حکومت قائم نہیں تھی بلکہ ہندوریاستوں کے ساتھ مسلمان ریاستیں بھی قائم تھیں۔تیمور نے توقتمش،بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو مغلوب کرکے مسلمانوں کی دوبڑی طاقتوں پر کاری ضرب لگائی تھی۔اگر تیمور کی فتوحات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اسکی فتوحات کی بنیاد پر مسلمانوں کو مستقبل میں کتنا بڑا نقصان جھیلنا پڑااور دوسری غیر مسلم طاقتوں نے اسکی بنیاد پر کتنا عروج پایا۔تیمور نے جس طرح ہندوستان پر حملے کے وقت ہندوحکمرانوں سے جنگ کی اسی طرح مسلم راجاؤں سے بھی لوہا لیا۔تیمور،اکبر،اورنگ زیب اور جہان گیر جیسے باد شاہ مسلمان ضرور تھے مگر یہ اسلامی ہیرو نہیں ہیں۔اور اگر مسلمان ان بادشاہوں کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں تو یہ افسوسناک ہے۔
عادل فراز
adilfaraz2@gmail.com