پچھلے دنوں مجھے شہر کے ایک رئیس مسلم گھرانے کے ولیمہ کی دعوت میں شرکت کا موقع ملا۔ اس دعوت کا اہتمام شہر کے ایک اعلیٰ قسم کے میرج لان میں تھا۔ میں اپنی عادت کے مطابق دعوت کے کارڈ پر درج وقت پر جب وہاں پہونچا تو اندازہ ہوا کہ میں غلط وقت پر آگیا کیونکہ اس وقت تک صاحبِ خانہ بھی وہاں نہیں پہونچے تھے۔ میں مجبوراً پنڈال میں سجی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ لگ بھگ دو گھنٹے بعد چند افراد اور آگئے اس طرح میرا اکیلا پن ختم ہوا۔ رفتہ رفتہ لوگوں کی آمد شروع ہوئی۔ مرد، خواتین اور بچے چلے آرہے تھے۔ مہمانوں کے رزق برق لباس ان کی امارت کا پتہ دے رہے تھے۔ خواتین بھی بنی سنوری، سجی دھجی، خوشبوؤں میں نہائی چلی آرہی تھیں۔ مووی کیمرے والے پوری مستعدی کے ساتھ خواتین اور دوشیزاؤں پر اپنے کیمرے کی آنکھ جمائے تھے۔ وہاں پر آنے والی خواتین زیادہ تر برقعہ پوش تھیں مگر برقعے ایسے کہ اس میں تمام لباس نظر آرہا تھا۔ خواتین برقعہ کے ساتھ جو دوپٹہ استعمال کر رہی تھیں وہ بھی اس قدر مہین کہ بالوں میں لگے پھول اور زیور نمایاں ہو رہے تھے۔ برقعے بھی سادے نہیں بلکہ اس قدر کامدار کی بجلی کی روشنی میں ان پر نظر ٹھہرنا مشکل۔ خوشبو کا یہ عالم کہ معلوم ہو رہا تھا کہ یہ خواتین شاید کسی پرفیوم کمپنی کی ماڈل ہوں۔

میرے لئے یہ منظر تکلیف دہ تھا لہٰذا میں نے جلد از جلد وہاں سے راہِ فرار اختیار کی۔ گھر پہونچ کر میں سیدھا بستر پر دراز ہوگیا تب جاکر کچھ سکون نصیب ہوا۔ مگر اب بھی میرے ذہن میں ایک سوال بار بار سر اٹھا رہا تھا کہ یہ تقریب اس ملّت کی تھی جو اللہ کو مانتی، قرآن کو جانتی ہے۔ اپنے کو محمدؐ کی امت میں ہونے پر فخر کرتی ہے اور نعرہ لگاتی ہے۔”فخر سے کہو ہم مسلمان ہیں۔“مگر…..اللہ تبارک تعالیٰ کے احکامات کی کھلی نافرمانی اس فخر یہ انداز میں کیوں۔؟

میرے ذہن میں پردہ کے سلسلے میں قرآن حکیم کی وہ سورۃ آگئی۔ جس میں اللہ تبارک تعالیٰ نے ارشاد فرمایا”اے بنی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔“

اس قرآنی احکام کی روشنی میں اگر غور کریں تو ہماری سمجھ میں آجائے گا کہ پردہ کا اصل مقصد کیا ہے۔ پردہ پہچان ہے مسلم خواتین کا۔ جو ان کے لئے باعثِ عزت بھی ہے۔ اسلام ہر اس برائی کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے جس سے آگے چل کر برے نتائج نکلنے والے ہوں۔ اللہ تبارک تعالیٰ کے تمام قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ پردہ کے تعلق سے بھی انسانی فطرت کے مطابق پہلے یہ حکم دیا گیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو پھر یہ تعلیم دی گئی کہ اگر کسی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو کس طرح باہر نکلا جائے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیں قرآن کی شکل میں ایک مکمل ضابطہئ حیات عطا کیا۔ اور سیرتِ رسولؐ کو ہمارے لئے آئیڈیل بنایا تاکہ ہم اس سے فیض حاصل کر سکیں اور کسی بہکاوے میں نہ آئیں۔ اسی لئے سورۃ احزاب کی آیت ۶۳ میں ارشاد باری ہے کہ ”کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں تو پھراسے اپنے معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اوراس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تووہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔“

اس احکام کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج کا یہ برقعہ کس خانے میں آئے گا۔ یہ برقعہ باعثِ عفت مانا جائے گا یا باعثِ زینت۔ حقیقت بڑی تلخ ہے آج ہم اسلام یا مذہب کو صرف اپنے فائدے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ وگرنہ مذہب بیزاری ہماری زندگی میں ہر جگہ نظر آتی ہے جبکہ سورۃ الحشر آیت ۷میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”جو رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کر یں اس سے رک جاؤ۔“
اس سلسلہ میں ترمذی کی حدیث ہے رسولؐ نے فرمایا ”اجنبیوں میں زینت کے ساتھ ناز و انداز سے چلنے والی عورت ایسی ہے جیسے روزِ قیامت کی تاریکی،کہ اس میں کوئی نور نہیں۔“

دوسری حدیث ہے حضورؐ نے فرمایا”جس رات تم کونماز میں شریک ہونا ہو، اس رات کسی قسم کا عطر لگاکر نہ آؤ۔ نہ بخور استعمال کرو بلکہ سادہ لباس میں آؤ جو عورت خوشبو لگاکر آئے گی اس کی نماز نہ ہوگی۔“
سوال یہ ہے کہ کہا آج ہم پردہ کے سلسلے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں۔؟ نہیں کیونکہ اگر ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی پابندی کرتے ہوتے تو ہمارے گھر کی خواتین کے مزاج میں زمانے کے فیشن کی دوڑ میں شامل ہونے کی تمنا نہ ہوتی اور وہ آج اسی طرح کا برقعہ استعمال کر رہی ہوتیں جس سے شریعت اسلامی کی پابندی ہوتی اور دنیا کی ہوس ناک نظروں کا نشانہ بھی نہ بنتیں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہماری خواتین کو برقعہ دقیا نوسیت کی علامت لگتا ہے۔ اور جو خواتین برقعہ استعمال کرتی ہیں وہ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ جیسے پردہ کے لئے نہ ہوکر فیشن کے لئے ہوں۔

یہ سب بگاڑ اس لئے ہے کہ ہماری فکر صالح نہیں ہے۔ ہمارے گھروں کا ماحول بھی اسلامی نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا کھلا دشمن شیطان کامیاب ہو رہا ہے وہ ہمیں شعائر اسلامی اختیار کرنے کا وہ ڈھنگ سکھاتا ہے جس میں اسلامی روح باقی نہ رہے بس رسم باقی رہ جائے۔ یہی حال پردہ کے سلسلے میں بھی ہے یعنی جو خواتین اللہ کے حکم کے بجائے سماج سے مجبور ہوکر برقعہ ترک نہیں کر پا رہی ہیں ان کی فکر کو شیطان نے اس طرح موڑ دیا کہ برقعہ ان کے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن جائے اور آخر تنگ آکر وہ اسے ترک کر دیں۔

کسی دانش ور کا قول ہے کہ جب فیشن دروازے پر آتا ہے تو بدعنوانی سڑک پر آجاتی ہے۔ آج فیشن دروازے سے سڑک پر آگیا ہے۔ سوچئے بدعنوانی کہاں ہوگی۔؟
ابھی وقت ہے۔ آئیے ہم سب مل کر غور کریں۔ اور اپنے گھروں سے اصلاح کی شروعات کریں۔ کیونکہ اگر اب بھی اس طرف توجہ نہ دی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات اس قدر بگڑ جائیں کہ ہم کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہ کرسکیں۔؟

منظور پروانہؔ

چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018

موبائل:9452482159